مغربی ممالک روس پر پابندیاں لگانے کے باوجود یوکرین جنگ میں اس کی ’مالی مدد‘ کیسے کر رہے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  May 30, 2025

Getty Images

روس مغربی ممالک کو ایندھن کی برآمدات سے اربوں کی آمدن حاصل کر رہا ہے اور اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ اس رقم سے روس کو یوکرین کے خلاف جنگ میں معاشی مدد مل رہی ہے۔

فروری 2022 میں شروع ہونے والی اس جنگ کے بعد سے روس نے یوکرین کو اپنے اتحادیوں کی طرف سے ملنے والی امداد کے مقابلے میں ہائیڈرو کاربن برآمد کر کے تین گنا سے زیادہ رقم کمائی۔

بی بی سی نے جن اعدادوشمار کا جائزہ کیا، وہ ظاہر کرتے ہیں کہ یوکرین کے مغربی اتحادیوں نے روس کو اس کے ہائیڈرو کاربن کے لیے اس سے زیادہ رقم ادا کی، جتنی انھوں نے یوکرین کو امداد کی صورت میں دی۔

اس حوالے سے مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ یورپ اور شمالی امریکہ کی حکومتوں کو روسی تیل اور گیس کو یوکرین کے ساتھ جنگ ​​میں حصہ ڈالنے سے روکنے کے لیے اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

روس کی آمدن کیسے بڑھ رہی ہے؟

تیل اور گیس کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدن، روس کے جنگی عزائم کو جاری رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ تیل اور گیس سے حاصل ہونے والی آمدن روس کی کل ملکی آمدن کا تقریباً ایک تہائی اور اس کی برآمدات کا 60 فیصد بنتا ہے۔

فروری 2022 کے حملے کے بعد یوکرین کے اتحادیوں نے روس کے ہائیڈروکاربن پر پابندیاں عائد کیں۔ امریکہ اور برطانیہ نے روس کے تیل اور گیس پر پابندی عائد کر دی تھی جبکہ یورپی یونین نے روسی تیل کی درآمد پر پابندی عائد کر دی تھی لیکن گیس پر نہیں۔

سینٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ایئر (سی آر ای اے) کے مطابق پابندیوں کے باوجود یوکرین پر حملے کے آغاز سے لے کر رواں برس 29 مئی تک روس نے ایندھن کی برآمدات سے 883 ارب یورو( 973 ارب ڈالر) سے زیادہ کمائے۔ اس میں سے 228 ارب یورو کی آمدن ان ممالک سے ہوئی، جنھوں نے روس پر پابندیاں عائد کی تھیں۔

اس آمدن کا بڑا حصہ یعنی 209 ارب یورو یورپی یونین کے رکن ممالک سے آیا۔

یورپی یونین کی ریاستیں روس سے براہ راست پائپ لائن گیس درآمد کرتی رہیں جب تک کہ یوکرین نے جنوری 2025 میں ٹرانزٹ لائن کو کاٹ نہیں دیا جبکہ روسی خام تیل ابھی بھی ہنگری اور سلوواکیہ تک پہنچایا جاتا ہے۔

روس سے بڑھتی مقدار میں گیس اب بھی بذریعہ ترکی یورپ پہنچائی جا رہی ہے: سی آر ای اے کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنوری اور فروری 2025 میں اس کے حجم میں 2024 کی اسی مدت کے مقابلے میں 26.77 فیصد اضافہ ہوا۔

ہنگری اور سلوواکیہ بھی بذریعہ ترکی روسی پائپ لائن گیس حاصل کر رہے ہیں۔

Getty Images

سی آر ای اے کے مطابق مغربی ممالک کی کوششوں کے باوجود سنہ 2024 میں ایندھن کے ذرائع سے حاصل ہونے والی روسی آمدن میں سنہ 2023 کے مقابلے میں محض پانچ فیصد کمی ہوئی اور برآمدات میں بھی صرف چھ فیصد کمی ہوئی۔

گذشتہ برس بھی خام تیل کی برآمدات سے روس کی آمدن میں چھ فیصد اضافہ دیکھا گیا اور پائپ لائن گیس سے حاصل ہونے والی آمدن میں ہر گزرتے برس نو فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔

روسی اعدادوشمار کے مطابق سنہ 2024 میں یورپ کو گیس کی برآمدات میں 20 فیصد اضافہ ہوا جبکہ مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی برآمدات ریکارڈ سطح تک پہنچ گئیں۔

سی آر ای اے کا کہنا ہے کہ فی الحال روس کی ایل این جی کی نصف برآمدات یورپی یونین کو جاتی ہیں۔

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کاجا کالس کا کہنا ہے کہ یوکرین کے اتحادیوں نے روسی تیل اور گیس پر ’سخت ترین پابندیاں‘ عائد نہیں کی کیونکہ کچھ رکن ممالک کو اس تنازع میں اضافے کا خدشہ ہے جبکہ قلیل مدت میں یہ خریداری ان کے لیے سستی ہے۔

