Getty Images
صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے کم عمر بچوں کی شادی کی ممانعت کے بل پر دستخط کر دیے ہیں جس کے بعد یہ بل وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اب قانون کی شکل احتیار کر گیا ہے۔
یاد رہے کہ کم عمر بچوں کی شادی کی ممانعت کا بل گذشتہ ہفتے پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور کیا گیا تھا۔ اس بل کو قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی جبکہ سینیٹ میں شیری رحمان نے پیش کیا۔
جمیعت علما اسلام نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے اس بل پر اسلامی قوانین کی روشنی میں رہنمائی حاصل کرنے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کی تجویز دی تھی جو کہ مسترد کر دی گئی۔
اس بِل کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں نہ صرف کم سن لڑکی سے شادی، چائلڈ ابیوز اور سمگلنگ کی سزائیں مقرر کی گئی ہیں بلکہ اس کے تحت والدین، سرپرست اور نکاح خواں کو بھی سزا ہو سکتی ہے۔
اس قانون میں کیا کہا گیا ہے؟
پارلیمان سے منظور ہونے والے اس بل میں کہا گیا ہے کہ 18سال سے کم عمر بچوں کے نکاح کا اندراج قانونی جرم قرار دیا گیا ہے اور نکاح رجسٹرار کم عمر بچوں کی شادی کا اندارج نہ کرنے کے پابند ہوں گے۔
اس قانون کا اطلاق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی حدود میں ہوگا۔
پارلیمان سے منظور ہونے والے اس بل میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ نکاح یا رجسٹریشن سے قبل دونوں فریقین کے شناختی کارڈز کی موجودگی یقینی بنائی جائے گی اور کوائف کے بغیر نکاح پڑھانے والے اور رجسٹریشن پر ایک سال قید، 1 لاکھ جرمانہ یا پھر دونوں سزائیں ہوں گی۔
صدر مملکت کی طرف سے اس بل پر دستخط کر دیے گئے ہیں جس کے مطابق 18سال سے کم عمر لڑکی سے شادی جرم ہو گا جس پر جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا جبکہ 18 سال سے زائد عمر کے مرد کی کمسن لڑکی سےشادی پر سزا مقرر کی گئی ہے جس کے مطابق کمسن لڑکی سے شادی کے مرتکب شخص پر کم سے کم دو سال اور زیادہ سے زیادہ تین سال قید بامشقت ہو گی۔
اس قانون میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ کم عمر بچوں کی شادی کو ’چائلڈ ابیوز‘ سمجھا جائے گا اور اس پر پانچ سے سات سال قید، 10 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوں گی۔ اس کے علاوہ شادی کی غرض سے کسی بچے کو ملازمت پر رکھنے یا پناہ دینے والےکو تین سال قید اور جرمانہ کی سزا ہوگی۔
اس قانون میں 18سال سےکم عمر بچوں کی شادی پر والدین اور سرپرست کےلیے بھی سزائیں مقرر کی گئی ہیں جس کے تحت کمسن بچوں کی شادی پر والدین کو تین سال قید بامشقت اور جرمانے کی سزا ہو گی۔
اس قانون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شادی کے لیے کمسن بچوں کوعلاقہ چھوڑنے پر مجبور یا زبردستی کرنا بچوں کی سمگلنگ قرار دیا گیا ہے اور ایسے جرم کے مرتکب شخص کو پانچ سے سات سال قید اور جرمانے کی سزائیں ہوں گی۔
اس قانون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 18 سال سے کم عمر بچوں کی شادی رکوانے کےلیے عدالت کو حکم امتناع دینےکا اختیار ہو گا۔
عدالت کم عمر بچوں کی شادی سے متعلق مقدمات 90 روز میں نمٹانے کی پابند ہوگی۔
اس قانون میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ عدالت کو اطلاع دینے والا فریق اپنی شناخت چھپانا چاہے تو عدالت اسے تحفظ دے گی۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کم عمر بچوں کی شادی کی اس نئے قانون کا اطلاق فی الوقت صرف اسلام آباد کی حد تک ہی ہے اور اسلام آباد ضلع کی عدالتیں ایسے معاملات کو دیکھیں گی۔
کم عمر بچوں کی شادیوں کو روکنے کے لیے 1929 میں جو ایکٹ بنایا گیا تھا وہ اب اسلام آباد کی حدود تک لاگو نہیں ہوگا تاہم ماضی میں اس ایکٹ کے تحت کیے گئے فیصلوں کو قانونی تحفظ حاصل ہوگا۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے اس قانون کو غیر شرعی کیوں کہا؟
