"میں خود کو کوئی بڑی فیمنسٹ نہیں سمجھتی۔ میں پرانے وقتوں کی عورت ہوں۔ مجھے گھر میں رہنا اچھا لگتا ہے، اور میں چاہتی ہوں کہ مرد، مرد بن کر رہیں۔ مجھے لائن میں لگ کر بل ادا کرنا پسند نہیں، یہ سب کام مردوں کو ہی کرنے چاہئیں، تاکہ عورتیں سکون سے جی سکیں۔"
پاکستانی ڈراما انڈسٹری کی کامیاب ترین اداکاراؤں میں شمار ہونے والی سارہ خان نے ایک حالیہ انٹرویو میں ایسا بیان دے دیا جس نے سوشل میڈیا کو دو واضح حصوں میں تقسیم کر دیا۔ نرم لہجے میں دی گئی ان کی سادہ بات، ایک گہری بحث کا موضوع بن گئی۔
سارہ خان، جنہوں نے ثبات، رقصِ بسمل، لاپتا جیسے ڈراموں سے اپنی جگہ بنائی، اب نئے سیریل شیر میں دانش تیمور کے ساتھ نظر آئیں گی۔ مگر ان کے کیریئر کی یہ نئی پیشرفت اس وقت پس منظر میں چلی گئی، جب ان کا "فیمنزم" سے متعلق نکتۂ نظر سرخیوں کی زینت بن گیا۔
اداکارہ کا کہنا ہے کہ وہ روایتی سوچ رکھتی ہیں، اور عورتوں کے حقوق کی جدوجہد کو مغربی انداز میں دیکھنے کی قائل نہیں۔ ان کے مطابق خواتین کو عزت اسی وقت ملتی ہے جب مرد اپنی ذمہ داری کو قبول کریں اور عورتوں کو تحفظ دیں۔
لیکن بات یہیں پر رکی نہیں۔
ان کے بیان کے بعد سوشل میڈیا پر ایک طوفان سا آ گیا۔ کچھ صارفین نے ان کی سوچ کو حقیقت پسندانہ اور اسلامی اقدار سے ہم آہنگ قرار دیا۔ کسی نے لکھا، "آخر کوئی تو ہے جو عورت کو عورت رہنے دینا چاہتی ہے۔" جبکہ دوسرے کا کہنا تھا، "اسلام نے جو مقام عورت کو دیا ہے، وہ فیمنزم سے کہیں بہتر ہے۔"
دوسری جانب تنقید کا ایک الگ محاذ بھی کھل گیا۔
کئی لوگوں نے سارہ کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ایک صارف نے لکھا، "یہ بیان جہالت کا نمونہ ہے، انہیں معلوم ہی نہیں فیمنزم ہے کیا۔" ایک اور کا تبصرہ تھا، "اگر فیمنسٹ تحریکیں نہ ہوتیں تو شاید آج سارہ بھی کیمرے کے سامنے نہ ہوتیں۔"
ایک تنقیدی آواز میں کہا گیا، "اسی سوچ کی وجہ سے آدھی قوم صرف چائے پینے کے لیے گھر بیٹھ جاتی ہے اور ملک آگے نہیں بڑھتا۔"