بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بھیجی گئی رقوم میں ریکارڈ اضافہ: کیا یہ حکومتی معاشی پالیسیوں کا نتیجہ ہے یا وجوہات کچھ اور ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Apr 15, 2025

AFPگورنر سٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران ترسیلات زر 38 ارب رہنے کی توقع ہے

گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد کے مطابق بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے موجودہ مالی سال کے دوران مارچ کے مہینے میں چار ارب دس کروڑ ڈالر پاکستان بھیجے گئے ہیں، جو کسی بھی ایک مہینے میں ایسے پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی سب سے بڑی رقم ہے۔

پیر کی صبح کراچی میں ایک تقریب سے گورنر سٹیٹ بینک کے خطاب میں اس بارے میں یہ معلومات فراہم کیے جانے کے کچھ ہی دیر بعد مرکزی بینک کے میڈیا ونگ کی جانب سے بھی یہی اعداد و شمار جاری کیے گئے۔

سٹیٹ بینک کے ترجمان نے رابطہ کرنے پر بی بی سی اردو کو بتایا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ بیرونِ ملک سے اس مد میں آنے والی رقم نے چار ارب ڈالر کا ہدف عبور کیا ہے اور اس سے پہلے مئی 2024 میں سب سے زیادہ 3.2 ارب ڈالر کی رقم آئی تھی۔

مرکزی بینک کے مطابق مارچ 2024 کے مقابلے میں مارچ 2025 میں موصول ہونے والی ترسیلات زر میں 37 فیصد کا بڑا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ رواں مالی سال ترسیلات زر 38 ارب رہنے کی توقع ہے۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ خلیجی ممالک میں معاشی سرگرمیوں میں اضافے کی وجہ سے بیرونِ ملک سے پاکستان بھیجی جانے والی رقم میں اضافہ ہوا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے بھی اعداد و شمار شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ’سمندر پار پاکستانی ہمارا اثاثہ ہیں۔ مجھ سمیت پوری قوم کو اپنے محنت کش سمندر پار پاکستانیوں پر فخر ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’رواں مالی سال اب تک ترسیلات زر مجموعی طور پر 28 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ ترسیلات زر کا ریکارڈ سطح پر پہنچنا سمندر پار پاکستانیوں کے حکومتی پالیسیوں پر اعتماد کی عکاسی ہے۔‘

سٹیٹ بینک کے جانب سے جاری اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ مارچ 2025 میں سعودی عرب سے مجموعی طور پر 98 کروڑ 73 لاکھ ڈالر، متحدہ عرب امارات سے 84 کروڑ سے زائد، جبکہ برطانیہ سے 68 کروڑ اور امریکہ سے 42 کروڑ ڈالر کے لگ بھگ رقم آئی ہے۔

EPA’انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر یکساں ہونے کی وجہ سے اب زیادہ لوگ غیررسمی طریقوں سے رقوم پاکستان نہیں بھیج رہے ہیں، جس کے باعث ترسیلات زر میں اضافہ نظر آیا‘

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے مالیاتی امور کے تجزیہ کار فرحان محمود کا کہنا تھا کہ ترسیلات زر ڈالر بیسڈ ہوتی ہیں جو بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں کی جانب سے اپنے ملک میں اپنے گھر والوں کو یا بچت کے طور پر بھیجی جاتی ہیں، یہ رقم بینکوں اور منی ایکسچنیج کمپنیوں کے ذریعے بھیجی جاتی ہیں۔

مارچ میں بھیجی گئی رقم میں اضافے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے فرحان محمود کا کہنا تھا کہ اس کی ایک بڑی وجہ رمضان اور عید کے موقع پر بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے زیادہ رقم بھیجنے کا رجحان ہے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ غیررسمی اور غیر قانونی طریقوں اور حوالہ ہنڈی پر سختی کی وجہ سے قانونی طور پر اب زیادہ ڈالرز پاکستان آ رہے ہیں۔

انھوں نے کہا بیرونِ ملک سے آنے والے زرِمبادلہ کا پاکستانی معیشت میں اہم کردار ہے کیونکہ یہ کرنٹ اکاؤنٹ کو سپورٹ کرتا ہے اور بیلنس آف پیمنٹ میں مدد فراہم کرتے ہیں یعنی ان ڈالروں کی وجہ سے پاکستان سے درآمد کے لیے باہر بھیجے جانے والوں ڈالروں کا خسارہ پورا کیا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا برآ مدات سے بھی ڈالر پاکستان آتے ہیں تاہم اب ترسیلات زر سے زیادہ آ رہے ہیں اور یہ رجحان نظر آ رہا ہے، جس سے لگتا ہے کہ رواں مالی سال میں 36 ارب ڈالر تک کا زرِمبادلہ موصول ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔

