ایپل کے سی ای او ٹِم کُک کے حالیہ بیان نے دنیا بھر کے صنعتی حلقوں میں خاصی حیرت پیدا کر دی۔ حالیہ بیان میں انھوں نے کہا کہ جلد ہی امریکہ میں فروخت ہونے والے آئی فون بھارت میں تیار کیے جائیں گے۔ اس اعلان سے ایسا محسوس ہوا جیسے دنیا میں اقتصادی گلوبلائزیشن کا نقشہ بدلنے جا رہا ہے، خاص طور پر جب دو دہائیوں سے آئی فون پر "ڈیزائنڈ اِن کیلیفورنیا، میڈ اِن چائنا" لکھا جاتا رہا ہو۔
لیکن حقیقت اس سے تھوڑی مختلف ہے۔ بھارت میں ایپل کی سرگرمیاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں، اور فاکس کون جیسے بڑے ادارے وہاں نئی فیکٹریاں لگا رہے ہیں۔ ایپل اس وقت بھی بھارت میں بڑی تعداد میں فون اسمبل کر رہا ہے، مگر یہ مکمل تبدیلی نہیں بلکہ صرف ایک محتاط قدم ہے۔ بھارت کی طرف یہ منتقلی چین کا متبادل نہیں بلکہ محض ایک متبادل منصوبہ (پلان بی) ہے، جو کسی ہنگامی صورت میں کام آ سکے۔
اگر آپ بھارت میں بنے کسی آئی فون کو کھول کر دیکھیں، تو اندرونی پرزے، ٹیکنالوجی اور سپلائی چین کے بیشتر حصے اب بھی چین سے جڑے ہوئے ہوں گے۔ ایپل اور چین کا رشتہ صرف کاروباری نہیں بلکہ مشترکہ ترقی کا ایک مثالی سفر ہے۔ ایپل نے چین میں نہ صرف سرمایہ کاری کی، بلکہ وہاں کے کارکنوں کو تربیت دی، نئے کارخانے لگائے اور سپلائرز کو ترقی دی۔ چین میں ایپل نے ایک مکمل، جدید، منظم اور تیز رفتار سپلائی سسٹم بنایا، جسے ماہرین "ریڈ سپلائی چین" کہتے ہیں۔ یہی نظام دنیا میں سب سے مؤثر اور قابلِ اعتماد سمجھا جاتا ہے، جس کی اب تک کوئی مثال بھارت یا کسی دوسرے ملک میں نہیں ملتی۔
بھارت میں ابھی جو آئی فون اسمبل ہوتے ہیں، ان کے چِپس، کیمرے، سینسرز اور ڈسپلے اب بھی زیادہ تر چین یا چین سے منسلک کمپنیوں سے آتے ہیں۔ اگر چین میں کسی سیاسی یا تجارتی مسئلے کے باعث سپلائی رک جائے تو بھارت فی الحال اتنی بڑی پیداوار اور تیزی کے ساتھ متبادل فراہم نہیں کر سکتا۔
بھارت کی راہ میں صرف تکنیکی یا مالی رکاوٹیں نہیں، بلکہ بنیادی ڈھانچے کی کمی بھی ہے۔ وہاں کی کمپنیز نسبتاً چھوٹی اور کم وسائل رکھتی ہیں، جنہیں ایپل جیسے عالمی برانڈ کے معیار پر پورا اترنے کے لیے طویل سفر طے کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ، بھارت کی مقامی الیکٹرانکس مارکیٹ بھی محدود ہے، جو عالمی سپلائرز کو وہاں بڑی سرمایہ کاری کے لیے متوجہ کرنے میں ناکام رہتی ہے۔
ابھی بھارت صرف آخری مراحل کی اسمبلی کا کام کر رہا ہے، اصل تیاری اور پرزوں کی تیاری چین میں ہی ہوتی ہے۔ یہ عمل بتاتا ہے کہ بھارت، چین کا نعم البدل نہیں بلکہ ایک اضافی آپشن کے طور پر سامنے آ رہا ہے، تاکہ ایپل سیاسی یا تجارتی دباؤ کی صورت میں کوئی متبادل راستہ رکھ سکے۔
حقیقت یہی ہے کہ آئی فون پر چاہے "میڈ اِن انڈیا" لکھا ہو، اس کی جان، دماغ اور مہارت اب بھی چین سے آتی ہے۔ عالمی سطح پر اس سطح کی پیداوار، رفتار اور معیار حاصل کرنے میں دہائیاں لگتی ہیں اور بھارت انھی اس سفر سے کوسوں دور ہے۔