ایف بی آر کی بینک اکاؤنٹس تک رسائی ، ’لین دین کیش میں ہونے سے معیشت کمزور ہوگی‘

اردو نیوز  |  May 30, 2025

پاکستان میں ٹیکس جمع کرنے والے مرکزی ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے حال ہی میں حاصل ہونے والے قانونی اختیارات کے تحت کمپنیوں کے بینک اکاؤنٹس تک براہِ راست رسائی حاصل کرنا شروع کر دی ہے۔

اس اقدام کے تحت ایف بی آر نے ٹیکس چوری کے شبہے میں ایک نجی ریستوران کے بینک اکاؤنٹ سے 8 کروڑ روپے ضبط کیے ہیں۔ ایف بی آر کے اس نئے طریقۂ کار کو کاروباری حلقے اور ماہر معیشت بنیادی حقوق اور مالی رازداری کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ بغیر پیشگی اطلاع یا وضاحت کے بینک اکاؤنٹس تک رسائی اور رقوم کی ضبطی اعتماد کو مجروح کرنے کے مترادف ہے جس سے نہ صرف کاروباری ماحول متاثر ہو گا بلکہ ملکی معیشت کو بھی نقصان پہنچے گا۔

ایف بی آر کی یہ کارروائی ٹیکس چوری کے خلاف جاری سخت اقدامات کا حصہ ہے، جن میں بینک اکاؤنٹس منجمد کرنا، جائیداد اور گاڑیاں ضبط کرنا شامل ہیں۔

یاد رہے کہ حال ہی میں ٹیکس قوانین (ترمیمی) آرڈیننس 2025 کے ذریعے ایف بی آر کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ عدالت سے اپنے حق میں فیصلہ آنے کی صورت میں ٹیکس دہندہ کو کسی نوٹس کے بغیر براہِ راست ان کے بینک اکاؤنٹس سے رقوم وصول کر سکتا ہے۔

تاجروں کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کے یہ اقدامات کاروباری طبقے میں عدم اعتماد کو جنم دے رہے ہیں، اور اس سے نہ صرف کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوں گی بلکہ لوگ رسمی مالیاتی نظام سے نکل کر کیش لین دین کی جانب مائل ہو سکتے ہیں۔

ایف بی آر نے کس ریستوران کے اکاؤنٹ سے رقم ضبط کی ہے؟

اردو نیوز کو دستیاب معلومات کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے اختیارات حاصل ہونے کے بعد مبینہ ٹیکس چوری کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے کراچی کے معروف ریسٹورنٹ ‘کباب جیز’ کے بینک اکاؤنٹ سے 80 ملین (آٹھ کروڑ) روپے ضبط کر لیے ہیں۔

اس حوالے سے ایف بی آر کے چیئرمین راشد لنگڑیال کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے کی انکوائری کریں گے اور مکمل تحقیقات کے بعد ہی تفصیلات سامنے لائی جائیں گی۔

ٹیکس ماہر اور سابق وزیرِ مملکت ہارون شریف نے ایف بی آر کی جانب سے نجی کمپنیوں کے اکاؤنٹس تک براہِ راست رسائی اور رقوم ضبط کیے جانے کے معاملے پر اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں ٹیکنوکریٹس اور سیاست دانوں کے درمیان ایک مستقل کشمکش جاری ہے، جس کا مقصد ملک کے ریٹیلرز اور غیر رسمی کاروباری اداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کی تاجر برادری کی بڑی تعداد آج بھی مناسب انداز میں ٹیکس ادا نہیں کرتی۔

