’جیت اور ہار کا تماشا ہے،‘ اجمل جامی کا کالم

اردو نیوز  |  Apr 17, 2025

شعبۂ صحافت میں قدم رکھےتقریباً اٹھارہ برس تو ہو چلے کہ یونیورسٹی کے دنوں سے ہی تعلیم کے ساتھ ساتھ پارٹ ٹائم نوکری کرنا پڑی۔ سیاسی بساط ہمیشہ طوفانوں میں گھری دیکھی۔ غیر یقینی کی صورتحال ہر نئے منظر نامے کا چہرہ بنی دیکھی، روایتی مہرے کبھی ادھر تو کبھی ادھر، اقتدار کا سنگھاسن گویا ہچکولوں سے ہی تعبیر ہوتا رہا۔

فرق البتہ ایک ہی ہے، یعنی، موجودہ منظر نامہ پہلے کی نسبت کہیں زیادہ گھمبیر اور پیچیدہ ہوچکا۔ اندازہ کیجیے کہ منظر نامہ تھا کیا، پرویز مشرف رخصت ہو رہے تھے اور پی پی والے جمہوری دور کی واپسی ہو رہی تھی، پھر میاں صاحب کی باری آئی اور ساتھ ہی پی ٹی آئی کا مشہور زمانہ دھرنا۔

پاناما کا ہنگامہ دیکھا تو میاں صاحب کی رخصتی کے ساتھ ہی اگلے سیٹ اپ میں کپتان باری لگانے پیڈ باندھ کر ہیلمٹ کے بغیر ہی میدان میں تھے، ہوم گراونڈ تھا، مرضی کی پچ تھی، اور چوکوں چھکوں کی برسات۔

نیوٹرل امپائر کے ساتھ کھیلنے کی دلیرانہ رسم میدان کرکٹ میں تو کپتان کی وجہ شہرت تھی ہی لیکن سیاسی میدان میں ایمپائرنگ نیوٹرل نہ رکھی گئی۔ مخالف ٹیمیں بھی امپائر ساتھ ملا کر ہی سیاست کرتی آئی تھیں۔ جیسے ہی موقع ملا ساز باز کر لی۔ محرکات تو بہر حال ساز باز کے علاوہ بھی ان گنت تھے لیکن فی الحال یہ موضوع نہیں۔

پی ڈی ایم  آئی، کپتان کے خلاف لمبی چوڑی چارج شیٹ بنی، نو مئی ہوا، پارٹی تتر بتر ہوئی، خود اڈیالہ کے مکین جا بنے، چوبیس کے متنازع ترین چناؤ ہوئے، اپوزیشن شور مچاتی رہی کہ اس بار دھاندلی کے ریکارڈ ٹوٹے، نئی سرکار آئی، بظاہر دو تجربہ کار پارٹیوں کو حکومت ملی، لیکن پھر کیا ہوا؟

اس سب کے بیچ خان کی جانب سے بنائے گئے بیانیے اور ان کے حق میں عوامی حمایت کا توڑ نہ مل سکا۔ کچھ نئے اور اکثر پرانے فارمولے رد عمل میں آزمائے گئے، پریس کانفرنسوں کے ذریعے پی ٹی آئی کی اہم ترین قیادت چلتی بنی، نئی جماعتوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جلسے جلوس اور احتجاج ناکام بنانے کے لیے پوری قوت کا سہارا لیا گیا۔ اور اب صورتحال یہ ہے کہ جیل بیٹھے سابق وزیر اعظم سے میل ملاقاتوں پر بھی جزوی پابندی سی ہے۔

کبھی علیمہ بی بی کی ملاقات نہیں ہو پاتی تو کبھی سلمان اکرم راجہ کی۔ پارٹی کی دستیاب قیادت پر مقتدرہ سے ملی بھگت کا الزام لگایا جاتا ہے تو دوسری جانب آل اِز ویل کا نعرہ لگاتے ہوئے سرکار آگے بڑھنے کا عزم دہراتی ہے۔ لیکن کیا آل اِز ویل ہے؟ اس ایکسرسائز سے اب تک کیا حاصل وصول ہوا؟

نواز شریف کے دورِ حکومت میں عمران خان نے دھرنا دیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

مزید بے یقینی، مزید سیاسی عدم استحکام، مزید تقسیم اور مزید نفرت کے علاوہ عوامی سطح پر آخر ہم نے پایا ہی کیا ہے؟

