بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ کی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔مسلسل پندرہ برس تک بنگلہ دیش پر حکومت کرنے والی شیخ حسینہ واجد کو گذشتہ سال زبردست عوامی احتجاج کے بعد معزول کر دیا گیا تھا۔امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق بنگلہ دیشی حکومت کے قانونی امور کے مشیر آصف نذرل نے عوامی لیگ کی سرگرمیوں پر پابندی کے حوالے سے سنیچر کی رات گئے صحافیوں کو آگاہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ’نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں عبوری کابینہ نے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت عوامی لیگ کی آن لائن اور دیگر جگہوں پر سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘’یہ پابندی اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک کہ کوئی خصوصی ٹریبیونل گذشتہ برس جولائی اور اگست میں حکومت مخالف احتجاج کے دوران سینکڑوں مظاہرین کی ہلاکتوں پر مقدمے کی سماعت مکمل نہیں کر لیتا۔‘انہوں نے کابینہ کے خصوصی اجلاس کے بعد مزید بتایا کہ ’اس فیصلے کا مقصد قومی سلامتی اور خودمختاری کو یقینی بنانا ہے۔‘’اس کے علاوہ اس کا مقصد گذشتہ برس جولائی میں شروع ہونے والی تحریک کے کارکنوں اور ٹرییبونل کی کارروائی میں شریک مدعی اور گواہوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔‘آصف نذرل نے کہا کہ ’عوامی لیگ پر پابندی سے متعلق حکومت کا نوٹیفیکیشن جلد ہی مکمل تفصیل کے ساتھ شائع کر دیا جائے گا۔‘مارچ میں بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے کہا تھا کہ اس کا معزول وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔تاہم احتجاجی تحریک کے دوران مرنے والے طلبہ کے ساتھی رہنماؤں نے شیخ حسینہ واجد کی پارٹی کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔عوامی لیگ پر پابندی کا یہ ڈرامائی فیصلہ سنیچر کو دارالحکومت ڈھاکہ میں ہزاروں مظاہرین کے احتجاج کے بعد سامنے آیا۔مظاہرین میں طلبہ کی جانب سے ایک نئی تشکیل شدہ سیاسی جماعت کے حامی بھی شامل تھے، یہ طلبہ ڈھاکہ کی سڑکوں پر نکل آئے اور عوامی لیگ پر پابندی کا مطالبہ کیا۔
عوامی لیگ پر پابندی کا مطالبہ کرنے کے لیے سنیچر کو ہزاروں طلبہ ڈھاکہ کی سڑکوں پر نکل آئے تھے (فوٹو: اے ایف پی)
طلبہ نے سابق حکمران جماعت عوامی لیگ پر سنیچر کی رات تک پابندی لگانے کی ڈیڈلائن دے رکھی تھی۔ احتجاجی مظاہرے میں جماعت اسلامی کے طلبہ ونگ کے نمائندے بھی موجود تھے۔شیخ حسینہ واجد یا ان کی پارٹی کی جانب سے حکومت کی اس پابندی پر فوری ردعمل سامنے نہیں آیا، تاہم طالب علم رہنما اور نیشنل سٹیزن پارٹی کے سربراہ ناہید اسلام نے حکومت کے اس فیصلے کو سراہا ہے۔واضح رہے کہ بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے خلاف طلبہ و طالبات نے ایک زبردست مہم چلائی تھی جس کے بعد وہ 5 اگست 2024 کو استعفیٰ دے کر انڈیا روانہ ہو گئی تھیں۔حسینہ واجد کے مستعفی ہونے کے بعد بنگلہ دیش کے نوبیل انعام یافتہ ماہر معاشیات محمد یونس کو عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔یاد رہے کہ جولائی 2024 میں طلبہ و طالبات نے سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم ختم کرانے کے لیے احتجاج شروع کیا تھا جو بعد میں پرتشدد مظاہروں میں بدل گیا اور سینکڑوں اموات کا سبب بنا۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے رواں برس فروری میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف مظاہروں کے تین ہفتوں کے دوران 1400 افراد کی ہلاکت کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