Getty Imagesکبیر بیدی اور ان کی اہلیہ پروین دوسانجھ
’ایک طرح سے ہم اپنے زمانے کے باغی بن گئے۔ پروتیما اور میں شادی سے پہلے ایک ساتھ رہ رہے تھے۔ یہ میرا پہلا رشتہ تھا۔ یہ اس وقت ایک بڑا سکینڈل بن گیا تھا کیونکہ ہمارے ساتھ رہنے کے بارے میں مضامین شائع ہونے لگے تھے۔‘
یہ بات ہندی سنیما کے اداکار کبیر بیدی نے کہی جنھوں نے چار بار شادی کی لیکن ان کے خیال میں ان کے سبھی تعلق اچھے رہے۔
کبیر بیدی ایک ایسے انڈین اداکار ہیں جنھوں نے نہ صرف انڈین فلموں میں کامیابی حاصل کی بلکہ غیر ملکی فلموں میں اس سے بھی زیادہ کامیابی حاصل کی۔
انھوں نے اپنے کریئر کے دوران اشتہارات میں بھی کام کیا اور تھیٹر میں بھی سرگرم رہے۔
انھوں نے ہندی سنیما میں مختلف شیڈز کے کردار ادا کیے۔ ان کی پہلی ہندی فلم 'ہلچل' سال 1971 میں ریلیز ہوئی تھی۔
کبیر بیدی نے ہندی سنیما میں 'خون بھری مانگ'، دی ہیرو: لو سٹوری آف اے سپائی اور میں ہوں ناں جیسی کئی فلموں میں کام کیا۔
بی بی سی ہندی کی خصوصی پیشکش 'کہانی زندگی کی' میں کبیر بیدی نے اپنی زندگی کے کئی اہم لمحات شیئر کیے۔
BBC'کوئی بھی رشتہ ون نائٹ سٹینڈ نہیں تھا'
کبیر بیدی اپنے فلمی کیریئر کے ساتھ ساتھ ازدواجی زندگی کی وجہ سے بھی کافی خبروں میں رہے۔
70 سال کی عمر میں انھوں نے پروین دوسانجھ سے شادی کی جو ان سے 29 سال چھوٹی تھیں اور یہ ان کی چوتھی شادی تھی۔
ان کی پہلی بیوی پروتیما گوری اوڈیسی ڈانسر تھیں۔ پروتیما کے بعد انھوں نے برطانوی نژاد فیشن ڈیزائنر سوزین ہمفریز سے شادی کی۔
پھر انھوں نے ٹی وی اور ریڈیو پریزینٹر نکی ریڈز سے شادی کی۔ اس کے بعد پروین دوسانجھ ان کی زندگی میں آئیں۔
Getty Imagesکبیر بیدی نے ٹی وی اور ریڈیو پریزینٹر نکی ریڈز سے تیسری شادی کی تھی
اپنی چار شادیوں کے بارے میں بی بی سی ہندی سے بات کرتے ہوئے کبیر بیدی کہتے ہیں کہ ’سچ کہوں تو میرا کوئی بھی رشتہ ون نائٹ سٹینڈ نہیں تھا۔‘
’میری پہلی شادی سات سال تک چلی، میری دوسری شادی سات سے آٹھ سال تک چلی، میری تیسری شادی پندرہ سال تک چلی۔ پروین اور میں انیس سال سے اکٹھے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں ’میرے تعلقات اچھے، دیرپا رہے ہیں اور سب سے قابل فخر بات یہ ہے کہ میری اب بھی اپنی تمام سابقہ بیویوں کے ساتھ دوستی ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ ان کی تینوں سابقہ بیویوں نے ایک ساتھ کرسمس بھی منائی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میرے تعلقات میں کامیابی بڑی نہ سہی لیکن ایک چھوٹی کامیابی ضرور ہے۔‘