یورپی یونین کی جانب سے روس کے خلاف منظور شدہ پابندیوں کے تازہ ترین پیکج میں ایل این جی درآمدات کو شامل نہیں کیا گیا لیکن ان تجاویز میں 2027 کے آخر تک روس سے گیس کی تمام درآمدات ختم کرنے کے لیے ایک روڈ میپ پیش کیا گیا۔

اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ روس کو ایندھن کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم، یوکرین کو اپنے اتحادیوں سے ملنے والی امداد سے کم ہے۔

پریشر گروپ ’گلوبل وٹنس‘ سے منسلک مائی روزنر کا کہنا ہے کہ بہت سے مغربی پالیسی سازوں کو خدشہ ہے کہ روسی ایندھن کی درآمدات میں کمی سے توانائی کے شعبے میں قیمتیں بڑھ جائیں گی۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کئی حکومتوں میں روسی تیل کی پیداوار اور فروخت کم کرنے کی کوئی حقیقی خواہش ہے ہی نہیں کیونکہ اس بارے میں بہت زیادہ خوف پایا جاتا ہے کہ توانائی کی عالمی منڈی کے لیے اس کا مطلب کیا ہو گا۔‘

مغربی پابندیوں کے باوجود روس سستا تیل کیسے فروخت کر رہا ہے؟روس سے سستے داموں خام تیل لے کر اس سے بنائی گئی مصنوعات یورپ کو فروخت کرنے پر یورپی یونین انڈیا سے ناراضتیل کی ترسیل کا ’خفیہ‘ نیٹ ورک: روس اور ایران کی منافع بخش برآمد پر امریکی پابندی کتنی کامیاب ہوئی؟فائبر آپٹک ڈرون: یوکرین جنگ کو تیزی سے بدلنے والا یہ خوفناک نیا ہتھیار کیا ہے؟’ریفائننگ کمزوری‘

براہ راست فروخت کے علاوہ روس کی طرف سے برآمد کیا جانے والا کچھ تیل تیسرے ممالک میں ایندھن کی مصنوعات میں پروسیس ہونے کے بعد بھی مغرب پہنچتا ہے، جسے ’ریفائننگ کمزوری‘ بھی کہا جاتا ہے۔ بعض اوقات اس تیل کو دوسرے ممالک کے خام تیل کے ساتھ بھی ملایا جاتا ہے۔

سی آر ای اے کا کہنا ہے کہ اس نے ترکی میں تین اور انڈیا میں تین ایسی ریفائنریز کی نشاندہی کی، جو روسی خام تیل کو پروسیسنگ کے بعد پابندیاں عائد کرنے والے ان ممالک کو فروخت کر رہی ہیں۔

سی آر ای اے کے مطابق ان ریفائنریز نے اس مقصد کے لیے 6.1 ارب یورو کا روسی خام تیل استعمال کیا۔

انڈیا کی وزارت برائے پیٹرولیم نے سی آر ای اے کی رپورٹ پر تنقید کرتے ہوئے اسے ’انڈیا کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش قرار دیا۔‘

سی آر ای اے سے وابستہ ویباھو راگھونندن کہتے ہیں کہ ’یہ ملک جانتے ہیں کہ روس پر پابندیاں عائد کرنے والے ملک اسے قبول کر لیں گے اور یہ مکمل طور پر قانون کے مطابق ہے۔ ہر کسی کو اس بارے میں علم ہے لیکن کوئی بھی اس مسئلے کا حل نکالنے کے لیے کچھ نہیں کر رہا۔‘

ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مغربی ممالک کے پاس روس کے خزانے میں تیل اور گیس کی آمدن کے بہاؤ کو روکنے کے ذرائع موجود ہیں۔

روس کے سابق نائب وزیر برائے توانائی ولادیمیر میلوف کے مطابق (جو اب روسی صدر ولادیمیر پوتن کے سخت مخالف ہیں) روسی ہائیڈرو کاربن کی تجارت پر عائد پابندیوں کو بہتر طور پر نافذ کیا جانا چاہیے۔

Reutersایک اور راستہ روس کے ایندھن کے ٹینکروں کے ’خفیہ‘ بیڑوں پر مسلسل دباؤ ہو سکتا ہے، جنھیں روس غیر قانونی طور پر تیل کی نقل و حمل کے لیے استعمال کرتا ہے۔

اگرچہ وہ خوفزدہ ہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے امریکی حکومت میں کی جانے والی تبدیلیاں امریکی محکمہ خزانہ یا آفس آف فارن ایسٹس کنٹرول (OFAC) کو متاثر کریں گی، جو دراصل ان پابندیوں کے نفاذ کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔

ایک اور راستہ روس کے ایندھن کے ٹینکروں کے ’خفیہ‘ بیڑوں پر مسلسل دباؤ ہو سکتا ہے، جنھیں روس غیر قانونی طور پر تیل کی نقل و حمل کے لیے استعمال کرتا ہے۔

