’امید کا پیغام‘، بلوچستان کی پہلی ہندو اسسٹنٹ کمشنر

اردو نیوز  |  May 08, 2025

بلوچستان کے ضلع نوشکی سے تعلق رکھنے والی 25 سالہ کشش چوہدری نے صوبائی مقابلے کا امتحان (پی سی ایس) پاس کر کے تاریخ رقم کر دی ہے۔ وہ بلوچستان کی پہلی ہندو خاتون اور کم عمر ترین اسسٹنٹ کمشنر بن گئی ہیں۔

اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کشش چوہدری نے کہا کہ ’یہ صرف ان کی ذاتی کامیابی نہیں بلکہ پسماندہ طبقات اور علاقوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کے لیے ایک امید کا پیغام بھی ہے۔‘

کشش چوہدری کا تعلق نوشکی کے متوسط ہندو گھرانے سے ہے۔ انہوں نے میٹرک، ایف ایس سی، بی ایس تک تعلیم اسی ضلع سے ہی حاصل کی، بعدازاں یونیورسٹی آف بلوچستان کوئٹہ سے سوشیالوجی اور پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا۔

کشش چوہدری کے مطابق ’گریجویشن مکمل کرنے سے پہلے ہی انہوں نے صوبائی مقابلے کے امتحان (پی سی ایس) کی تیاری شروع کر دی تھی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ 2020 میں اقلیتوں کے لیے جب مخصوص کوٹہ پر امتحان کا اعلان ہوا تو پہلی بار انہیں پتہ چلا کہ بیوروکریسی میں جانے کا راستہ کیا ہے تاہم اس وقت عمر کی حد پوری نہ ہونے کے باعث وہ امتحان میں شرکت نہ کر سکیں۔

ان کے مطابق ’اس وقت میری عمر 20 سال تھی جبکہ عمر کی کم از کم حد 21 سال تھی ۔ یہ موقع تو چھن گیا مگر افسر بننے کے خواب نے دل میں جگہ بنا لی۔

وہ بتاتی ہیں کہ 2022 میں جیسے ہی جنرل پی سی ایس کا اعلان ہوا تو یونیورسٹی کے سیکنڈ لاسٹ سمسٹر میں ہوتے ہوئے بھی اپلائی کیا اور پھر دن رات ایک کر دیا۔

’سات مضامین کی تیاری آسان نہیں ہوتی لیکن میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ پیچھے نہیں ہٹوں گی۔‘

کشش چوہدری کے مطابق ’تین سال تک روزانہ 10 گھنٹے پڑھائی کی‘ (فوٹو: اردو نیوز)کشش چوہدری نے بتایا کہ انہوں نے تین سال مسلسل اس امتحان کی تیاری کی، روزانہ آٹھ سے 10 گھنٹے پڑھا، شادی و دیگر تقریبات اور اپنی سالگرہ منانے جیسے لمحات بھی قربان کرنا پڑے۔  

وہ کہتی ہیں ’یہ میری خوش نصیبی ہے کہ میں پہلی ہی کوشش میں کامیاب ہو گئی۔ لوگ دوسری یا تیسری کوشش میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور کئی تو ناکام ہی رہ جاتے ہیں ۔‘

ان کے مطابق اگرچہ ابتدا میں کچھ لوگوں نے حوصلہ شکنی کی لیکن مجموعی طور پر انہیں معاشرے اور بالخصوص مسلمان دوستوں اور اساتذہ کا بھرپور تعاون حاصل رہا۔ گروپ سٹڈی، اکیڈمی، ہر جگہ سب نے ساتھ دیا۔  

ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں اقلیتوں کے لیے ماحول سازگار ہے۔ میڈیا پر شاید کچھ اور تاثر ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ہر جگہ عزت اور احترام ملتا ہے۔ کبھی مذہبی تعصب محسوس نہیں ہوا۔

کشش چوہدری نہ صرف اپنی کمیونٹی بلکہ پورے ضلع میں واحد خاتون ہیں جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔

اس کامیابی کو وہ ذاتی کامیابی سے بڑھ کر ایک سماجی ذمے داری سمجھتی ہیں۔

ان کا عزم ہے کہ وہ سرکاری افسر کے طور پر بلوچستان کے لوگوں خصوصاً خواتین کے لیے ایک ایسا ماحول پیدا کریں جہاں ہر فرد کو ترقی کے مساوی مواقع میسر ہوں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’میری خاص توجہ خواتین پر ہو گی میں ان کی تعلیم، صحت اور ترقی کے لیے کام کرنا چاہتی ہوں۔‘

نوشکی جیسے پسماندہ علاقے اور قبائلی معاشرے میں جہاں خواتین کی شرحِ تعلیم 25 فیصد سے بھی کم ہے۔

کشش چوہدری کا ماننا ہے کہ ان کی کامیابی کئی لڑکیوں کے لیے مشعلِ راہ بن سکتی ہے۔

’ہمارے ضلع کی اکثر لڑکیاں شادی ، سماجی دباؤ یا کسی اور وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑ نے پر مجبور ہو جاتی ہیں، میں چاہتی ہوں کہ میرے بعد اور لڑکیاں بھی اس شعبے میں آئیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ ایک چھوٹے، پسماندہ علاقے سے ایک اوسط تعلیمی پس منظر سے آ کر یہ کامیابی حاصل کر سکتی ہیں تو کوئی بھی کر سکتا ہے۔