’میرے والد برہمن تھے مگر والدہ کہتی تھیں ڈر لگے تو یا علی مدد بول لیا کرو‘’پاکستان کے بجائے جہنم جانا پسند کروں گا‘: جاوید اختر کا بیان جس نے پاکستانیوں کو پھر سے ناراض کر دیاسٹیج ڈرامے میں ہونے والی بدمزگی جس نے عمر شریف کو کامیڈی سٹار بنا دیافلمستان: بالی وڈ کے پہلے ’سٹار میکر‘ کا سٹوڈیو جس نے دلیپ کمار اور دیو آنند جیسے ستاروں کو متعارف کروایاGetty Imagesبیٹلز 1960 کی دہائی کا ایک برطانوی راک بینڈ ہے بیٹلز کے ساتھ انٹرویو جو ضائع ہو گیا
جب کبیر بیدی 19 سال کے تھے تو انھوں نے اس وقت کے مشہور ترین انگریزی راک بینڈ 'دی بیٹلز' کا انٹرویو کیا۔ اس وقت وہ آکاشوانی کے لیے فری لانس کام کیا کرتے تھے۔
کبیر نے 'بیٹلز' کے ساتھ اپنی ملاقات کو ایک خواب کی طرح بیان کیا ہے۔ کبیر بیدی کا خیال ہے کہ 'دی بیٹلز' موسیقی سے دنیا کو بدل رہے تھے۔
کبیر کہتے ہیں کہ ’میں نے بیٹلز کے ساتھ جو انٹرویو کیا، وہ ایک طرح سے ایک علامتی انٹرویو تھا۔ اس وقت وہ دنیا کے سب سے مشہور میوزک بینڈ تھے۔ وہ صرف موسیقار نہیں تھے۔ وہ وقت بدل رہے تھے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’بیٹلز اب بھی میرے پسندیدہ موسیقار ہیں کیونکہ انھوں نے میرا میوزک کی پسند بدل دی۔ انھوں نے دنیا کو اپنے طریقے سے بدل دیا اور ایک نئے دور کی علامت بن گئے۔ میں آج بھی انھیں اس کے لیے سلام پیش کرتا ہوں۔‘
لیکن کبیر بیدی کو اب بھی افسوس ہے کہ آل انڈیا ریڈیو نے اسے محفوظ نہیں کیا اور صرف تین دن بعد اس انٹرویو کی ٹیپ کو حذف کر دیا گیا۔
Getty Imagesاطالوی سیریز ’سنڈوکن‘ کے دوران کبیر بیدی کی تصویرہالی وڈ اور یورپی فلموں میں اداکاری
کبیر بیدی ان چند انڈین اداکاروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے بالی ووڈ کے ساتھ ساتھ ہالی وڈ میں بھی کام کیا۔
انھوں نے یورپی ٹیلی ویژن سیریز کے ساتھ ساتھ ہالی ووڈ فلموں میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
کبیر بیدی نے ہالی ووڈ کی مشہور فلم ’جیمز بانڈ‘ سیریز کی فلم ’آکٹوپسی‘ اور ’بولڈ اینڈ بیوٹیفل‘ اور ’سنڈوکن‘ جیسی ٹی وی سیریز میں کام کیا۔
’سنڈوکن‘ سیریز کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ ’بالی ووڈ کے بعد جب میں اٹلی گیا تو میری سیریز کو اٹلی میں کافی کامیابی ملی، جس طرح کی پذیرائی مجھے اٹلی، اسپین، فرانس اور جرمنی میں ملی اس سے مجھے بھی بیٹل مینیا کا احساس ہوا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ میری ’سنڈوکن‘ سیریز نے پورے یورپ میں ٹیلی ویژن کا ہر ریکارڈ توڑ دیا اور مجھے اچانک جو سٹارڈم ملا وہ ناقابل تصور تھا۔ میں نے ایسی کامیابی کا خواب دیکھا تھا اور مجھے وہ مل گئی۔‘
