شام کے دارالحکومت دمشق کے جنوبی علاقوں خصوصاً جرمانا اور صحنايا میں جنھیں دروز آبادی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، مسلح گروہوں کے درمیان وقفے وقفے سے جھڑپیں ہوئیں۔ شامی وزارتِ داخلہ کے مطابق یہ جھڑپیں سوشل میڈیا پر نفرت انگیز تقاریر اور اشتعال انگیزی کے نتیجے میں ہوئیں۔
وزارت کے مطابق ان جھڑپوں میں کئی افراد ہلاک اور زخمی ہوئے جن میں سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی شامل ہیں۔
اس دوران اسرائیل نے صحنايا میں ان افراد پر فضائی حملے کیے جن کے متعلق اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ دروز برادری پر حملے کی تیاری کر رہے تھے۔
اسرائیل نے ایک بار پھر شام میں دروز برادری کے تحفظ کے عزم کا اعادہ کیا ہے جس کی وجہ اسرائیلی اور شامی دروز کے درمیان ’قریبی تعلقات‘ کو قرار دیا جا رہا ہے۔
مارچ 2025 کے وسط میں شام کی درجنوں نمایاں دروز شخصیات نے مقبوضہ گولان کا دورہ کیا جہاں انھوں نے دروز برادری کے روحانی پیشوا شیخ العقل موفق طریف سے ملاقات کی۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مذہبی دورہ تھا۔
دسمبر 2024 میں اسد حکومت کے خاتمے کے بعد سے اس اقلیت کے مستقبل کے حوالے سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔
شام کے دروز افراد کا ’دفاع کرنے‘ کے اسرائیلی دعوؤں اور جنوبی علاقوں میں اسرائیلی فوج کی دراندازی نے اس برادری کی صورتحال کو مزید الجھا دیا ہے۔
تو ہم شام کی موحد دروز اقلیت کے بارے میں کیا جانتے ہیں اور انھیں نئی حکومت سے کیا خدشات ہیں؟
عین جالوت کی جنگ سے عظیم انقلاب تک
دروز برادری خود کو ’موحدون‘ کہلاتی ہے، یعنی ’وہ لوگ جو ایک خدا پر یقین رکھتے ہیں‘۔ انھیں ’بنو معروف‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ’دروز‘ نام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ نشتکین الدرزی (محمد بن اسماعیل الدرزی) سے منسوب ہے جنھوں نے لبنان اور شام میں اپنے عقائد کی تبلیغ کی۔
دروز کی اکثریت بنیادی طور پر لبنان، شام، اسرائیل اور اردن میں آباد ہیں جب کہ دیگر ممالک میں بھی ان کی کچھ تعداد موجود ہیں۔
شام میں دروز کی موجودگی صدیوں پرانی ہے اور وہ تاریخ کے مختلف ادوار میں مشرقِ وسطیٰ (بلادِ شام) کی سیاست اور جنگوں میں اہم کردار ادا کرتے آئے ہیں۔
انھوں نے1187 میں صلیبیوں کے خلاف مشہور جنگِ حطین میں حصہ لیا اور بعد ازاں ایوبی اور زنگی حکمرانوں کا اعتماد حاصل کر کے کئی اہم عہدے سنبھالے۔ اس کے بعد انھوں نے 1260 میں جنگِ عین جالوت میں منگولوں کے خلاف مملوک سلطنت کا ساتھ دیا۔
19ویں صدی میں جب مصر کے محمد علی پاشا نے شام پر حملہ کیا تو دروز نے عثمانی سلطنت کا ساتھ دیا۔ انھوں نے دمشق کے جنوب میں واقع علاقے جبل العرب میں شدید مزاحمت کی اور مصری فوج کو بھاری نقصان پہنچایا۔ اس وقت دروز کی قیادت شیخ یحییٰ الحمدان کے ہاتھ میں تھی۔
تاہم بعد میں عثمانیوں اور دروز کے تعلقات خراب ہو گئے۔ جب عثمانی حکومت نے دروز علاقوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی تو دروز نے بغاوت کر دی۔ 1911 میں عثمانیوں نے کئی دروز رہنماؤں کو پھانسی دے دی جن میں زوقان الأطرش اور یحییٰ عامر شامل تھے۔
