Reutersایک اسرائیلی اہلکار کے مطابق اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ نے حماس کے خلاف اپنی فوجی کارروائی کو وسعت دینے کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے جس میں غزہ پر ’قبضہ‘ شامل ہے
ایک اسرائیلی اہلکار کے مطابق اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ نے حماس کے خلاف اپنی فوجی کارروائی کو وسعت دینے کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے جس میں غزہ پر 'قبضہ' شامل ہے۔
اس منصوبے کے تحت غزہ کے 21 لاکھ فلسطینیوں کو جنوب کی طرف منتقل کرنے کے بارے میں بھی کہاگیا ہے جس سے انسانی بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے۔
سرکاری اہلکار کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے اس کو ’شاندار منصوبہ‘ قرار دیا ہے کیونکہ یہ حماس کو شکست دینے کے مقاصد حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ باقی ماندہ یرغمالیوں کی رہائی کو ممکن بنائے گا۔
اسرائیلی کابینہ نے اصولی طور پر پرائیویٹ کمپنیوں کے ذریعے انسانی امداد کی فراہمی اور تقسیم کے منصوبے کی بھی منظوری دی ہے جس سے اقوام متحدہ کے مطابق دو ماہ کی ناکہ بندی ختم ہو جائے گی جس سے غزہ میں خوراک کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔
اقوام متحدہ اور دیگر امدادی اداروں نے کہا ہے کہ یہ تجویز بنیادی انسانی ہمدری کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے اور وہ اس میں تعاون نہیں کریں گے۔
حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی کا منصوبہ 'سیاسی بلیک میلنگ' کے مترادف ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کی سکیورٹی کابینہ نے اتوار کی شام کو غزہ پر کارروائی کرنے سے متعلق معاملات پر اجلاس کیا تھا۔ اسرائیل کی جانب سے دو ماہ کی جنگ بندی کے خاتمے کے بعد 18 مارچ سے یہ کارروائی دوبارہ شروع ہوئی ہے۔
ایک اسرائیلی سرکاری اہلکار نے پیر کو میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ وزرا نے اسرائیلی فوج کے چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل ایال ضمیر کی طرف سے 'غزہ میں حماس کو شکست دینے اور یرغمالیوں کی واپسی' کے لیے تجویز کردہ منصوبے کی منظوری کے لیے متفقہ طور پر ووٹ دیا۔
سرکاری اہلکار نے بتایا کہ ' اس منصوبے میں دیگر چیزوں کے علاوہ، غزہ کی پٹی پر قبضہ اور علاقوں پر انتظام سنبھالنا، غزہ کی آبادی کو اپنے دفاع کے لیے جنوب میں منتقل کرنا، حماس کو انسانی ہمدردی کے تحت امداد کی تقسیم کی صلاحیت سے محروم کرنا اور حماس کے خلاف طاقتور حملے شامل ہوں گے۔'
اسرائیلی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ اس منصوبے میں مہینوں لگیں گے اور پہلے مرحلے میں غزہ کے اضافی علاقوں پر قبضہ اور علاقے کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے نامزد کردہ 'بفر زون' کی توسیع شامل ہے۔ اس کا مقصد اسرائیل کو حماس کے ساتھ نئی جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے پر بات چیت میں اضافی فائدہ دینا ہے۔
سکیورٹی کابینہ کے رکن زیو ایلکن نے اسرائیلی کے سرکاری ٹی وی کان کو بتایا کہ صدر ٹرمپ کے 13 سے 16 مئی کے مشرق وسطیٰ کے دورے کے اختتام سے قبل 'اگر حماس سمجھتی ہے کہ ہم سنجیدہ ہیں تو ایک یرغمالی کی رہائی کے لیے 'اب بھی امکان' موجود ہے۔'
Getty Images
اتوار کو بحری اڈے کے دورے کے دوران لیفٹیننٹ جنرل ضمیر نے خصوصی دستوں کو بتایا کہ 'غزہ میں اپنے آپریشن کو مضبوط اور وسعت دینے کے لیے' دسیوں ہزار ریزرو فوج کو بلایا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم اپنے لوگوں کو گھر واپس لانے اور حماس کو شکست دینے کے مقصد کے تحت دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ ہم اضافی علاقوں میں آپریشن کریں گے اور زمین کے اوپر اور نیچے دہشت گردی کے تمام ڈھانچے کو تباہ کر دیں گے۔'
تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ایک ناکام حکمت عملی ہے کیونکہ چھ ہفتے قبل دوبارہ کارروائی شروع کرنے کے بعد سے باقی 59 یرغمالیوں میں سے کسی کو بھی رہا نہیں کروایا جا سکا ہے۔
یرغمالیوں کے لواحقین کی نمائندگی کرنے والے یرغمالیوں اور لاپتہ خاندانوں کے فورم نے کہا کہ یہ منصوبہ حکومت کی طرف سے یہ اعتراف تھا کہ وہ 'یرغمالیوں پر علاقوں کا انتخاب کر رہی ہے' اور یہ اسرائیل میں '70 فیصد سے زیادہ لوگوں کی مرضی کے خلاف' ہے۔
اسرائیلی اہلکار نے کہا کہ 'سکیورٹی کابینہ نے اس بات کی بھی بھاری اکثریت سے منظوری دی ہے کہ 'اگر ضروری ہو تو نجی کمپنیوں کے ذریعے انسانی ہمددری کی بنیادوں پر امداد کی تقسیم کی جائے گی، یہ اقدام حماس کو امداد کی رسد پر کنٹرول حاصل کرنے سے روکے گا اور اس کی حکومتی صلاحیتوں کو تباہ کر دے گا۔‘
جنگ بندی کے باوجود غزہ پر اسرائیلی حملوں کے پیچھے چھپی نتن یاہو کی حکمت عملی اور نیا امریکی منصوبہ’غزہ میں اب ہر طرف قبریں ہی قبریں ہیں‘اسرائیل کا قیام کیسے اور کیوں عمل میں آیا اور غزہ کے ساتھ اِس کے تنازع کی تاریخ کیا ہے؟وحدۃ الظل: غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کی حفاظت پر مامور حماس کا پراسرار دستہ
حماس کے ساتھ دو ماہ کی جنگ بندی کے خاتمے کے بعد اسرائیل کی جانب سے 18 مارچ کو دوبارہ غزہ میں کارروائی شروع کی گئی تھی اور اس کے بعد سے کسی بھی اسرائیلی یرغمالی کو رہا نہیں کیا گیا۔
اس کارروائی میں اسرائیل نے غزہ کے بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا ہے اور لاکھوں باشندوں کو دوبارہ بےگھر کر دیا ہے۔ اسرائیل نے کہا ہے کہ اس کا مقصد حماس پر دباؤ ڈالنا تھا اور اس حکمت عملی میں انسانی امداد کی بندش بھی شامل ہے جو دو ماہ سے زیادہ سے جاری ہے۔
اتوار کو غزہ میں انسانی ہمدردی کے تحت امداد تقسیم کرنے کا فورم ہیومینٹیرین کنٹری ٹیم (ایچ سی ٹی) جس میں اقوام متحدہ کی ایجنسیاں شامل ہیں نے کہا کہ اسرائیلی اہلکار 'موجودہ امداد کی تقسیم کے نظام کو بند کرنے' کی کوشش کر رہے ہیں اور 'ہمیں اسرائیلی فوج کی طرف سے مقرر کردہ شرائط کے تحت اسرائیلی مراکز کے ذریعے سپلائی فراہم کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔'
Getty Imagesتل ابیب میں ایک سال سے زائد عرصے سے جنگ مخالف مظاہرے زور و شور سے جاری ہیں
امدادی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ اس ناکہ بندی کی وجہ سے غزہ میں خوراک، پانی اور ادویات کی شدید قلت کی اطلاعات ہیں۔ ان اداروں کا کہنا ہے کہ یہ (غزہ کے شہریوں کو) فاقہ کشی پر مجبور کرنے کی پالیسی ہے جو جنگی جرم کے مترادف ہو سکتی ہے۔ اس الزام کو اسرائیل نے مسترد کیا ہے۔
حماس کے زیر انتظام علاقے کی وزارت صحت کے مطابق، غزہ میں جنگ کے دوران اب تک کم از کم ساڑھے 52 ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 18 مارچ کے بعد مارے جانے والے فلسطینیوں کی تعداد 2,436 تک پہنچ چکی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جنگ کا دائرہ بڑھانے کے لیے ریزرو فوجیوں کی طلبی کا اعلان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جبکہ اس جنگ کی مخالفت میں اسرائیل کے اندر سے ہیکئی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔
اس کی حالیہ مثال اسرائیل کی ریزرو فوج کے اہلکاروں کا جنگ بندی کے لیے کھلا خط ہے۔ حالیہ ہفتوں کے دوران اسرائیلی فوج کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں ریزرو فوجیوں نے ایسے خطوط پر دستخط کیے ہیں جن میں وزیرِاعظم بنیامن نتن یاہو کی حکومت سے جنگ بندی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور انھیں ان 59 بقیہ یرغمالیوں کی واپسی کے لیے معاہدہ کرنے کا کہا گیا ہے جو تاحال حماس کی قید میں ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک توسیعی جارحیت تھکے ہوئے ریزرو سپاہیوں پر مزید دباؤ ڈالے گی، جن میں سے کچھ جنگ شروع ہونے کے بعد سے پانچ یا چھ بار طلب کیے جا چکے ہیں۔
یاد رہے کہ سات اکتوبر کے بعد لاکھوں اسرائیلی ریزرو اہلکاروں نے وطن کی خدمت کے لیے اپنی خدمات فوری پیش کیں تاہم اب وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ اہلکار اس کے مخالف ہیں اور رپورٹس کے مطابق ریزرو فورسز کی حاضری 50 سے 60 فیصد تک گر چکی ہے۔
Getty Images
مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسرائیلی کارروائی میں توسیع یرغمالیوں کے خاندانوں کے ان خدشات کو بھی ہوا دے گی، جنھوں نے حکومت سے حماس کے ساتھ معاہدہ کرنے پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ان لوگوں کو بچانے کا واحد راستہ ہے جو ابھی تک زندہ ہیں۔
جنگ بندی کے بارے میں خطوط پر دستخط کرنے والوں میں شامل ڈینی یاتوم سمیت متعدد افراد وزیرِاعظم کے پرانے ناقدین میں سے ہیں۔ ان میں سے کچھ وہ افراد بھی ہیں جو سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے سے قبل شروع ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں میں شریک رہے۔
ڈینی یاتوم کہتے ہیں کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ نتن یاہو کو سب سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات کی فکر ہے۔ اُن کی ترجیحات میں سب سے اوپر ان کے مفادات اور اپنی حکومت کو برقرار رکھنا ہے نہ کہ یرغمالیوں کی رہائی۔‘
تقریباً 18 ماہ پہلے بہت کم اسرائیلی ایسے تھے جو جنگ کے جواز پر سوال اٹھاتے تھے اور ان کا مقصد حماس کو شکست دینا اور یرغمالیوں کو واپس لانا تھا۔
جنوری 2025 میں جنگ بندی کے معاہدے اور اس کے بعد 30 سے زائد یرغمالیوں کی واپسی نے بہت سے لوگوں کے لیے یہ امید پیدا کی کہ شاید جنگ جلد ختم ہو جائے گی۔
لیکن جب اسرائیل نے مارچ کے وسط میں جنگ بندی ختم کر کے دوبارہ لڑائی آغاز کیا تولوگوں کی یہ امیدیں ٹوٹ گئیں۔
سابق خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ ڈینی یاتوم نے اسی خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اسرائیل ایک بہت خطرناک سمت کی طرف جا رہا ہے۔‘
غزہ میں، حماس کے زیر انتظام وزارت صحت نے کہا کہ اتوار کو مقامی وقت کے مطابق 11:05 (09:05 BST) تک، گزشتہ 24 گھنٹوں میں 40 افراد ہلاک اور 125 زخمی ہوئے۔
اسرائیلی فوج نے سات اکتوبر 2023 کو سرحد پار سے ہونے والے ایک غیر معمولی حملے کے جواب میں حماس کو تباہ کرنے کی مہم شروع کی، جس میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک اور 251 دیگر کو یرغمال بنایا گیا۔
جنگ بندی کے باوجود غزہ پر اسرائیلی حملوں کے پیچھے چھپی نتن یاہو کی حکمت عملی اور نیا امریکی منصوبہ’غزہ میں اب ہر طرف قبریں ہی قبریں ہیں‘اسرائیل کا قیام کیسے اور کیوں عمل میں آیا اور غزہ کے ساتھ اِس کے تنازع کی تاریخ کیا ہے؟وحدۃ الظل: غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کی حفاظت پر مامور حماس کا پراسرار دستہمتنازع نقشے پر سعودی عرب، فلسطین اور عرب لیگ کی مذمت: ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ یا کوئی ٹھوس منصوبہوہ 90 منٹ جن میں لیا گیا فیصلہ یہودیوں پر قیامت بن کر ٹوٹا