کبیر بیدی نے اپنے ہالی ووڈ کے سفر کا آغاز فلم ’آکٹوپسی‘ سے کیا۔ کبیر بیدی کا کہنا ہے کہ انھیں ہالی ووڈ سے زیادہ یورپی سینما میں کامیابی ملی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہالی ووڈ میں میرا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ان دنوں انڈین کے لیے کوئی کردار نہیں لکھا جاتا تھا، مجھے کردار نہیں مل رہے تھے، شروع میں بانڈ جیسی فلمیں کرنے کے باوجود کردار ملنا بہت مشکل تھا، کردار بھی نہیں لکھے جا رہے تھے، اگر آپ کردار نہیں لکھیں گے تو کیسے ملیں گے؟‘
ہالی ووڈ میں انڈین کرداروں کی کمی کو دیکھ کر کبیر بیدی نے اپنے ایجنٹ سے کہا کہ وہ انھیں غیر ملکی کرداروں میں کاسٹ کرائیں۔
انھوں نے ہسپانوی، اطالوی، روسی کردار ادا کیے۔ انھوں نے مسلسل کام کیا، خاص طور پر اٹلی میں۔
کبیر بیدی کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنے ایجنٹ سے کہا، یہ مت سمجھو کہ میں انڈین ہوں، مجھے ایک غیر ملکی کے کردار میں کاسٹ کروائیں۔‘
’میں نے ہسپانوی، اطالوی، روسی کردار ادا کیے لیکن مجھے ہالی ووڈ میں وہ کامیابی نہیں ملی جو یورپ میں ملی۔ میں نے بہت کام کیا۔ ’بولڈ اینڈ بیوٹیفل‘ دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی سیریز تھی۔ میں نے ایک سال تک اس میں کام کیا۔‘
Getty Imagesاطالوی سیریز ’سنڈوکن‘ کی شوٹنگ کے دوران لی گئی تصویرجیمز بانڈ کی فلم 'آکٹوپسی' میں کام کرنے کا تجربہ
کبیر بیدی نے 1983 کی فلم 'آکٹوپسی' میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہ فلم مشہور افسانوی کردار جیمز بانڈ پر مبنی تھی۔
اس فلم میں کام کرنے کے اپنے تجربے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کبیر بیدی کہتے ہیں کہ ’سب سے پہلے تو میں ایک انڈیناداکار ہوں، ادے پور کا لیک پیلس فلم کا مرکزی مقام تھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں مر کر جنت میں پہنچ گیا ہوں۔‘
’جو لوگ شوٹنگ دیکھنے آتے تھے وہ مجھے پہچانتے اور میرے حق میں نعرے لگاتے۔ ایک انڈین اداکار کے لیے ایسا ہونا بہت جذباتی تجربہ تھا۔‘
کبیر بیدی کا کہنا ہے کہ اس فلم نے انھیں بین الاقوامی سطح پر پہچان دی۔
انھوں نے کہا کہ ’’جیمز بانڈ کی دنیا بہت بڑی ہے، اس کے ہر ملک میں فین کلب ہیں، آپ کو دنیا میں ہر جگہ مدعو کیا جاتا ہے کیونکہ جیمز بانڈ کا نیٹ ورک بہت بڑا ہے۔ اس فلم نے مجھے بین الاقوامی سٹار بنایا۔‘
ان کا کہنا تھ کہ ہالی ووڈ ادکار عمر شریف کے ساتھ انھوں نے تین فلمیں کیں۔
’وہ میرے رول ماڈل تھے۔ عمر ہر شام کو سب کو کھانے پر بلاتے لیکن ان کی عادت تھی کہ وہ جلدی بوریت کا شکار ہو جاتے۔ اگر گفتگو کا مزہ نہ آتا تو وہ لڑنے کا بہانے ڈھونڈتے۔ ہر بوریت والا کھانا ہمیشہ لڑائی پر ختم ہوتا۔‘
کبیر بیدی کہتے ہیں کہ ’کامیابی کافی نہیں، آپ کو اپنی کامیابی کو وسعت دینے کے راستے تلاش کرنے چاہییں۔‘