اس کے بعد شامی دروز نے شریف حسین سے وفاداری کا اعلان کیا اور درجنوں افراد عرب فوج میں شامل ہو گئے۔ سلطان پاشا الأطرش اس تحریک کے نمایاں رہنما تھے جنھوں نے پہلے پہاڑوں میں اور پھر دمشق میں عظیم عرب بغاوت کا پرچم بلند کیا۔
فاطمی خلافت اور ’دروز‘ فرقے کا جنم: عوام کو رات کو نہ سونے اور کتے مارنے جیسے حکمنامے جاری کرنے والے خلیفہ الحاکم کی داستانشامی افواج پر علوی برادری کے افراد کے قتل کا الزام: شام پر 50 برس تک حکمرانی کرنے والا یہ اقلیتی فرقہ کیا ہے؟احمد الشرع کے باغی اتحاد کا جہادی ماضی سے لاتعلقی کا دعویٰ لیکن کیا ان پر اعتبار کیا جا سکتا ہے؟بشار الاسد کے زوال کے بعد نتن یاہو کا گولان پر نئی آبادکاری کا منصوبہ لیکن اسرائیل کے لیے یہ پہاڑیاں اتنی اہم کیوں ہیں؟
1925 میں دروز برادری نے شام پر فرانسیسی قبضے کے خلاف بھی بھرپور مزاحمت کی۔ انھوں نے دروز ریاست کے قیام کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے شام کی آزادی کی تحریک کا آغاز کیا جسے ’عظیم شامی انقلاب‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس تحریک کی قیادت بھی سلطان پاشا الأطرش نے کی۔
آج شام میں دروز برادری کی تعداد تقریباً سات لاکھ کے قریب ہے۔ یہ مختلف علاقوں میں آباد ہیں جن میں السويدا، وادیِ گولان، دمشق کے نواحی علاقے اور ادلب شامل ہیں۔
شام میں دروز برادری کی اہم اور سرگرم شخصیات کون ہیں؟
شام کی دروز (موحدون) برادری میں کئی روحانی اور سماجی شخصیات ہیں جنھیں وسیع پیمانے پر حمایت، اعتماد اور احترام حاصل ہے۔ ان میں چند افراد روحانی رہنما ہیں جبکہ کچھ نے حالیہ خانہ جنگی کے دوران مسلح گروہوں کی قیادت سنبھالی ہے۔
سب سے نمایاں روحانی شخصیات کو ’شُیوخ العقل‘ کہا جاتا ہے، جن میں تین بزرگ شيخ حكمت الهجري، شيخ حمود الحناوياور شيخ يوسف جربوع شامل ہیں۔
یہ تینوں دروز عقیدے کے روحانی اور فکری رہنما تصور کیے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو مسلح گروہوں کی قیادت کر رہے ہیں۔ ان میں سب سے معروف نام شیخ لیث البلوص کا ہے جو ’قوات الکرامة‘ (عزت فورسز) کے کمانڈر ہیں۔ یہ فورس شام کی خانہ جنگی کے دوران تشکیل دی گئی تھی۔ شیخ لیث، شیخ واحد البلوص کے بیٹے ہیں جو شامی حکومت کے سخت مخالف اور اسی فورس کے بانی تھے۔ وہ 2015 میں ایک کار حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
ایک اور نمایاں شخصیت شیخ سلیمان عبد الباقی ہیں جو ’آزاد پہاڑ‘ (فری ماؤنٹین) فورسز کی قیادت کر رہے ہیں۔
Getty Imagesشام میں 2011 کی بغاوت اور دروز برادری کا کردار
2011 میں شام میں شروع ہونے والی بغاوت کے دوران دروز برادری کی اکثریت نے نہ تو حکومت کے خلاف اپوزیشن کا ساتھ دیا اور نہ ہی براہ راست خانہ جنگی میں کودنے کی کوشش کی۔ انھوں نے مجموعی طور پر خود کو اس اندرونی تنازع سے دور رکھنے کی پالیسی اپنائی۔
تاہم 2015 میں صورتِ حال اُس وقت تبدیل ہوئی جب شدت پسند تنظیم النصرہ فرنٹ کی قیادت میں اسلام پسند گروہوں نے درعا اور وادیِ گولان کے بعض علاقوں میں پیش قدمی کی اور السويدا صوبے میں حکومت کے زیرِ انتظام الثعلہ ملٹری ایئرپورٹ کو خطرہ لاحق ہوا۔ اس کے ردِعمل میں کچھ دروز شامی فوج کے ساتھ مل کر لڑائی میں شریک ہو گئے۔
اس دوران شیخ واحد البلوص شام کے صدر بشار الاسد کے مخالف کے طور پر سامنے آئے۔ وہ عوامی سطح پر حکومت پر تنقید کرتے تھے تاہم 2015 میں ایک مشتبہ کار حادثے میں ان کی ہلاکت ہو گئی۔