اسلامی نظریاتی کونسل نے پاکستان کی پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے 18 سال سے کم عمر بچوں کی شادی کے بل کو غیر شرعی قرار دیکر اسے مسترد کردیا ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ اس بل میں عمر کی حد مقرر کرنے اور 18 سال سے کم عمری کی شادی کو ’چائلڈ ابیوز‘ قرار دینا اسلامی احکام کے مطابق نہیں۔
كونسل نے اس امر كو بھى واضح كیا كہ اس بل كو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں یعنی قومی اسمبلی یا سینیٹ كى طرف سے كونسل كو ریویو كے لیے نہیں بھیجا گیا تھا۔
خیال رہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کا وہ آئینی ادارہ ہے جو حکومتِ پاکستان کو قانون سازی اور دیگر معاملات پر اسلام کے حوالے سے مشاورت فراہم کرتا ہے۔
ماضی میں کونسل کی جانب سے یہ تجویز بھی دی گئی تھی کہ شادی کے لیے لڑکوں اور لڑکیوں کی عمر کو کم کر دیا جائے تاہم مختلف ادوار میں حکومتیں ان تجاویز کو نظرانداز کرتی رہی ہیں۔
AFPایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دو کروڑ بچیوں کی شادی 18 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی کردی جاتی ہے
دوسری جانب ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے کم عمری کی شادی کے قانون کی مخالفت کرنے پر اسے تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کونسل کے اس عمل کو اس قانون پر عملدرآمد میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔
جمعے کے روز ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ کافی عرصے سے کم عمری کی شادی کو روکنے کے معاملے پر قانون سازی کا مطالبہ کیا جارہا ہے جس کا مقصد کم عمر بچوں اور بالخصوص کم عمر بچیوں کے استحصال کو روکنا تھا۔
ایچ آر سی پی نے اپنے بیان میں حکومت پر زور دیا کہ وہ اپنی آئینی اور بین الاقوامی کمٹمنٹس کو پورا کرتے ہوئے اس قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔
واضح رہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دو کروڑ بچیوں کی شادی 18 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی کر دی جاتی ہے اور اس رپورٹ کے مطابق ان میں ایک کروڑ کے قریب بچیاں 18 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی حاملہ ہو جاتی ہیں۔
یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان میں چائلڈ میرج کے خلاف قانون موجود ہے۔ پنجاب کے قانون کے مطابق شادی کے لیے لڑکا اور لڑکی کی عمریں 16 سال ہونا ضروری ہیں جبکہ سندھ کے قانون کے مطابق یہ عمر 18 سال مقرر ہے۔
’شرعی شادی‘: ’تم نکاح پڑھاؤ ہم زیادہ پیسے دے دیں گے اور ویڈیو بھی نہیں بنے گی‘دعا زہرا: پاکستان میں کم عمری کی شادیاں روکنا اتنا مشکل کیوں؟’کم عمری‘ میں شادی کرنے والے جوڑے کی دھوم’چھینک اور کھانسی سے پیشاب خطا ہو جاتا اور ازدواجی تعلق میں بھی تکلیف ہوتی تھی‘پارلیمان میں ہونے والی کارروائی
پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شرمیلا فاروقی کی جانب سے پیش کیا گیا بل قومی اسمبلی سے 19 مئی کو منظور کیا گیا جس کے بعد سینیٹ سے کم عمری کی شادی کو جرم قرار دینے کا بل منظور کر لیا گیا۔
قومی اسمبلی میں اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے جمعت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اس بل کے منظور ہونے کی صورت میں سڑکوں پر آنے کی دھمکی بھی دی تھی۔
سینیٹ میں یہ بل پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیریں رحمان کی جانب سے پیش کیا گیا تھا اور اس بل کی مرحلہ وار منظوری لی گئی تھی۔
جمیت علما اسلام سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے رائے دی کہ چونکہ یہ مذہبی معاملہ ہے، اس طرح بل کو منظور نہ کیا جائے اور اس بل کو اسلام نظریاتی کونسل کو بھیجا جائے۔
AFP
اس پر سینیٹر شیری رحمان نے جواب دیا کہ یہ کوئی مذہبی معاملہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی نیا بل ہے۔ ان کے مطابق پہلے سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف بھی اس بل کو لا چکی تھی۔
سینیٹرعبدالواسع نے کہا کہ پارلیمنٹ قرآن وسنت کے منافی بل منظور نہیں کر سکتی۔ ’ہم اس بل کی مذمت کریں گے۔‘ جس کے جواب میں پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ’18 سال سے کم عمر کے بچے کہلاتے ہیں، اسلام میں بلوغت کی عمر کا کہاں لکھا ہے۔ 18سال سے کم میں شادی خلاف قانون ہے۔‘