ترسیلات زر بڑھنے کی وجوہات کیا ہیں؟Getty Images’پاکستان میں بڑھتی مہنگائی کے باعث اب بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو اپنے خاندانوں کو زیادہ رقوم پاکستان بھیجنی پڑ رہی ہیں‘

ماہر معیشت خرم شہزاد کے مطابق سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک میں کام کرنے والے پاکستانیوں کی بھیجی گئی رقوم پاکستان کی معیشت کے لیے انتہائی اہم ہیں اور ان کا ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی کلیدی کردار رہا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ پاکستان کو موصول ہونے والے مجموعی رقم میں سے لگ بھگ دو تہائی مشرق وسطیٰ میں رہنے والے پاکستانی بھیجتے ہیں۔ اُن کے مطابق اس ضمن میں دیگر ممالک سے آنے والی رقوم میں اضافے نے بھی ترسیلات زر کے مجموعے کو بڑھایا ہے۔

وزارت خزانہ کے سابق مشیر ڈاکٹر نجیب خاقان کے مطابق اس اضافے کی چار وجوہات سامنے آ رہی ہیں۔

ان کے مطابق مارچ کے مہینے میں رمضان اور عید کی وجہ سے بھی بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے بڑی رقوم پاکستان بھیجی گئی اور عموماً ایسا ہر سال ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ چونکہ اب انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں روپے اور ڈالر کی قیمت میں کوئی فرق نہیں رہا، اس لیے لوگوں کا رسمی یا قانونی چینلز کے ذریعے رقوم بھیجنے سے متعلق اعتماد بڑھا ہے اور اب بیرون ملک پاکستانی رسمی طریقوں سے پیسے واپس اپنے ملک بھیج رہے ہیں۔

دیگر وجوہات کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر نجیب خاقان کا کہنا تھا کہ حالیہ برسوں میں بڑی تعداد میں پاکستانی شہری روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک منتقل ہوئے ہیں، اس کی وجہ سے بھی ترسیلات زر میں اضافہ ہوا۔

پاکستانی مصنوعات پر نیا امریکی ٹیرف: ٹرمپ کے فیصلے سے ملکی برآمدات پر کیا اثر پڑے گا؟آئی ایم ایف کی جانب سے سات ارب ڈالرز قرض کی منظوری سے پاکستانی معیشت اور عام افراد کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟اُڑان پاکستان: معاشی بحالی کا 10 سالہ منصوبہ ’گیم چینجر‘ یا ’غیر حقیقی‘؟پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں ’سنگل ڈیجٹ تک کمی‘ کے حکومتی دعوؤں کی حقیقت کیا ہے؟

ان کے مطابق پاکستان میں گذشتہ تین برسوں کے دوران مہنگائی میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے گھریلو اور مجموعی اخراجات بڑھے ہیں اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بیرون ملک پاکستانی اپنے گھروں میں زیادہ سے زیادہ پیسے بھیجنے پر مجبور ہوئے ہیں۔

تاہم ماہر معیشت خرم شہزاد کے مطابق متعدد پالیسی اقدامات بھی ترسیلات زر میں اضافے کی وجہ بنے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ جیسا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو رقم بھیجنے کے لیے بینکنگ چینلز کے ذریعے دی جانے والی ترغیبات وغیرہ شامل ہیں۔

سعودی عرب میں فاسٹ فوڈ کے کاروبار سے منسلک پاکستانی شہری سید عبدالکبیر شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ حالیہ عرصے میں دیکھا گیا ہے کہ خلیجی ممالک میں اب اِس قانون پر سختی سے عمل کیا جا رہا ہے جس کے تحت ملازمین کی تنخواہیں اور الاؤنسز کیش کے بجائے بینک اکاؤنٹس میں بھیجنے لازمی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ کیش ادائیگیاں نہ کرنے کے وجہ سے حوالہ اور ہنڈی سے پیسے بھیجنے کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے اور لوگ اب زیادہ تر رسمی طریقوں سے اپنی رقوم پاکستان بھیج رہے ہیں۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور میں متعارف کروائی گئی ’روشن ڈیجٹل اکاؤنٹس‘ کی سہولت نے بھی سمندر پار پاکستانیوں کو بینکنگ چینلز کے ذریعے رقوم بھجنے کے قابل بنایا ہے۔

ترسیلات زر میں اضافہ اور تحریک انصاف پر تنقیدGetty Images’یہ ترسیلات اس وقت فی کس آمدن کے حساب سے کم ہیں اور گذشتہ تین برسوں میں ترسیلات زر کی آمد سست روی کا شکار رہی ہیں‘