دروز برادری کے زیادہ تر افراد نے صرف اپنے علاقوں کا دفاع کرنے کے لیے مقامی سطح پر مسلح کمیٹیاں بنائیں تھیں۔
2014 میں جب دروز نوجوانوں کو جبری فوجی بھرتی کے لیے تحویل میں لیا گیا تو ان کے خاندانوں اور مقامی افراد نے سکیورٹی مراکز کا گھیراؤ کیا اور بالآخر ان نوجوانوں کو رہا کروانے میں کامیاب ہو گئے۔
جب جبری فوجی بھرتی کے خلاف آوازیں بڑھنے لگیں تو حکومت اور دروز برادری کے درمیان ایک سمجھوتہ طے پایا جس کے تحت دروز نوجوان صرف السويدا صوبے کے اندر فوجی خدمات انجام دینے کے پابند ہوں گے اور انھیں ملک کے دیگر حصوں میں تعینات نہیں کیا جائے گا۔
Getty Images
دروز برادری کے کچھ علاقے خاص طور پر 2012 سے 2015 کے دوران، داعش اور النصرہ فرنٹ جیسے گروپوں کے حملوں کی زد میں آئے۔
2017 میں ایک طرف گولان کی پہاڑیوں کے شامی حصے میں حطرہ شہر میں شامی فوجیوں اور دروز جنگجوؤں کے درمیان اور دوسری طرف ہیئت تحریر الشام اور اتحادی گروپوں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔
2018 میں السويدا کے نواحی علاقے میں داعش نے بڑے پیمانے پر حملے کیے۔ ان حملوں کی ابتدا خودکش کار بم دھماکوں سے ہوئی جن میں 200 سے زائد افراد کی جانیں گئیں۔
2023 میں جب شام میں مسلح تنازعہ کی شدت کم ہوئی تو السويدا کے دروز افراد نے حکومت کے خلاف مظاہرے شروع کیے اور بشار الاسد کا اقتدار ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ مذہبی رہنماؤں نے بھی ان مظاہروں کی حمایت کی سوائے شیخ یوسف الجربوع کے جو حکومت کے حامی ہیں۔
یہ مظاہرے السويدا کے الکرامہ چوک میں ہوئے جو سلطان باشا الأطرش کے مزار کے قریب واقع ہے۔
ادلب کے دروز اور ہیئت تحریر الشام
جب 2014 کے آخر میں اپوزیشن کی جماعتوں نے جن کی قیادت جبہت النصرہ کر رہی تھی، ادلب پر قبضہ کر لیا تو ایک تنازعہ شروع ہوا جو بعد میں مسلح تصادم میں تبدیل ہوگیا۔ یہ تصادم جبہت النصرہ کے جنگجوؤں اور ادلب کے گاؤں قلب لوزہ میں دروز کمیونٹی کے رہائشیوں کے درمیان ہوا۔
مقامی رہائشیوں نے جبہت النصرہ کے ارکان پر فائرنگ شروع کرنے کا الزام عائد کیا۔ اس واقعے میں تقریباً 20 دروز افراد کی جانیں گئیں جبکہ جبہت النصرہ کے تین ارکان بھی مارے گئے۔
جواب میں جبہت النصرہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ اس کے جنگجو ’اپنے کمانڈروں سے مشورہ کیے بغیر کارروائی کر رہے تھے۔‘
اپنے بیان میں جبہت النصرہ نے مقامی لوگوں کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ ’ہمارے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں اور ایسی غلطیاں کبھی کبھار ہو جاتی ہیں۔‘
جب جبہت النصرہ تبدیل ہو کر ہیئت تحریر الشام بننا شروع ہوئی تو ادلب کی دروز کمیونٹی میں مزید تشویش پیدا ہوئی۔
’شام کے لیے سچائی اور انصاف‘ نامی ادارے نے نومبر 2022 میں اپنی ویب سائٹ پر ایک رپورٹ شائع کی جس میں مسلح شدت پسند گروپوں بشمول سابق جبہت النصرہ اور بعد میں ہیئت تحریر الشام کی جانب سے ادلب میں دروز شہریوں کے خلاف کیے گئے جرائم کا احاطہ کیا گیا۔
اس رپورٹ میں قلب لوزہ کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ 2012 سے 2022 کے درمیان دروز اکثریتی علاقوں میں 53 اغوا ہوئے جن میں سب سے زیادہ اغوا (23 کیسز) ہیئت تحریر الشام کے ارکان کے ذریعے ہوئے۔