’میں کسی مہنگے اور بڑے سکول سے نہیں پڑھی نہ ہی میرے پاس وسائل کی فراوانی تھی لیکن عزم اور محنت سب کچھ ممکن بناتی ہے۔‘

کشش چوہدری کہتی ہیں کہ انہوں نے امتحان کی تیاری کے دوران کئی بار مایوسی کا سامنا کیا۔ ساڑھے تین سال تک مسلسل تیاری کی۔

’یہ صبر آزما اور لمبا سفر ہے اکثر دل کرتا تھا سب چھوڑ دوں لیکن پھر اپنے والد، اپنی کمیونٹی، اور ان لڑکیوں کو یاد کرتی تھی جن کے خواب سماجی بندشوں میں کہیں دفن ہو جاتے ہیں۔‘

وہ نوجوانوں کو مشورہ دیتی ہیں کہ مقابلے کے امتحان میں ایک بار ضرور حصہ لیں کیونکہ یہ صرف کامیابی یا ناکامی کا نام نہیں ۔ یہ سوچنے کا زاویہ بدل دیتا ہے۔

بلوچستان میں حالیہ برسوں میں خواتین افسران کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے حال ہی میں بیان دیا کہ ’خواتین ڈپٹی کمشنر مردوں سے زیادہ اچھا کام کر رہی ہیں۔‘

کشش چوہدری نے پہلی ہی کوشش میں پی سی ایس کا امتحان پاس کیا (فائل فوٹو: اے پی پی)کشش چوہدری کہتی ہیں کہ وزیراعلیٰ کے اس بیان نے ان کا حوصلہ مزید بڑھایا ہے۔

وہ اس کامیابی کا کریڈٹ اپنے گھر والوں خصوصاً والد کو دیتی ہیں۔

’والد کی خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں۔ میں نے کئی بار میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے ایم ڈی کیٹ کا ٹیسٹ بھی دیا لیکن بہت کم نمبروں سے رہ گئی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میری اپنی خواہش تھی کہ میں اپنے والد کی طرح افسر بن کر اپنے لوگوں، اپنے ضلع اور صوبے کے عوام کی خدمت کروں اور خواتین کی زندگیوں میں تبدیلیاں لاؤں۔‘

کشش کے والد چوہدری گرداری لعل خود بیورو کریٹ اور بلوچستان حکومت میں ایڈیشنل سیکریٹری ہیں۔

وہ اپنی بیٹی کی کامیابی کو اپنے، پورے ضلع اور اپنی کمیونٹی کے لیے فخر کا باعث سمجھتے ہیں۔

ان کے مطابق ’کشش نے اس سے پہلے نوشکی سے لیکچرار اور ڈپٹی ڈسٹرکٹ پاپولیشن آفیسر کے امتحانات بھی پاس کیے لیکن ان کا خواب ہمیشہ اس سے بڑا تھا۔‘

کشش چوہدری کا کہنا ہے کہ انہیں کبھی مذہبی تعصب کا سامنا نہیں کرنا پڑا (فوٹو: اردو نیوز)ان کا کہنا ہے کہ نوشکی میں آج بھی کوئی پرائیویٹ کالج نہیں اور سرکاری اداروں کا معیار بھی کچھ اچھا نہیں۔ ایسے ماحول میں کشش نے جو کچھ حاصل کیا ہے وہ واقعی غیرمعمولی ہے۔ یہ ان کی اپنی محنت کا پھل ہے ہم نے صرف سپورٹ کیا کامیابی ان کی لگن نے دلوائی۔

چوہدری گرداری لعل کہتے ہیں کہ اپنی بیٹی کو ڈاکٹر بنانے کی خواہش بھی اسی لیے تھی کہ وہ لوگوں کی خدمت کرے لیکن اب وہ افسر بن کر لوگوں کے لیے کام کرے گی تو یہی ہماری اصل خوشی ہے۔

’میں نے کشش کو پہلا سبق یہی دیا ہے کہ دیانتداری سے کام کریں ۔عزت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ میں بیس سال سے سروس میں ہوں آج بھی کرائے کے گھر میں رہتا ہوں لیکن عزت ایسی ملی ہے کہ باقی سب کچھ اس کے آگے چھوٹا لگتا ہے۔‘

چوہدری گرداری لعل کہتے ہیں کہ ہماری نویں نسل نوشکی میں آباد ہے۔ ہمارا خاندان ملتان سے ہجرت کرکے یہاں آیا تھا۔ آج یہاں ڈیڑھ سو سے زائد ہندو خاندان بستے ہیں لیکن ہمیں کبھی کسی امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ نوشکی کے مقامی قبائل اور لوگ بہت خیال رکھنے والے اور کشادہ دل ہیں۔ ہمیں ان سے ہمیشہ پیار ملا ہے۔ 

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More