’تین ہفتے ہوگئے تھے۔ ہم نے علاج کی بہت کوششیں کیں لیکن آخر میں وہ بچوں کو کاٹنے لگا۔ پھر جو سامنے آتا وہ جانوروں کی طرح لپک کر کاٹنے کی کوشش کرتا۔ ہماری پریشانی بڑھتی جا رہی تھی کیونکہ وہ انسانوں کو کاٹنا چاہتا تھا۔‘پنجاب کے ضلع شیخوپورہ تحصیل مریدکے سے تعلق رکھنے والے اشفاق اپنے 45 سالہ بھائی عامر شہزاد کے لیے اس وقت فکر مند ہوئے جب وہ ارد گرد دیگر انسانوں کو کاٹنے کی کوشش کرتے ہوئے پائے گئے۔ انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کے بھائی کو رواں سال کے آغاز میں ہی محلے کے ایک کتے نے کاٹا لیا تھا جس کے بعد ان میں ذہنی طور پر تبدیلیاں آنے لگی۔
اشفاق بتاتے ہیں ’ایک روز گلی میں کتے نے میرے بھائی کو جکڑ لیا۔ کتے نے اس کے ہونٹ کاٹ لیے جس سے اس کے کپڑے خون سے لت پت ہوگئے۔ وہ گھر آیا تو ہم نے بغیر کسی ایمبولینس کو بلائے اسے مقامی ہسپتال پہنچایا جہاں ہمیں بتایا گیا کہ اس کا علاج یہاں ممکن نہیں کیونکہ اس کو ویکسین کی ضرورت ہے۔‘
22 دن تک عامر شہزاد زخمی تھے اور ان کے خاندان کے مطابق انہیں ویکسین کے لیے 30 ہزار روپے درکار تھے جو ان کے پاس نہیں تھے۔’22 دن تک ہم انتظار کرتے رہے جس کے بعد وہ عجیب حرکتیں کرنے لگا۔ وہ بچوں کو پکڑ کر کاٹنے کی کوشش کرتا تھا۔ پھر ریسکیو اور پولیس کی ٹیمیں آئی اور اسے محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا۔ باؤلے کتے کا زہر اس کے جسم میں سرائیت کر چکا تھا۔ مقامی لوگ بتا رہے تھے کہ وہ زندہ نہیں بچ پائے گا اور پھر ایک دن عامر شہزاد کی موت واقع ہو گئی۔‘مریدکے میں ایسے کئی واقعات پہلے بھی رونما ہو چکے ہیں۔مقامی صحافی میاں ریاض کے بقول ’ہمارے علاقے میں ایسے 10 واقعات ہو چکے ہیں۔ دو سے تین بار چار لوگوں کو باؤلے کتوں نے کاٹا ہے۔ گاؤں کے لوگ ایسے لوگوں سے بہت خوف کھاتے ہیں کہ اگر ایسے زخمی افراد کسی اور کو کاٹ لیں تو باؤلے کتے کا زہر دوسرے انسان میں منتقل ہوجائے گا اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔‘اس حوالے سے اردو نیوز نے طبی اور نفسیاتی ماہرین سے بات کی ہے تاکہ باؤلے کتوں کے کاٹنے سے متعلق جو غیر روایتی دعوے مشہور ہیں ان کے بارے میں درست معلومات حاصل کی جا سکیں۔ماہرین کے مطابق باؤلے یا پاگل کتے میں ریبیز وائرس موجود ہوتا ہے جس سے انسان کی موت واقع ہوسکتی ہے، تاہم ایک انسان دوسرے انسان کو نہیں کاٹ سکتا۔اس حوالے سے نارتھ ویسٹ جنرل ہسپتال پشاور کے ڈاکٹر حامد اختر بتاتے ہیں کہ ان کے پاس آئی سی یو میں اکثر ایسے مریض لائے جاتے ہیں۔ماہرین کے مطابق باؤلے یا پاگل کتے میں ریبیز وائرس موجود ہوتا ہے جس سے انسان کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)ان کے بقول ’پاگل کتے میں ریبیز وائرس موجود ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ یہ وائرس گائے، بھینس، چمگادڑ، لومڑی وغیرہ میں پایا جاتا ہے۔ کتوں میں یہ وائرس ایک کتے کا دوسرے کتے کو کاٹنے سے پھیلتا ہے۔ یوں اگر پاگل کتا جب کسی انسان کو کاٹتا ہے تو وہ اپنے جراثیم ان میں منتقل کر دیتا ہے۔ یہ وائرس کتوں کے لعاب میں پایا جاتا ہے۔‘ڈاکٹر حامد اختر کے مطابق انسان اس وائرس کے لیے درمیانہ ہوسٹ ہے یعنی انسان میں براہ راست یہ وائرس نہیں پایا جاتا بلکہ کسی کتے یا اس وائرس سے متاثرہ جانور کے کاٹنے سے یہ وائرس اس میں منتقل ہوتا ہے۔’انسان کسی انسان کو نہیں کاٹ سکتا اور اگر کسی ایک کیس میں ایسا ہو بھی جائے تو یہ وائرس انسانوں میں اس طرح نہیں پھیل سکتا کیونکہ یہ وائرس متاثرہ جانور کے لعاب میں ہوتا ہے۔