قرضِ جاں ڈرامے میں ریپ اور قتل کے مجرم کا ’سافٹ امیج‘: ’مجرم نادم ہو تو مارجن دینا پڑتا ہے‘

بی بی سی اردو  |  Apr 21, 2025

پاکستانی ڈرامہ قرض جاں کی آخری قسط نشر ہونے کے بعد سے پاکستان سمیت کئی ایسے ممالک میں سوشل میڈیا کے ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہے جہاں اردو ڈرامہ دیکھا اور پسند کیا جاتا ہے۔

ہم ٹی وی سے نشر ہونے والا 32 اقساط پر مشتمل یہ ڈرامہ بہترین پلاٹ، کردار نگاری، اور اداکاروں کی عمدہ کی پرفارمنس کی وجہ سے بے حد پسند کیا گیا۔

یمنیٰ زیدی اور اسامہ خان، نشوہ اور بیرسٹر برہان کے مرکز ی کرداروں میں اپنی منجھی ہوئی اداکاری اور باہمی کیمسٹری کے لیے شروع سے ہی پسند کیے گئے لیکن آخری تینقسطیں ڈرامے کے ثانوی کرداروں نے اپنے نام کر لیں۔

نمیر خان اور فجر شیخ نے عمار بختیار اور بینش کے نام سے بہن بھائی کے کردار اداکیے۔ عمار جو پہلے بھی ایک لڑکی کے ریپ اور قتل کا ملزم ہے سفاکی سے اپنے بہنوئی اسد کا قتل کرتا ہے۔ اور اسلمحے میں ویڈیو کال پر اپنی بہن کو یہ منظر بھی دکھاتا ہے۔

بینش جس وقت ویڈیو پر یہ منظر دیکھتی ہے اس کا چند ماہ کا بچہ بھی اس کے پاس ہے۔

ڈرامہ کا یہ کردار اور منظر سفاکی کی ایسی مثال ہے جہاں ہمدردی کی گنجائش نہیں نکلتی۔ لیکن سوشل میڈیا پر صارفین کا کہنا ہے کہ تربیت کی کمی یا خاندانی جھگڑوں کو بنیاد بتا کر عمار جیسے ولن کے ساتھ رعائت برتی گئی۔ اور اسے ہمدردی دلوائی گئی جس کا وہ مستحق نہیں ہے۔

عمار کے کاروباری اور با اثر باپ بختیار احمد نے نہ صرف خود بلیک میل، دھونس اور ناانصافی کے ساتھ ہر معاملے کو برتا بلکہ اولاد کے لیے بھی یہی اصول وضع کیے۔ عمارکا بے قابو غصہ، نشے کی عادت سے لے کر ریپ اور قتل جیسے سنگین جرائم تک اس کے جرم پر پردہ ڈالا اورہر بار اپنا اثر و رسوخ کا استعمال کر کے اسے سزا سے بچایا۔

دیپک پروانی نے بختیار احمد کے کردار میں گھر کے ایسے سربراہ کا کردار ادا کیا ہے جو اپنی بیوہ بھابھی پر بری نظر رکھتا ہے جبکہ اپنی ماں کی شہ پر سگی بھتیجی نشوہ کی تعلیم، وکالت کا پیشہ اپنانے اور جائیداد میں اس کےحق کا بھی مخالف ہے اور اپنی بیوی سدرہ سے بھی بد سلوکی کرتا ہے۔ عمار کے بگاڑ کا تمام تر الزام بھی اسے ہی دیتا ہے۔

ڈرامے کی آخری قسط میں عمار عدالت میں اپنا جرم قبول کرتا ہے لیکن اس جرم کی بنیاد تربیت کی کمی کو مانتا ہے جو آج تک اسے دی ہی نہیں گئی۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے 'اچھے اور برے کی تمیز سکھائی ہی نہیں گئی۔'

نشوہ جس سے اس کا نکاح بلیک میل کر کے کیا گیا، اس کے خلافبطور وکیل مقدمہ لڑتی ہے۔ ناظرین کو نشوہ جیسی بولڈ لڑکی سے ریپسٹ اور قتل کے مجرم کے خلاف جس غصے اور انتقام کی امید تھی وہ انھیں نظر نہیں آیا۔