رپورٹ میں دیگر جرائم جیسے ہراسانی، مذہبی امتیاز اور جائیدادوں کی ضبطی کا بھی ذکر کیا گیا۔
تاہم جون میں رپورٹ کے اجرا سے پہلے ابو محمد الجولانی نے یوٹیوب پر ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں وہ ادلب کے دیہات میں دروز کمیونٹی کے رہنماؤں سے ملاقات کر رہے تھے۔ یہ ملاقات ایک کنوے کی افتتاحی تقریب کے دوران ہوئی۔
ویڈیو انٹرویو میں جولانی نے رہائشیوں کو یہ یقین دہانی کرانے کی کوشش کی کہ انھیں کسی قسم کی ناانصافی کا سامنا نہیں ہوگا اور کہا ’ہم سچے لوگ ہیں۔‘
ادلب کے مغرب میں جبل السماق کے 14 دیہاتوں میں دروز رہائش پذیر ہیں۔ یہ علاقے ہیئت تحریر الشام اور 2017 میں ادلب میں قائم ہونے والی حکومت کے زیر کنٹرول ہیں۔
دمشق کے جرمانا علاقے میں دروز اور نئی حکومت کے سکیورٹی ارکان کے درمیان ماحول کشیدہ رہا ہے جس کے بعد میڈیا میں رپورٹ ہوا کہ ادلب کے دروز رہنماؤں نے السويدا میں اپنی کمیونٹی کو پیغام بھیجا جس میں ان سے کہا گیا کہ وہ نئی حکومت کے ساتھ اپنے اختلافات کو دور کریں اور اسے حکومت کرنے کا موقع دیں۔
Getty Imagesبشار الاسد کے زوال کے بعد کیا ہوا؟
پچھلے سال نومبر کے آخر میں ہیئت تحریر الشام کی قیادت میں مسلح اپوزیشن گروپوں نے ادلب سے حلب کی طرف اور پھر شام کے حکومت کے زیر کنٹرول دیگر علاقوں میں اچانک حملہ کیا۔
ایک کے بعد ایک علاقے اپوزیشن کے ہاتھوں میں آ گئے اور دس دنوں میں ان کی فورسز دمشق تک پہنچ گئیں، اس دوران یہ رپورٹس بھی سامنے آئیں کہ سابق صدر بشار الاسد اور ان کے خاندان نے ماسکو فرار ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔
شام میں اسد حکومت کا خاتمہ چھ دہائیوں سے زائد عرصے سے جاری بعث پارٹی کے اقتدار کے بعد ہوا اور اس نئے منظرنامے میں شام کے مختلف طبقات کے مستقبل کے بارے میں سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
دروز اور نئی حکومت کے درمیان تعلقات کو ایک بڑے امتحان کا سامنا تھا۔
نئی حکومت بڑی حد تک ہیئت تحریر الشام کے ارکان پر مشتمل ہے، وہی گروپ جو پہلے جبہت النصرہ کے طور پر سویدا پر حملہ کر چکا تھا اور جس کی قیادت احمد الشرعہ کر رہے تھے جنھیں ابو محمد الجولانی کے نام سے جانا جاتا تھا۔
نئی شامی حکومت کے لیے دوسرا مسئلہ ہتھیاروں کا تھا۔ جنگ کے دوران دروز نے اپنے شہروں اور علاقوں کی حفاظت کے لیے مقامی مسلح گروہ تشکیل دیے تھے۔
شیخ حکمت الہجری نے جنوری میں ایک عرب سیٹلائٹ چینل پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسد حکومت کے زوال کے فوراً بعد نئی حکومت سے رابطہ شروع ہو گیا تھا۔
اس انٹرویو میں شیخ حکمت الہجری نے احمد الشرعہ کو پیغام دیتے ہوئے کہا ’ہمیں مل کر بات چیت کرنی چاہیے تاکہ ہم اس عبوری دور کو آسانی سے گزار سکیں اور شام کے مستقبل کے لیے مضبوط بنیاد بنا سکیں۔‘
یہ پیغام اس وقت آیا جب دروز کے ایک وفد نے دسمبر کے وسط میں احمد الشرعہ سے ملاقات کی جس میں الشرعہ نے کہا کہ ’شام کو متحد رہنا چاہیے اور ریاست اور تمام فرقوں کے درمیان سماجی معاہدہ ہونا ضروری ہے تاکہ انصاف یقینی بنایا جا سکے۔‘
انھوں نے وفد سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا ’یہ ضروری ہے کچھ ایسا نہ ہو جو ہمیں علیحدگی کی طرف لے جائے۔‘
