سپریم کورٹ نے قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ ، جسٹس خادم حسین اور جسٹس محمد آصف کو کام سے روکنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے 5 ججز کی درخواست پر قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین، جسٹس محمد آصف، متعلقہ ہائیکورٹس کے رجسٹرارز اور اٹارنی جنرل کو نوٹسز جاری کردیے۔
سپریم کورٹ میں جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس صلاح الدین پہنور اور جسٹس شکیل احمد پر مشتمل 5 رکنی آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کی سینیارٹی کے حوالے سے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سماعت کے آغاز میں کہا کہ ہمارے سامنے 7 مختلف درخواستیں موجود ہیں، سنیارٹی کیس میں پانچوں جج بھی ہمارے سامنے درخواست لائے، کیوں نہ ہم ججز کی درخواست کو ہی پہلے سنیں؟ راجہ مقسط، عمران خان اور اسلام آباد ہائیکورٹ ے ججز سمیت دیگر درخواست گزار ہیں۔
اس موقع پر راجہ مقسط اور عمران خان کے وکیل ادریس اشرف روسٹرم پر آگئے، وکیل ادریس اشرف نے کہا کہ بنیادی حقوق کے معاملے پر ہم نے درخواست دی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پہلے ججز کی درخواست سننا بہتر ہوگا، رولز کے مطابق بھی سینئر وکیل کو پہلے سننا چاہیے۔
اس دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے وکیل منیر اے ملک اور صلاح الدین روسٹرم پر آگئے اور منیر اے ملک نے دلائل کا آغاز کر دیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس کیس میں دو اہم نکات ہیں، ایک نکتہ یہ ہے کہ ججز کا تبادلہ ہوا، دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ ججز کی سنیارٹی کیا ہو گی؟ ایک بات واضح ہے کہ سول سروس ملازمین کے سنیارٹی رولز یہاں اپلائی نہیں ہوں گے، دیکھنا یہ ہے کیا سنیارٹی پرانی ہائیکورٹ والی چلے گی؟ دوسرا سوال ہے کہ کیا تبادلے کے بعد نئی ہائیکورٹ سے سنیارٹی شروع ہو گی؟ آپ کا اعتراض تبادلے پر ہے یا سنیارٹی میں تبدیلی پر؟
وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ ہمارا اعتراض دونوں معاملات پر ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جج کا تبادلہ آرٹیکل 200 کے تحت ہوا وہ پڑھ دیں جس پر منیر اے ملک نے آرٹیکل 200 پڑھ دیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئین کے مطابق جس جج کا تبادلہ ہو اس کی رضامندی ضروری ہے، دونوں متعلہ ہائیکورٹس کے چیف جسٹس کی رضامندی بھی لازمی ہے جبکہ چیف جسٹس پاکستان کی رضامندی بھی لازم قرار دی گئی ہے۔
منیر اے ملک نے کہا کہ ہمارا اعتراض یہ ہے کہ جج کا تبادلہ صرف عارضی طور پرہو سکتا ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایسا ہوتا تو آئین میں لکھا جاتا وہاں تو عارضی یامستقل کا ذکر ہی نہیں، آئین میں صرف اتنا لکھا ہے کہ صدر پاکستان جج کا تبادلہ کرسکتے ہیں۔
منیر اے ملک نے کہا کہ صدر مملکت کے پاس ججز تبادلوں کا لامحدود اختیار نہیں، ججز تبادلوں کے آرٹیکل 200 کو ججز تقرری کے آرٹیکل 175 اے کے ساتھ ملا کر پڑھنا ہوگا، آئین کے مطابق تمام ججز کے ساتھ یکساں سلوک کیا جانا چاہیے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے صدر مملکت کے پاس ججز کے تبادلوں کا اختیار ہے، اگر ججز کے تبادلوں میں اضافی مراعات ہوتیں تو اعتراض بنتا تھا، خود سے صدر ججز کے تبادلے کر دے تو سوال اٹھے گا، چیف جسٹس پاکستان کی سفارش پر تبادلے آئین کے مطابق ہیں۔
دوران سماعت جسٹس نعیم اختر افغان نے ججز تبادلے پر اہم سوالات اٹھاتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا قیام ایکٹ کے ذریعے ہوا ہے، کیا ایکٹ میں ججز کو تبادلہ کر کے لانے کا اسکوپ موجودہے؟ منیر منیر اے ملک نے موقف اپنایا کہ ایکٹ میں ججز کو تبادلہ کر کے لانے کی گنجائش نہیں ہے، ایکٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں صرف نئے ججز کی تعیناتی کا ذکر ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا جب ججز کی اسامیاں خالی تھیں تو تبادلے کے بجائے انہی صوبوں سے نئے جج کیوں تعینات نہ کیے گئے؟ کیا حلف میں ذکر ہوتا ہے کہ کون سی ہائیکورٹ کا حلف اٹھا رہے ہیں؟ منیر اے ملک نے جواب دیا حلف کے ڈرافٹ میں صوبے کا ذکر ہوتا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا حلف اٹھاتے ہوئے اسلام آباد کیپیٹل ٹیراٹری کا ذکر آتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ہم جب عارضی جج بنتے ہیں تو حلف ہوتا ہے، مستقل ہونے پر دوبارہ ہوتا ہے، سنیارٹی ہماری اس حلف سے گنی جاتی ہے جو ہم نے بطور عارضی جج لیا ہوتا ہے، دیکھنا یہ ہے اگر دوبارہ حلف ہو بھی تو کیا سنیارٹی سابقہ حلف سے نہیں چلے گی؟ نئے حلف سے سنیارٹی گنی جائے تو تبادلے سے پہلے والی سروس تو صفر ہوجائے گی۔