نشوہ نے بھی عمار کے لیے سزا سے زیادہ اصلاح پر زور دیا، جیسے اس کا عمل ایک سفاک جرم نہیں، بلکہ محض ایک نظر انداز کیے گئے نوجوان کی عمومی غلطی ہو۔

میرے پاس ’فی الحال‘ تم ہو: پاکستانی فنکار اور دوسری شادی کا خبطمعاویہ بن ابو سفیان پر بننے والی سعودی سیریز پر ایران، عراق میں پابندی اور مصر میں تنقید کیوں؟’دل والی گلی‘ اور اٹیچڈ واش روم پر بحث: ’بہوؤں میں سے کوئی بھی صبح نہا کر نکلتا تو ساس کا موڈ پورا دن آف رہتا‘ڈرامہ ’تن من نیل و نیل‘ کے شجاع اسد: ’مردوں کے ریپ پر اداکار شرمندہ ہوتے ہیں کہ میں یہ کردار کیوں کروں‘سوشل میڈیا پر ڈرامے کے کرداروں پر بحث

سوشل میڈیاپلیٹ فارم ایکس پر ریا اپا دھے نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’خواتین میری بات سنیں، ریپ طاقت کی سیاست ہے۔ اس کا خانگی معامالات میں بگاڑ سے کچھ لینا دینا نہیں ہے، عورت مخالف سوچ، ضرور خاندانوں اور معاشرے کو متاثر کرتی ہے لیکن کوئی بھی مرد اپنے عمل کا ذمہ دار خود ہے۔ ریپسٹ کبھی اپنا جرم قبول نہیں کرتا، کوئی بھی ریسرچ دیکھ لیں۔‘

آخری قسط کے ایک منظر میں قبول جرم کے بعد، عمار عدالت کے باہر نشوہ سے الوداعی موقع پر کہتا ہے 'بہت اچھی وکیل بن گئی ہو تم¬ جس پر نشوہ مسکراتی ہے۔

اس پر ایک صارف نے لکھا کہ ’اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا کہ استغاثہ کا وکیل ایک مجرم کی طرف سے کی گئی تعریف اور توثیق پر اس قدر خوش ہوا ہو۔ مجرم بھی وہ جو ریپ اور قتل کر چکا ہو۔ اس طرح کی وائٹ واشنگ انتہائی غلط ہے۔‘

کالی جنیر نامی ایک صارف نے لکھا کہ 'ایک بھیانک شخص کو کٹہرے میں اس کی تقریر کے ذریعے ہمدردی دلوائی گئی۔ بیانیے کی اس انداز سے اسے انسانی کمزوری ظاہر کیا گیا۔'

اس ڈرامے پر ہونے والی بحث میں پاکستان میں قتل کے دو واقعات ظاہر شاہ کیس اور مصطفیٰ عامر کیس کی مثال بھی دی گئی جہاں مجرموں کے والد اثر و رسوخ رکھتے تھے۔

ایک صارف کا کہنا ہے کہ 'یہی وہ مائنڈ سیٹ ہے جو عمار جیسے عفریت پیدا کرتا ہے۔'

’میں عمار کا سافٹ امیج کیسے مائنس کر دیتی‘

قرضِ جاں کی مصنفہ رابعہ رزاق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس اعتراض کا جواب دیا۔ ان کا کہنا ہے ’فکشن لکھنا آسان ہوتا ہے۔ اس میں کیریکٹر کو محض برا دکھایا جا سکتا ہے۔ لیکن جب آپ حقیقی زندگی سے کیریکٹر لیتے ہیں تو مارجن دینا پڑتا ہے۔‘

عمار کو 'سافٹ امیج ' دینے کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ 'میں اس کا سافٹ امیج کیسے مائنس کر دیتی۔ حقیقی زندگی میں قتل کے معاملات پر بھی قصاص اور دیت کی گنجائش موجود ہے۔ مجرم نادم ہو اور اعتراف جرم کرے تو اس کے لیے معافی کی، اصلاح کی گنجائش ہے۔'