Getty Imagesکبیر بیدی کی بیٹی پوجا بیدی نے بھی فلموں میں کام کیا ہے بیٹے کی موت اور مالی زوال
کبیر بیدی بتاتے ہیں کہ بچپن سے جوانی کے دور میں وہ انتہائی متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے اس لیے انھیں بہت سارے پیسے کمانے کا شوق ہوا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم جب دلی میں رہتے تھے جہاں میں بڑا ہو رہا تھا تو ہم امیر نہیں تھے، میرے والد فری لانس مصنف اور ماں سرکاری ملازم تھیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کم پیسے والے خاندان سے آنے والے چاہتے ہیں وہ مالی طور پر مستحکم ہوں۔ یورپ میں فلموں کے دوران میں نے پیسے بنائے۔ تب کرائے ادا کرنے اور پیسوں کی کمی کی پریشنانی نہیں رہی۔‘
انھوں نے اعتراف کیا کہ ’پیسے آنے کے بعد ہم سوچنے لگتے ہیں کہ سب ہمیشہ ایسا ہی رہے گا۔ پیسے کے معاملے میں ہم لاپرواہ ہو جاتے ہیں۔ سوچتے ہیں کہ اب آپ ایک سٹار ہیں اس لیے گھر اچھا ہو، گاڑی اچھی ہو۔ لائف سٹائل اچھا ہو۔ پھر میں نے غلط سرمایہ کاریاں کی اور رقم گنوائی۔‘
کبیر بیدی بتاتے ہیں کہ ’مالی مسائل انسان خود پیدا کرنے لگتا ہے۔ پیسوں کی فکر ہونی چاہیے۔ میں ایک دور میں مالی اور جذباتی دونوں طرح سے تباہ ہو گیا تھا۔‘
’اسی دور میں میرے بیٹے کی وفات ہوئی۔ مجھے سمجھ نہیں آیا میں کیا کر رہا ہوں۔ آڈیشن میں سمجھ نہیں آتا تھا کیا کر رہا ہو۔ میں کام گنوانے لگا۔ صورتحال اور خراب ہو گئی۔ لیکن پھر میں نے سوچھا ایسا چلتا رہا تو میں سڑکوں پر آ جاؤں گا۔‘
کبیر بیدی بتاتے ہیں کہ ’میں نے خود سے کہا کبیر تم میں اتنی قابلیت ہے کہ دلی سے نکل کر بالی ووڈ اور وہاں سے یورپ آ گئے۔ اب واپس اپنی طاقت کو پہچانو۔ میں نے انگلینڈ سے دوبارہ زندگی شروع کی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’زندگی جب یہ لگنے لگے کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا اس وقت زندگی میں نقصانات کے بجائے صرف فائدے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔‘
کبیر بیدی کہتے ہیں کہ ’میرے والدین میری کامیابی سے خوش تھے۔ مطمئن ہوں کہ انھوں نے کامیابی دیکھی تھی۔‘
’میرے والد برہمن تھے مگر والدہ کہتی تھیں ڈر لگے تو یا علی مدد بول لیا کرو‘فلمستان: بالی وڈ کے پہلے ’سٹار میکر‘ کا سٹوڈیو جس نے دلیپ کمار اور دیو آنند جیسے ستاروں کو متعارف کروایاسٹیج ڈرامے میں ہونے والی بدمزگی جس نے عمر شریف کو کامیڈی سٹار بنا دیا’لیڈی کِلر‘ اور ’چاکلیٹی ہیرو‘ وحید مراد جو مولا جٹ کے بعد زوال سے سنبھل نہ سکےرفیع خاور ننھا، جن کی موت 37 سال بعد بھی ایک معمہ ہےسلطان راہی جنھوں نے ’گنڈاسا کلچر‘ سے 25 سال پنجابی فلموں پر راج کیا