ولادیمیر میلوف کہتے ہیں کہ ’یہ ایک انتہائی پیچیدہ کام ہے۔ آپ کو ہر چند ہفتے بعد نئے منظور شدہ جہازوں، شیل کمپنیوں، تاجروں اور انشورنس کمپنیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔‘

میلوف کہتے ہیں کہ یہ ایک چیز ہے، جس میں مغربی ممالک (خاص طور پر جنوری 2025 میں امریکی صدر جو بائیڈن کی سبکدوش ہونے والی انتظامیہ کی جانب سے نئی پابندیاں عائد ہونے کے بعد) کی حکومتیں بہت زیادہ موثر رہی ہیں۔

مائی کہتی ہیں کہ ’یورپ کو روسی ایل این جی کی برآمدات پر پابندی لگانا اور مغربی دائرہ اختیار میں ’ریفائننگ کمزوریوں‘ کو دور کرنا روسی ہائیڈرو کاربن سے مغرب کو علیحدہ کرنے میں اہم اقدامات ہوں گے۔‘

سی آر ای اے کے راگھونندن کے مطابق یورپی یونین کے لیے روسی ایل این جی کی درآمدات ترک کرنا نسبتاً آسان ہو گا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’روس کی ایل این جی برآمدات کا 50 فیصد یورپی یونین کو جاتا ہے اور 2024 میں یورپی یونین کی کل (ایل این جی) گیس کی کھپت کا صرف 5 فیصد روس سے تھا۔ تو اس لیے اگر یورپی یونین روسی گیس کو مکمل طور پر بند کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو اس سے یورپی یونین کے صارفین کی بجائے روس کو زیادہ نقصان پہنچے گا۔‘

جنگ کے خاتمے کے لیے ٹرمپ کا تیل کی قیمتوں میں کمی کا منصوبہ

بی بی سی نے جن ماہرین کا انٹرویو کیا، وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس خیال کو مسترد کرتے ہیں کہ یوکرین جنگ اس وقت ختم ہو جائے گی اگر اوپیک تیل میں قیمتوں کو کم کر دے۔

اوپیک دراصل تیل برآمد کرنے والے 23 ممالک پر مشتمل ایک گروپ ہے جس کے رکن ممالک ہر ماہ ویانا میں ملتے ہیں تاکہ یہ فیصلہ کر سکیں کہ عالمی منڈی میں انھیں کتنا تیل رکھنا چاہیے۔

ولادیمیر میلوف نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ماسکو میں لوگ اس بات پر ہنس رہے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے سب سے زیادہ نقصان امریکہ کی شیل آئل انڈسٹری کو ہو گا، جو دنیا میں سب سے کم لاگت والی تیل کی صنعت ہے۔‘

راگھونندن کا کہنا ہے کہ ’روس کی خام تیل کی پیداوار کی لاگت بھی سعودی عرب جیسے اوپیک ممالک کے مقابلے میں کم ہے، اس لیے روس سے پہلے تیل کی کم قیمتوں سے انھیں نقصان پہنچے گا۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’سعودی عرب اس کے لیے کبھی رضامندی ظاہر نہیں کرے گا۔ یہ طریقہ پہلے بھی آزمایا جا چکا اور اس سے امریکہ اور سعودی عرب میں تنازع پیدا ہوا۔‘

مائی روزنر کہتی ہیں کہ مغرب کی جانب سے یوکرین کی حمایت کے باوجود روس سے ہائیڈرو کاربن خریدنے میں اخلاقی اور عملی دونوں طرح کے مسائل ہیں۔

’اب ہمیں ایک ایسی صورتحال درپیش ہے جس میں ہم ایک ایسی جنگ میں حملہ آور کی مالی مدد کر رہے ہیں جس کی ہم مذمت کرتے ہیں اور اس جنگ میں حملے کے شکار ملک کو بھی امداد دے رہے ہیں۔‘

روس سے سستے داموں خام تیل لے کر اس سے بنائی گئی مصنوعات یورپ کو فروخت کرنے پر یورپی یونین انڈیا سے ناراضمغربی پابندیوں کے باوجود روس سستا تیل کیسے فروخت کر رہا ہے؟تیل کی ترسیل کا ’خفیہ‘ نیٹ ورک: روس اور ایران کی منافع بخش برآمد پر امریکی پابندی کتنی کامیاب ہوئی؟کام کم اور آمدن زیادہ: تیل کی دولت سے مالا مال ملک اپنی ترقی پر خوش بھی، شرمندہ بھیروسی تیل پر عالمی پابندیاں: کیا دنیا روس کے تیل اور گیس کے بغیر گزارا کر پائے گی؟فائبر آپٹک ڈرون: یوکرین جنگ کو تیزی سے بدلنے والا یہ خوفناک نیا ہتھیار کیا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More