نشوہ کے کردار سےناظرین کو جو مایوسی ہوئی اس کے بارے میں رابعہ کا کہنا ہے کہ وہ عمار کے لیے ہمیشہ سے اصلاح ہی چاہتی تھی اور عدالت کے باہر اس کی مسکراہٹ اس کی جیت ہی ہے کہ اس نے اس شخص کی 'لگام کھینچ لی۔'

اس بحث کے قطع نظر عمومی طور پر ڈرامے کو بے حد پزیرائی ملی ہے۔ ولن کے روپ میں نمیر خان کی ایکٹنگ بہت پسند کی گئی۔ انھیں اور بینش کا کردار کرنے والی فجر شیخ کو اداکاروں کی نئی پود میں بہترین اضافہ قرار دیا گیا۔

ڈرامے میں فیصل رحمان اور تزین طلعت کی واپسی ہوئی اور ان کا رومانس اولڈ ازگولڈ کی طرح پسند کیا گیا۔ دیپک پروانی نے ثابت کیا کہ وہ کپڑے ہی نہیں ڈیزائن کرتے بلکہکسی نیگیٹو کیریکٹر کے بخیے بھی عمدگی سے برتتے ہیں۔

گھر کی دادی، سکینہ سموں نے بھی نیگیٹو کیریکٹر میں پہلی قسط سے ہی بہت داد سمیٹی۔ ہیرو اور ہیروئن آخری قسط میں ملے تو سہی لیکن ناظرین کا کہنا ہے کہ جتنا مشکل ان کا ملنا تھا، اور جتنے جتن بیرسٹر برہان نے کیے تھے، اس کے مقابلے میں وہ صرف ایک آخری سین میں ہی انکو ایک ساتھ دیکھ سکے جس پر ان کی تسلی نہیں ہوئی۔

لیکن اس کی وجہ شائد یہ ہے کہ یہ ڈرامہ روائتی رومانٹک ڈرامہ تھا ہے نہیں۔ یہ ہیرو اور ہیروئن کی لو سٹوری سے زیادہ حالات کے تحت دو ذہین افراد کا ٹکراؤ تھا جو اپنی بھر پور شخصیت کے ساتھ ایک دوسرے کی زندگی میں داخل ہوئے۔ وکیل ہونے کے ناطے ان کی کیمسٹری میں بھی دل کی باتوں کے بجائے دلیل اور بحث غالب رہی۔

موضوعات کے اعتبار سے بھی قرض جاں میں جنریشنل ٹراما یا نسل در نسل چلنے والے صدمات پر بات ہوئی جہاں ایک نسل کی زیادتی کا قرض دوسری نسل ادا کرتی ہے۔

سوشل میڈیا پر پسندیدگی کے علاوہ ٹی وی پر بھی ڈرامہ کے نقادوں نے اسے ہر طرح سےبہترین ڈرامہ قرار دیا۔

ڈرامہ سی آئی ڈی کے اے سی پی پردھیومن کی موت: ’ہمیں عمر بھر کا صدمہ نہ دیں‘ڈرامہ ’تن من نیل و نیل‘ کے شجاع اسد: ’مردوں کے ریپ پر اداکار شرمندہ ہوتے ہیں کہ میں یہ کردار کیوں کروں‘معاویہ بن ابو سفیان پر بننے والی سعودی سیریز پر ایران، عراق میں پابندی اور مصر میں تنقید کیوں؟’دل والی گلی‘ اور اٹیچڈ واش روم پر بحث: ’بہوؤں میں سے کوئی بھی صبح نہا کر نکلتا تو ساس کا موڈ پورا دن آف رہتا‘نذیر سے ندیم بیگ تک کا سفر: اسلامیہ کالج کراچی کا شرمیلا گریجویٹ، جو کرکٹ بھی اتنی ہی اچھی کھیلتا، جتنا اچھا وہ گاتا تھاسٹیج ڈرامے میں ہونے والی بدمزگی جس نے عمر شریف کو کامیڈی سٹار بنا دیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More