‘سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر اس وائرس سے متاثرہ کوئی جانور اگر کسی انسان کو کاٹ لے تو کیا کیا جائے؟ اس حوالے سے ڈاکٹر حامد اختر بتاتے ہیں کہ کتا پاگل ہے یا نہیں؟ اس سوچ میں پڑنے کی بجائے ہسپتال کا رخ کرنا چاہیے۔’سب سے پہلے تو بہتے پانی سے زخم کو 15 سے 20 منٹ تک دھوئیں جس سے افاقہ ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹرز اس پر غور کریں گے کہ کتا پاگل تھا یا نہیں یعنی وہ ریبیز وائرس سے متاثر تھا یا نہیں؟ دھونے کے بعد زخم پر کوئی پٹی یا کپڑا رکھنے سے بھی گریز کیا جائے۔‘اگر کاٹنے والا کتا ریبیز وائرس سے متاثر ہوا تو اس کے لیے علاج کی کئی صورتیں موجود ہیں تاہم ماہرین کے مطابق ایسے مریض کی موت 100 فیصد یقینی ہوجاتی ہے۔’ایسے کیسز میں ویکسین لگائی جاتی ہے۔ ایک مہینے میں مختلف پیٹرن پر پانچ ٹیکوں کا کورس کروایا جاتا ہے جو ڈاکٹرز تجویز کرتے ہیں۔ ویکسین کے ساتھ ساتھ ریبیز امیونوگلوبیولین آر آئی جی لگوانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ ہر کتے کے کاٹنے سے یہ وائرس نہیں پھیلتا لیکن خدشہ موجود ہوتا ہے۔‘ڈاکٹر حامد اختر کے بقول ’پاگل کتے میں ریبیز وائرس موجود ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔(فوٹو: اے ایف پی)انہوں نے مزید کہا کہ ’جو کتا کسی انسان کو کاٹے تو اس پر نظر رکھی جائے۔ اگر اس کا لعاب بار بار باہر آتا ہے، زیادہ بھونکتا ہے، کسی اور کا کاٹا ہے یا نہیں؟ اس کا مجموعی رویہ کیسا ہے؟ کسی دوسرے کتے کو کاٹنے کے بعد وہ کتا مرا یا نہیں؟ یہ تمام چیزیں دیکھیں اگر ایسا ہوتا ہے تو ویکسین کے ساتھ ساتھ ریبیز امیونوگلوبیولین آر آئی جی بہت ضروری ہو جاتا ہے۔‘ان کے مطابق ایسے کتوں کے کاٹنے سے انسانی اعصابی نظام متاثر ہوتا ہے۔مریدکے سے تعلق رکھنے والے عامر شہزاد کی شخصیت میں 22 دنوں کے اندر تبدیلی آئی تھی۔ اس حوالے رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی لاہور کیمپس میں رفاہ انسٹیٹیوٹ آف کلینیکل اینڈ پروفیشنل سائیکالوجی کی سربراہ عروج ارشد بتاتی ہیں کہ جب کسی انسان کو کتا کاٹتا ہے تو اس کی نفسیات مختلف عوامل پر منحصر ہوتی ہے، جن میں اس کے تجربات، خوف، اور صورتحال کی نوعیت شامل ہوتی ہے۔’کتے کے کاٹنے کے بعد انسان میں شدید خوف اور اضطراب پیدا ہو سکتا ہے۔ وہ کتے کی شکل، آواز، یا اس کے حملے کے طریقے کے بارے میں بار بار سوچ سکتا ہے، جس سے اس کی ذہنی حالت متاثر ہو سکتی ہے۔ کتوں کے کاٹنے کے بعد کچھ افراد میں کتوں سے متعلق خوف بڑھ جاتا ہے، جسے سائیکو فوبیا بھی کہا جاتا ہے۔ وہ کتے کو دیکھنے یا ان کے قریب جانے سے گریز کرتے ہیں، اور یہ خوف ان کے روزمرہ کے معاملات پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔‘عروج ارشد بتاتی ہیں کہ جب کوئی شخص ذہنی یا جذباتی طور پر زخمی ہو تو وہ اکثر اپنے آس پاس کے لوگوں کے لیے مشکل پیدا کرتا ہے۔ریبیز سے متاثرہ انسانوں کے لیے طبی میدان میں ماہرین موثر علاج کی کوشش کر رہے ہیں تاہم کسی بھی کتے کے کاٹنے یا حملے سے متاثرہ افراد ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ ایسے افراد کے لیے نفسیاتی علاج موجود ہے۔اس حوالے سے عروج ارشد بتاتی ہیں ’ذہنی یا جذباتی طور پر زخمی افراد کو دوبارہ ٹھیک کیا جا سکتا ہے لیکن یہ ایک طویل عمل ہے۔ ماہر نفسیات یا تھراپسٹ ایسے مریضوں کا علاج (Cognitive Behavioral Therapy) یا (Eye Movement Desensitization and Reprocessing) کے ذریعے کرتے ہیں۔ ماہرین انہیں اپنے جذبات، خیالات اور رویوں کے بارے میں آگاہی فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے مسائل کا پتہ لگا کر ان پر خود قابو پا سکیں۔‘