سینیٹر سرمد علی نے کہا کہ سعودی عرب میں بھی ’18سال سے کم عمر کی شادی پر پابندی ہے۔‘
پارلیمان میں ہونے والی قانون سازی اور دونوں ایوانوں میں ہونے والی کارروائی پر نظر رکھنے والے صحافی ایم بی سومرو کا کہنا ہے کہ کم عمری کی شادیوں کے اکثر واقعات سندھ اور پنجاب کے دور دراز علاقوں میں رپورٹ ہوتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ان علاقوں میں بہت سے ایسے واقعات ہیں جو کہیں رپورٹ بھی نہیں ہوتے اور ان میں سے زیادہ تر علاقے ایسے ہیں جہاں پر ابھی بھی وڈیروں کا اثرو رسوخ زیادہ ہے۔
ایم بی سومرو کا کہنا تھا کہ ان صوبوں کے دور افتادہ علاقوں میں ابھی بھی خاندانوں میں یہ روایت قائم ہے کہ بچوں کے پیدا ہوتے ہوئے انھیں ایک دوسرے کے ساتھ منسوب کردیا جاتا ہے اور کوشش یہی کی جاتی ہے کہ ان کی شادیاں ان کے 18 سال تک ہونے سے پہلے ہی کردی جائیں۔
انھوں نے کہا کہ ان علاقوں میں قتل جیسے سنگین جرائم ہونے کی وجہ بھی یہی ہے کہ ’اگر کسی لڑکی کی شادی اس لڑکے سے نہ ہو جس کے ساتھ اس کی بچپن میں ہی منگنی کر دی گئی تھی تو لوگ اسے غیرت کا معاملہ قرار دیتے ہوئے مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔‘
کیا اس قانون پر عملدرآمد مشکل ہو گا؟
ماہر قانون شرافت علی چوہدری ایڈوکیٹ ماضی میں کم عمری کی شادیوں کے خلاف قانونی سازی کی کوششوں میں شامل رہے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ گو کہ شادی کے لیے 18 سال کی عمر ایک دیرینہ مطالبہ رہا ہے مگر ان کی رائے ہے کہ اس قانون میں بعض تکنیکی خرابیاں ہیں جن پر بات کیا جانا ضروری تھا اور اب اس پر عمل درآمد سے قانونی اور سماجی مسائل سامنے آ سکتے ہیں۔
شرافت علی پوچھتے ہیں کہ ’اس قانون میں کچھ مشکل سوالوں کے جواب موجود نہیں۔ مثلاً اس شادی کا کیا بنے گا، (یعنی) اگر خاوند کو سزا ہو گئی مگر شادی برقرار رہی تو کیا دو سال بعد بندہ جیل سے واپس آ کر پھر بھی خاوند ہوگا؟ اس دوران بچہ ہو گیا تو اس کا کیا ہو گا؟‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ مختلف قوانین میں پہلے سے بھی ’چائلڈ ابیوز‘ اور ’سمگلنگ‘ سے متعلق سزائیں متعین ہیں تو اگر ’پہلے سے موجود قانون میں تصادم آئے گا تو نئے قانونی مسائل آئیں گے۔‘
قانونی ماہر کی رائے ہے کہ ’نابالغ کی شادی میں سب سے بڑا قصوروار اس میں رجسٹرار ہوتا ہے کہ وہ نکاح پڑھا کیوں رہا ہے۔ تاہم اس کی سزا کم (ایک سال) ہے اور دیگر ملوث پائے جانے والوں کی سزا زیادہ ہے۔‘
یاد رہے کہ بل کے مسودے میں نکاح رجسٹرار اور والدین کے لیے جہاں نابالغ کی شادی میں کردار ادا کرنے پر سزائیں اور جرمانے ہیں وہیں بعض صورتوں میں سزا سے چھوٹ بھی دی گئی ہے۔
مسودے کے مطابق اگر رجسٹرار یہ ثابت کرنے میں اور ایسی ٹھوس وجہ سامنے لانے میں کامیاب رہتا ہے جس کے مطابق وہ شادی نابالغ کی نہیں تھی تو وہ سزا کا مرتکب نہیں ہو گا۔
دوسری جانب بچوں کی شادی کی روک تھام کے بل میں جہاں والدین یا سرپرست کے لیے کم عمری کی شادی کو فروغ، انعقاد روکنے میں ناکام ہونے پر دو سے تین سال قید با مشقت اور جرمانے کی سزا موجود ہے وہیں قانونی مسودے کے مطابق اگر وہ اس کے برخلاف ثابت کرنے میں کامیاب رہیں تو پھر وہ سزا کے حقدار نہیں۔
شرافت علی اس جانب بھی اشارہ کرتے ہیں کہ دیگر صوبوں، جیسے پنجاب میں، شادی کی عمر 16 برس مقرر ہے لہذا ’ہونا یہ چاہیے تھا کہ یہ ماڈل باقی صوبوں کے لیے (بھی) بنتا۔‘
’اگر اس کو بحث کے لیے اوپن کرتے تو اس میں کافی سوالوں کے جواب مل جاتے۔‘
’شرعی شادی‘: ’تم نکاح پڑھاؤ ہم زیادہ پیسے دے دیں گے اور ویڈیو بھی نہیں بنے گی‘دعا زہرا: پاکستان میں کم عمری کی شادیاں روکنا اتنا مشکل کیوں؟’کم عمری‘ میں شادی کرنے والے جوڑے کی دھوم’چھینک اور کھانسی سے پیشاب خطا ہو جاتا اور ازدواجی تعلق میں بھی تکلیف ہوتی تھی‘’لڑکی کی شادی کی عمر کم از کم 18 سال کرنے کی تجویز‘انگلینڈ میں شادی کے لیے کم سے کم عمر 18 سال کر دی گئی: قانون کو نافذ ہوتے دیکھنا ’شاید میری زندگی کے اہم ترین دنوں میں سے ایک ہے‘