یوکرین نے روس کے متعدد فضائی اڈوں پر 40 سے زائد روسی بمبار طیاروں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔ جنگ کے آغاز کے بعد سے اب تک کے دورانیے میں حالیہ حملے سب سے خطرناک اور شدید قرار دیے جا رہے ہیں۔
یوکرین کی خفیہ ایجنسی ایس بی یو کے ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اس کارروائی کو سپائڈر ویب (مکڑی کا جالہ) کا نام دیا گیا تھا اور اس کی نگرانی خود صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کی ہے۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہ حملے ڈیڑھ سال کی منصوبہ بندی کے بعد کیے گئے ہیں۔
اس حملے کی ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ڈرون حملوں کے بعد آگ کے شعلوں نے جنگی طیاروں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔
ان ڈرونز کو لکڑی کے موبائل کیبنز میں چھپایا گیا تھا جن کی چھتیں آٹومیٹک ہوتی ہیں اور انھیں فاصلے سے کھولا جا سکتا ہے۔ یہ کیبنز ٹرکوں پر رکھے گئے تھے جو فضائی اڈوں کے قریب پہنچا دیے گئے اور پھر مناسب وقت پر حملہ کیا گیا۔
روسی فوج نے بعد میں اتوار کو یوکرین کے حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے انھیں ’دہشت گردانہ کارروائی‘ قرار دیا۔
روس کی جانب سے تاحال یہ تو نہیں بتایا گیا کہ اسے کتنا نقصان ہوا لیکن روسی وزارت دفاع نے ایک بیان میں یہ کہا ہے کہ ’مورمانسک اور ارکتسک کے علاقوں میں ’کئی طیارے‘ جل گئے تاہم تمام آگ بجھا دی گئی اور کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔‘
دوسری جانب یوکرینی حکام نے بھی اپنی سرزمین پر بڑے پیمانے پر رات کے وقت ڈرون اور میزائل حملوں کی تصدیق کی ہے۔
یہ حملے ایک ایسے وقت پر کیے گئے ہیں جب روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی کی کوششیں جاری تھیں اور دونوں ممالک کے نمائندے ایک بار پھر ترکی کے شہر استنبول میں مذاکرات کے دوسرے دور میں ملنے جا رہے ہیں۔
تاہم جنگ بندی کی امیدیں کم ہی دکھائی دے رہی ہیں کیونکہ دونوں فریق جنگ کے خاتمے کے طریقہ کار پر سخت اختلافات رکھتے ہیں۔
یاد رہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے فروری 2022 میں یوکرین پر مکمل حملے کا آغاز کیا تھا۔
اس وقت روس تقریباً 20 فیصد یوکرینی سرزمین پر قابض ہے، جس میں 2014 میں ضم کیا گیا جنوبی کریمیہ کا علاقہ بھی شامل ہے۔
BBC’کوئی جانی نقصان نہیں ہوا‘
یوکرین کی خفیہ ایجنسی ایس بی یو کے ذرائع نے بتایا کہ چار روسی فضائی اڈوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جن میں سے دو یوکرین سے ہزاروں میل دور واقع ہیں۔
بیلایا ارکتسک کا علاقہ سائبیریا میں واقع ہے جبکہ اولینیا روس کے انتہائی شمال مغرب میں مورمانسک کے علاقےمیں واقع ہے۔
ڈیگیلیوو ریازان اور ایوانوو کے وسطی علاقے میں یہ اڈے موجود ہیں۔ روس نے بعد میں تصدیق کی کہ پانچ علاقوں میں متعدد مقامات پر حملے ہوئے۔
ایس بی یو کے ذرائع نے دعویٰ کیا کہ ان حملوں میں جن روسی طیاروں کو نشانہ بنایا گیا ان میں Tu-95 اور Tu-22M3 جیسے سٹریٹیجک نیوکلیئر بمبار طیارے، اور A-50 ابتدائی وارننگ والے جنگی طیارے شامل تھے۔
