یہ 9 اپریل 1988 کی ایک عام صبح تھی، مگر 14 سالہ عقیل عباسی کی زندگی میں یہ دن ایک غیرمعمولی موڑ بن کر آیا۔ وہ راولپنڈی کے مری روڈ پر واقع شیشہ ساز کی دکان پر ہمیشہ کی طرح کام سیکھنے گیا۔کام کے دوران ایک شیشہ ہاتھ سے پھسلا اور زمین پر ٹوٹ گیا۔ مالک کی ڈانٹ اور تھپڑ نے کم سن عقیل کو ایسا دل شکستہ کیا کہ وہ بھاگ نکلا اور اس جذبات فیصلے نے اسے خاندان سے کئی دہائیوں کے لیے دور کر دیا۔
گھر والوں نے تلاش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، مگر اگلے ہی روز اوجڑی کیمپ میں دھماکوں کا واقعہ ہو گیا اور خاندان کو یہی لگا کہ ہو سکتا ہے کہ عقیل دھماکوں کا نشانہ بن گیا ہو اور وقت گزرتا گیا۔
ایک اجنبی کی پناہ، ایک نئی شناخت
راولپنڈی میں دکان کے باہر روتےا ہوئے عقیل کی ملاقات مجوکی (چارسدہ) کے ایک شہری ارباز خان (فرضی نام) سے ہوئی۔ اس نے سہمے ہوئے لڑکے کو نہ صرف کھانا کھلایا بلکہ ساتھ چارسدہ لے گیا۔
عقیل عباسی نے اپنے خاندان کا پتہ بتانے سے انکار کر دیا اور ارباز خان نے اسے اپنی اولاد جیسا پیار دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ عقیل وہاں مستری بن گیا، شادی کی، اور پھر چار بچوں کا باپ بھی بن گیا۔ عقیل عباسی کا تعلق خیبرپختونخوا کے ضلع و تحصیل ایبٹ آباد کے قصبے بیروٹ جلیال سے ہے۔ وہ 9 اپریل 1988 کو راولپنڈی مری روڈ سے لاپتہ ہو کر چارسدہ چلا گیا تھا۔پچھ 37 برسوں سے وہ ضلع چارسدہ کے قصبے مجوکی میں مقیم رہے، اور مقامی شہریوں کی مدد سے پچھلے ہفتے اپنے خاندان والوں سے ملے۔عقیل عباسی 1988 میں راولپنڈی میں ایک شیشے کی دکان پر کام کیا کرتے تھے (فوٹو: فیس بک، اپنا راولپنڈی)عقیل عباسی کے پھوپی زاد بھائی، انصر عباسی نے اُردو نیوز کو بتایا کہ 37 سال بعد جب اُن سے ملاقات ہوئی تو وہ چار بچوں کے والد بن چکے تھے اور دیکھنے میں ایک معمر شخص معلوم ہوتے ہیں۔انصر عباسی کے مطابق جب وہ 9 اپریل 1988 کو لاپتہ ہوئے، تو اگلے روز اوجڑی کیمپ کے واقعے کی وجہ سے یہی سمجھ لیا گیا کہ وہ اب دنیا میں نہیں۔چارسدہ سے ایبٹ آباد واپسی کیسے ممکن ہوئی؟تقریباً 10 سال قبل عقیل عباسی کی زندگی میں نیا موڑ اس وقت آیا جب اُنہیں یادداشت کی کمزوری اور ایک خاندانی جسمانی بیماری نے آ گھیرا۔اس بیماری کے باعث اُن کی جسمانی اور ذہنی یادداشت متاثر ہوئی مگر حیرت انگیز طور پر یہی بیماری اُن کی زندگی کا رخ بدلنے کا ذریعہ بنی، کیونکہ اس کے اثرات نے اُنہیں ماضی کی دھندلی یادوں میں جھانکنے پر مجبور کر دیا۔عقیل عباسی کو 37 برس بعد اپنے اصل گھرانے سے ملانے میں دو افراد چارسدہ کے بلال اور پشاور کے گل محمد نے اہم کردار ادا کیا۔فیس بک پر ڈالی ایک ویڈیو کی بدولت عقیل عباسی کا گھر والوں سے رابطہ ہوا (فوٹو: سکرین شاٹ)گل محمد، جو عوامی نیشنل پارٹی سے وابستہ اور سوشل میڈیا پر خاصے متحرک ہیں، نے اردو نیوز کو بتایا کہ کچھ برس قبل جب عقیل عباسی کی صحت بگڑنے لگی تو اُن کے پڑوسی بلال خان نے فیصلہ کیا کہ اب انہیں ان کے اصل خاندان سے ملوانا چاہیے۔’عقیل عباسی نے اپنی صحت مند زندگی کے دوران کبھی واپسی کی کوشش نہیں کی۔ اتنا طویل وقت گزر جانے کے بعد اُنہیں اپنے خاندان یا آبائی علاقے سے کوئی رشتہ یا یاد باقی نہیں رہی تھی۔‘
گل محمد کے مطابق تاہم اُن کے پڑوسی بلال خان نے یہ عزم کیا کہ عقیل عباسی کو اُن کے حقیقی والدین تک ضرور پہنچائیں گے۔
چونکہ وہ کم عمری میں چارسدہ آئے تھے اور اب ذہنی صحت متاثر ہو چکی تھی، اس لیے اُنہیں اپنے آبائی علاقے یا شناخت سے متعلق کوئی خاص معلومات حاصل نہ تھیں۔فیس بک کی پوسٹ نے فاصلے مٹا دیےاسی دوران گل محمد نے، بلال خان کی مدد سے، عقیل عباسی کی ایک ویڈیو اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر شیئر کی تاکہ اُن سے متعلق معلومات حاصل کی جا سکیں۔ خوش قسمتی سے چند دن بعد ایک صارف نے اُن کا رابطہ عقیل کے پھوپی زاد بھائی، انصر عباسی، سے کروا دیا۔عقیل عباسی پشتو میں بات کرتے ہیں اور اپنے بچپن کی زبان بھول چکے ہیں (فوٹو: سکرین گریب)یوں کئی دہائیوں کا طویل انتظار ختم ہوا اور عقیل عباسی اپنے والد سے نہ سہی لیکن اپنی ماں سے آ ملے۔37 برس بعد جب عقیل عباسی اپنی ماں سے آ کر لپٹے تو ماں کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں میں لرزتی آواز میں ایک جملہ نکلا ’آج میری زندگی کی آخری دعا قبول ہو گئی۔‘ایک نئی شناخت، ایک نئی شروعاتآج عقیل عباسی پشتو اور اردو میں بات کرتے ہیں اور اپنے بچپن کی زبان اور آبائی علاقے کی شناخت تقریباً بھول چکے ہیں۔ ایک نئی پہچان کے ساتھ وہ اب ایک پرانے تعلق سے جڑ چکے ہیں۔ ایسا تعلق جو شاہد کبھی ختم ہوا ہی نہیں تھا۔