ظفر موتی والا کے مطابق عوام اپنے بینکوں سے رقوم نکال کر گھروں میں رکھنے پر مجبور ہو جائیں گے (فوٹو: اے پی پی)انہوں نے کہا کہ ’ایف بی آر کی جانب سے اگرچہ چند نمایاں کارروائیاں جیسے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنا اور شواہد کی بنیاد پر چھاپے مارنا بظاہر کچھ ٹیکس وصولیوں میں اضافہ کر سکتی ہیں، لیکن ایسے اقدامات دیرپا نہیں ہوتے۔ وقت کے ساتھ لوگ نئے راستے نکال لیتے ہیں اور ٹیکس سے بچنے کے دیگر طریقے اختیار کر لیتے ہیں۔‘

ہارون شریف کا کہنا ہے کہ مستقل اور پائیدار حل تب ہی ممکن ہے جب حکمران طبقہ واضح طور پر اعلان کرے کہ ریئل اسٹیٹ، ریٹیل اور زرعی آمدن کو باضابطہ طور پر ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایف بی آر کو بھی تربیت دی جانی چاہیے کہ وہ عوام تک رسائی کے لیے ڈیجیٹل ذرائع استعمال کرے، نہ کہ بینک اکاؤنٹس سے رقم نکال کر لوگوں کو ہراساں کرے۔

اُنہوں نے تجویز کیا کہ ایک جامع آگاہی مہم بھی اس عمل کو تقویت دے سکتی ہے، جس کے ذریعے عوام کو یہ یقین دلایا جا سکے کہ ان سے وصول کیا گیا ٹیکس درحقیقت ان کی فلاح و بہبود پر ہی خرچ ہو رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’اصل مسئلہ ریاست اور عوام کے درمیان اعتماد کی کمی کا ہے۔ جب تک لوگ یہ نہیں دیکھیں گے کہ ان کے ٹیکس سے صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولیات بہتر ہو رہی ہیں، اُس وقت تک رضاکارانہ ٹیکس ادائیگی کا کلچر فروغ نہیں پا سکے گا۔‘

ٹیکس امور پر نظر رکھنے والے سینیئر ماہر معیشت اور صنعت کار ظفر موتی والا نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر کی جانب سے بینک اکاؤنٹس تک براہ راست رسائی اور رقوم ضبط کرنے جیسے اقدامات سے عوام اپنے بینکوں سے رقوم نکال کر گھروں میں رکھنے پر مجبور ہو جائیں گے، جس کے نتیجے میں نان ڈاکومنٹڈ اکانومی کا رجحان مزید بڑھے گا۔

ماہرین کے مطابق  تاجر برادری عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہو جائے گی (فوٹو: اے ایف پی)انہوں نے 1998 کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’اُس وقت جب ڈالرز فریز کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، تو ہم نے حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ ایسا نہ کریں کیونکہ اس سے معیشت کو نقصان ہوگا۔ لیکن پھر وہی ہوا۔ اعلان کے بعد لوگوں نے بینکوں سے ڈالرز نکال کر گھروں میں رکھنا شروع کر دیے، جس کے نتیجے میں ملکی کرنسی کی قدر میں تیزی سے کمی آنا شروع ہو گئی۔‘

کا کہنا تھا کہ موجودہ ایف بی آر نے بھی اگر اسی طرز پر سخت اقدامات جاری رکھے تو لوگ لین دین کیش میں کرنے لگیں گے، جو معیشت کی دستاویزی حیثیت کو مزید کمزور کرے گا۔

انہوں نے زور دیا کہ ایف بی آر کو چاہیے کہ وہ بات چیت اور مشاورت کے ذریعے بڑے تاجروں اور کاروباری افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کرے، نہ کہ زبردستی یا ہراسانی سے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس چوری زرعی شعبے میں ہو رہی ہے، لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ ایف بی آر کی اس سیکٹر تک کوئی رسائی ہی نہیں۔ صرف بڑے شہروں، بالخصوص کراچی کو نشانہ بنانا نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ اس سے تاجر برادری کیش لین دین کی طرف راغب ہو  گی۔

انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ ایف بی آر کے اگر ایسے اقدامات جاری رہے تو تاجر برادری عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہو جائے گی۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More