منیر اے ملک نے کہا کہ اسی لئے آئین میں کہا گیا ہے جج کو اس کی مرضی لے کر ہی ٹرانسفر کیا جائے۔
عدالت نے 5 ججز کی درخواست پر قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین، جسٹس محمد آصف، متعلقہ ہائیکورٹس کے رجسٹرارز اور اٹارنی جنرل کو نوٹسز جاری کردیے۔
جسٹس محمد علی نظہر نے ریمارکس دیے آپ کی درخواست میں کام کرنے سے روکنے کی استدعا ہی نہیں، آپ زبانی استدعا کر رہے ہیں جبکہ آپ کی درخواست میں کام سے روکنے کی استدعا ہی نہیں۔
کراچی ہائیکورٹ بار کے وکیل فیصل صدیقی روسٹرم پر آئے اور موقف اپنایا کراچی ہائیکورٹ بار کی درخواست میں کام روکنے کی استدعا کی گئی ہے۔
دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھواتے ہوئے کہا کہ آئینی بینچ میں7 درخواستیں دائر ہوئیں، درخواست گزاروں میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج بھی شامل ہیں۔
حکم نامے کے مطابق ایڈووکیٹ منیر اے ملک نے دلائل میں کہا کہ آرٹیکل 200 کے تحت ججز اختیارات کو ریگولیٹ ہونا چاہیے، آئینی بینچ کو بتایا گیا ججز ٹرانسفر نوٹیفکیشن میں منطقی وجوہات ہونی چاہئیں، عدالت کے سامنے یہ دلیل بھی رکھی گئی اگر ایک جج دوسری ہائیکورٹ میں تبادلے کو قبول کرے تو نئی ہائیکورٹ کا حلف بھی لینا چاہیے۔
حکم نامے کے مطابق عدالت کے سامنے یہ دلیل بھی رکھی گئی کہ آرٹیکل 200 کے تحت تبادلے کا اختیار لامحدود نہیں ہونا چاہیے، عدالت کے سامنے یہ دلیل بھی دی گئی کہ کسی جج کا دوسری ہائیکورٹ میں ٹرانسفر محدود وقت کے لیے ہونا چاہیے۔
حکم نامے میں مزید لکھوایا گیا کہ ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کہا کہ جو جج ایک ہائیکورٹ سے تبادلہ ہو کر دوسری ہائیکورٹ میں آتا ہے تو اسی ہائیکورٹ میں سنیارٹی لسٹ برقرار رہتی ہے، فیصل صدیقی نے کہا کہ جج ٹرانسفر ہونے کے بعد مذکورہ ہائیکورٹ میں سنیارٹی کی عبوری لسٹ ہونی چاہیے۔
حکمنامے کے مطابق وکیل ادریس اشرف نے کہا کہ عدالت ٹرانسفر کا پورا ریکارڈ منگوائے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ نے سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کو سول کورٹ بنا لیا ہے؟ جو درخواستوں میں تبادلے کا ریکارڈ لگایا گیا ہے کیا وہ غلط ہے؟
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ وکیل حامد خان نے موقف اختیار کیا میرے دلائل کو بھی عدالتی حکم کا حصہ بنایا جائے، 6 ججز کے خط پر ازخود نوٹس لیا گیا تھا، ان 6 ججوں میں سے 5 جج وہ ہیں جنہوں نے آپ سے رجوع کیا ہوا ہے۔
حکم نامے کے مطابق جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کے دلائل سمجھ نہیں پا رہے، کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم 6 ججز کے خط والا معاملہ اس کیس کے ساتھ سنیں؟ اس کیس کا 6 ججوں کے خط کے ساتھ کیا تعلق ہے؟
وکیل حامد خان نے کہا میں کسی مناسب وقت کے لیے اپنی اس دلیل کا حق محفوظ رکھتا ہوں۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل نے درخواست کے قابل کے سماعت ہونے پر اعتراض اٹھایا اور کہا کہ یہ درخواست آرٹیکل 184(3) کے تحت قابل سماعت ہی نہیں ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔
سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین اور جسٹس آصف کو کام سے روکنے کی استدعا مسترد کردی۔
وکیل منیر اے ملک نے موقف اختیار کیا جوڈیشل کمیشن کا اجلاس 18 اپریل کو ہے سماعت 18 اپریل سے پہلے مقرر کیا جائے، جس پر عدالت نے کیس کی سماعت 17 اپریل تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ 3 ججوں کی دوسرے ہائی کورٹس سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبالے اور انہیں کام سے روکنے کے لیے 7آئینی درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔
درخواستوں میں جسٹس سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا سینئر جج قرار دینے کی سینارٹی لسٹ کو بھی چیلنج کیا گیا تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی سمیت 5 ججوں نے سینارٹی لسٹ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