اہل سیاست بھی عجب ہیں کہ بدلے ہوئے سیاسی اور سماجی مزاج کی نبض پر ہاتھ ہی نہ رکھ سکے، مرض جگر کا تھا دوا رنگ گورا کرنے والی کریم  تجویز کر دی۔ عارضہ قلب کا تھا، نسخہ زلفیں سنوارنے کا۔ فریکچر بازوں کا تھا، پلستر پاؤں پر چڑھا دیا۔ وائرس وائرل تھا ٹیسٹ سی ٹی سکین کے لکھ ڈالے۔ یعنی ؛

وہ عجب گھڑی تھی میں جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا

کہ کتاب عقل کی طاق پر جوں دھری تھی تیوں ہی دھری رہی

یہ کتاب عقل طاق پر ادھر بھی اور ادھر بھی جوں کی توں ہی دھری ہے۔ فرق البتہ یہ ہے کہ ورکر اور کپتان کی باہمی جڑت کا حل دریافت نہ ہوسکا۔ دستیاب لیڈر شپ کو بہتیرا آرے لگا رکھا گیا لیکن اس جڑت کا توڑ نہ مل سکا۔

ورکر کبھی عدالتوں سے مایوس ہوا تو کبھی دستیاب قیادت سے، امریکہ سے امید ٹوٹی تو اپوزیشن سے امیدیں لگا لیں، تھکنے ہارنے لگتا ہے تو کپتان کی فکر کھائے جاتی ہے۔ جب اس کے ہاں مایوسی کے سائے گہرے ہونے لگتے ہیں تو سرکار خود ہی ایسا بندوبست کر دیتی ہے کہ جس سے یہ ورکر دوبارہ تازہ دم ہو کر اسی ڈگر پر چلنے کو تیار ہو لیتا ہے۔

ابھی تازہ مثال ہی دیکھ لیجیے، میل ملاقاتوں پر پابندی عائد ہوئی، علیمہ بی بی کی فٹ پاتھ پر بیٹھنے کی تصویر استعارہ سا بن گئی۔ ابلاغ یہ ہوا کہ لیڈر کو آئسولیٹ کیا جا رہا ہے۔ اس کا پیغام باہر نہ آئے۔ حربے آزمائے جا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ اس بیچ مذاکرات کے نام پر دستیاب قیادت پر کیچڑ بھی اچھل رہا تھا۔ خبریں یہ بھی چلیں کہ دستیاب قیادت اور باہر بیٹھوں میں سے ایک دو کی چھٹی ہونے والی ہے تاکہ مذاکرات کے لیے اعتماد سازی کی فضا بہتر بنائی جا سکے۔ لیکن پھر کیا ہوا؟

پی ٹی آئی ممکنہ طور پر انٹرا پارٹی الیکشنز کروانے جا رہی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

حالیہ چند دنوں کا سوشل میڈیا دیکھ لیجیے۔ خوب اندازہ ہوگا کہ قدرے مایوس ورکر سپورٹر، جو قیادت پر ہی انگلیاں اٹھا رہا تھا اچانک کیسے حرکت میں آگیا۔ اچانک کیسے ہم آواز ہو گیا۔ حالانکہ وہ جانتا ہے کہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔

تازہ اطلاعات کے مطابق آپسی اختلافات اور ایک دوسرے کو غداری کے میڈلز جاری کرنے کے بجائے تحریک انصاف اب اس نتیجے پر پہنچ رہی ہے کہ فوراً انٹرا پارٹی الیکشنز کروا لیے جائیں۔ ایک دھڑے کی تجویز تھی کہ دستیاب قیادت کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لہذا کچھ عرصے کے لیے علیمہ بی بی کو پارٹی قیادت سونپی جائے۔ مگر باوثوق ذرائع نے تصدیق کی کہ یہ تجویز اڈیالہ سے بھی مسترد ہو چکی ہے۔

امریکی کانگریس مین کے وفد کے حالیہ دورے کے دوران البتہ سرکار اور ذمہ داران کی جانب سے خاطر خواہ مثبت نتائج برآمد کرنے کی جانکاری موصول ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بدن بولی سرکار کی قدرے پر اعتماد اور جوشیلی دکھائی دے رہی ہے۔ ہاں البتہ پی ٹی آئی کا سپورٹر حالیہ پیش رفت کے بعد کہاں کھڑا ہے، یہ جاننے کے لیے آپ کسی بھی سوشل میڈیا کی ویب سائٹ کا نظارہ فری میں کر سکتے ہیں۔ بندش کی صورت میں وی پی این تو سب ہی لگا لیتے ہیں۔

عشق اور عقل میں ہوئی ہے شرط

جیت اور ہار کا تماشا ہے

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More