جرمانا علاقے میں تشدد دونوں فریقوں کے کے چیلینج تھا اور مارچ کے شروع میں دروز جنگجوؤں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔
تاہم شام کے ساحلی علاقے میں حالیہ خونریز واقعات جن میں علوی برادری کے سینکڑوں شہریوں کے مارے جانے کی خبریں آئی ہیں، نے شیخ الہجری کو ایک بیان جاری کرنے پر مجبور کیا جس میں انھوں نے ساحلی علاقے میں فوجی کارروائیوں کو روکنے کا مطالبہ کیا۔
8 مارچ کو شیخ الہجری نے وہ بیان جاری کیا جس میں انھوں نے ’منظم قتل‘ کی مخالفت کی۔
Getty Images
شام کے عبوری صدر احمد الشرعہ نے واضح کیا ہے کہ ان کی نئی حکومت اسرائیل کے ساتھ 1974 کے امن معاہدے کو تسلیم کرے گی۔
اس وقت تقریباً ایک لاکھ 50 ہزار دروز اسرائیل میں آباد ہیں جن میں سے زیادہ تر خود کو اسرائیلی شہری مانتے ہیں اور اسرائیلی معاشرے اور فوج کا حصہ بن چکے ہیں۔ دوسری جانب گولان کی پہاڑیوں کے اس حصے میں جو اسرائیل کے قبضے میں ہے، 23 ہزار دروز رہائش پذیر ہیں جو خود کو اب بھی شامی سمجھتے ہیں اور اسرائیلی شہریت کو مسترد کرتے ہیں۔
17 فروری کو اسرائیلی وزیرِاعظم نتن یاہو نے کہا: ’ہم ہیئت تحریر الشام یا نئی شامی فوج کو دمشق کے جنوب میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ ہم قنیطرہ، درعا اور السویدا کے علاقوں کو مکمل غیر فوجی زون بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘
نتن یاہو نے جنوبی شام میں ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور دروز برادری کو لاحق خطرات کے متعلق خبردار کیا۔
اس بیان کے ردِعمل میں منگل کے روز شام کے کئی شہروں خصوصاً دمشق اور السویدا (جہاں دروز اکثریت میں ہیں) میں مظاہرے ہوئے جن میں نتن یاہو کے بیان کی مذمت کی گئی۔ مظاہرین نے کہا کہ اسرائیل کو شام کی اندرونی معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں۔
نتن یاہو کے 25 فروری کے بیان کے بعد شام کے عبوری صدر احمد الشرعہ نے دروز رہنماؤں سے ملاقات کی۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی سانا کے مطابق اس وفد میں ’قوات الکرامہ‘ اور ’احرار الجبل‘ جیسی مقامی مسلح تنظیموں کے سربراہ شامل تھے۔
ملاقات میں الشرعہ نے واضح کیا کہ ’السویدا شام کا اہم حصہ ہے اور اسے الگ نہیں کیا جا سکتا۔‘
ادھر اسرائیلی حکومت نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ 16 مارچ سے شامی دروز باشندوں کو گولان کی پہاڑیوں میں کام کے لیے داخلے کی اجازت دی جائے گی۔
مجدل شمس: گولان کی پہاڑیوں کا مقبوضہ علاقہ جس کے باعث حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ چِھڑنے کا خدشہ ہےفاطمی خلافت اور ’دروز‘ فرقے کا جنم: عوام کو رات کو نہ سونے اور کتے مارنے جیسے حکمنامے جاری کرنے والے خلیفہ الحاکم کی داستانشام میں کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ اہداف پر اسرائیلی حملے جاری: بشارالاسد نے مشتبہ ہتھیاروں کی مدد سے کس طرح اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھی؟بشار الاسد کے زوال کے بعد نتن یاہو کا گولان پر نئی آبادکاری کا منصوبہ لیکن اسرائیل کے لیے یہ پہاڑیاں اتنی اہم کیوں ہیں؟شامی افواج پر علوی برادری کے افراد کے قتل کا الزام: شام پر 50 برس تک حکمرانی کرنے والا یہ اقلیتی فرقہ کیا ہے؟دمشق: بنو اُمیہ کا دارالخلافہ رہنے والا وہ قدیم شہر جس نے کئی خلفا اور بادشاہوں کا عروج و زوال دیکھا