دوسری جانب پاکستان میں سوشل میڈیا پر حکمراں جماعت مسلم لیگ سے منسلک اکاؤنٹس ترسیلات زر میں اضافے کو پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے دی گئی ایک کال کی ناکامی کے طور پر بھی بیان کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ دسمبر 2024 میں اڈیالہ جیل میں مقید سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خلاف الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے ملک میں سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر پوسٹ کردہ ان کے بیان میں کہا گیا تھا کہ ’اگر ان کے مطالبات نہیں مانے جاتے تو ایک تحریک کے تحت ہم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں پر زور دیں گے کہ وہ پاکستان بھیجی جانے والی ترسیلات زر کو محدود کریں اور بائیکاٹ مہم شروع کریں۔‘

تاہم عمران خان کی اس کال کے باوجود رواں مالی سال کے دوران ترسیلات زر میں اضافہ ہی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق، دسمبر 2024 میں عمران خان کی جانب یہ بیان سامنے آنے کے بعد، جنوری 2025 میں سمندر پار مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر جنوری 2024 میں بھیجی جانے والی ترسیلات زر سے 25 فیصد زیادہ تھیں۔ یاد رہے کہ جنوری 2025 میں موصول ہونے والی مجموعی ترسیلات زر 3 ارب ڈالر کے لگ بھگ تھیں۔

اور اس کے بعد سے ہر ماہ موصول ہونے والی ترسیلات زر گذشتہ مالی سال کے اسی مہینے کے مقابلے میں زیادہ رہی ہیں۔

دوسری جانب خیبر پختونخوا حکومت کے معاشی امور کے مشیر مزمل اسلم نے بی بی سی کو بتایا کہ اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2022 سے لے کر اب تک 30 لاکھ لوگ پاکستانی ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔

مزمل اسلم کے مطابق عمران خان کے دور میں، سنہ 2022 میں، ترسیلات زر تین ارب ڈالرز تک تھیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت کو گذشتہ تین ماہ کے دوران اوسط سے بھی کم ترسیلات موصول ہوئی ہیں۔ اُن کے مطابق یہ کوئی ’ونڈ فال‘ یا ’آؤٹ سٹینڈنگ‘ اعدادوشمار نہیں ہیں بلکہ ہر مہینے چار ہزار ڈالر کا نمبر ہر صورت آنا چاہیے۔

مزمل اسلم کے مطابق یہ ترسیلات اس وقت فی کس آمدن کے حساب سے کم ہیں اور گذشتہ تین برسوں میں ترسیلات زر کی آمد سست روی کا شکار رہی ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ جہاں تک بات عمران خان کی ترسیلات زر کی بائیکاٹ کی ہے تو گذشتہ دو ڈھائی مہینے سے سابق وزیر اعظم کو کسی سے ملنے ہی نہیں دیا جا رہا ہے اور اب اس حوالے کا اُن کا مؤقف کیا ہے یا کال کیا ہے، وہ سامنے نہیں آ رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت بیرون ملک پاکستانی اپنی ’سیونگز‘ نہیں بلکہ اپنے خاندانوں کو پالنے کے لیے زیادہ سے زیادہ رقوم بھیجنے پر مجبور ہیں۔

جنید ساہی نامی صارف کا کہنا تھا کہ گذشتہ چار ماہ سے تحریک انصاف سوشل میڈیا پر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو رقوم پاکستان نہ بھیجنے سے متعلق مہم چلا رہی ہے مگر اس کے باوجود ترسیلات زر میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

صارف سعد قیصر کا کہنا تھا کہ اعداد و شمار یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے تحریک انصاف کی ’بائیکاٹ ریمیٹینسس‘ مہم کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے۔

امریکی ٹیرف پر پریشان ہیں مگر جوابی اقدام کا ارادہ نہیں: پاکستانی وزیرِ خزانہامریکی ٹیرف کے بعد پاکستان سٹاک ایکسچینج میں مندی: کون سے شعبے متاثر ہوئے؟اُڑان پاکستان: معاشی بحالی کا 10 سالہ منصوبہ ’گیم چینجر‘ یا ’غیر حقیقی‘؟ایک سال پہلے اربوں روپے خسارے والی پی آئی اے منافع بخش کیسے بن گئی؟پاکستان میں آئی فون 10 لاکھ روپے کا؟ ٹیرف کے نفاذ کے بعد امریکی مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے کا خدشہکھربوں کا نقصان اور تاریخی مندی: ٹرمپ کے اقدامات پاکستان سمیت ایشیائی سٹاک مارکیٹوں کے لیے کتنے تباہ کُن ثابت ہوئے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More