ذرائع کے مطابق یہ پوری کارروائی نقل و حمل کے لحاظ سے ’انتہائی پیچیدہ‘ تھی۔
انھوں نے بتایا کہ ’ایس بی یو نے سب سے پہلے ایف پی وی ڈرونز روس میں سمگل کیے اور پھر لکڑی کے موبائل کیبنز منتقل کیے گئے۔‘
’روسی سرزمین پر پہنچنے کے بعد یہ ڈرونز ان کیبنز کی چھتوں کے نیچے چھپائے گئے، جو سامان لے جانے والے ٹرکوں پر رکھے گئے تھے۔‘
ذرائع کے مطابق ’مناسب وقت پر چھتیں دور سے کھولی گئیں اور ڈرونز پرواز کر کے روسی بمبار طیاروں کو نشانہ بنانے نکل گئے۔‘
ارکتسک کے گورنر ایگور کوبزیف نے تصدیق کی کہ بیلایا فوجی اڈے پر ہونے والا ڈرون حملہ ایک ٹرک سے کیا گیا تھا۔
انھوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹیلی گرام پر بتایا کہ لانچنگ سائٹ محفوظ کر لی گئی ہے اور کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
روسی میڈیا نے بھی رپورٹ کیا کہ دیگر حملے اسی انداز میں کیے گئے جہاں ڈرونز نے ٹرکوں سے حملہ کیا۔
ایک سوشل میڈیا صارف نے بتایا کہ ڈرونز کاماز ٹرک سے ایک پیٹرول پمپ کے قریب سے نکلے۔
ایس بی یو کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ابتدائی تخمینوں کے مطابق روسی فضائیہ کو پہنچنے والا نقصان دو ارب ڈالرز سے تجاوز کر چکا ہے۔
روسی میڈیا نے مورمانسک میں بھی حملے کی اطلاع دی ہے تاہم ساتھ ہی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ فضائی دفاعی نظام فعال ہے۔
یوکرین اپنا دفاع کر رہا ہے: زیلنسکی
یوکرینی صدر ولادیمر زیلنسکی نے حملے کے بارے میں مزید تفصیلات شیئر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حملے میں 117 ڈرون استعمال کیے گئے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ہر ڈرون کا اپنا پائلٹ تھا۔
ٹیلی گرام پر ان کی پوسٹ کے انگریزی ترجمے میں لکھا گیا ہے کہ ’سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے آپریشن مراکز ان کے ایک علاقے میں روس کے ایف ایس بی (روس کی سکیورٹی سروس) کے بالکل قریب واقع تھا۔
ان کا دعویٰ ہے کہ نشانہ بنائے گئے ہوائی اڈوں پر 34 فیصد کروز میزائل بردار جہازوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
ولادیمر زیلنسکی نے مزید لکھا کہ ’منصوبہ بندی کے آغاز سے لے کر مؤثر عملدرآمد تک ایک سال، چھ ماہ اور نو دن، یہ کسی بھی آپریشن کے لیے ہماری سب سے طویل تیاری ہے۔ آپریشن میں شامل ہمارے لوگوں کو بروقت روسی علاقے سے واپس بلا لیا گیا ہے۔‘
زیلنسکی کا کہنا ہے کہ انھوں نے یوکرین کی سکیورٹی سروس (ایس بی یو) کے سربراہ جنرل ویسل مالیوک سے ملاقات کی اور ان سے آپریشن کی تفصیلات اور نتائج عوام کے سامنے لانے کے لیے کہا۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’یوکرین اپنا دفاع کر رہا ہے اور یہ درست ہے کہ ہم روس کو اس جنگ کو ختم کرنے کی ضرورت محسوس کروانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ روس نے یہ جنگ شروع کی ہے، روس کو ہی اسے ختم کرنا ہو گا۔‘
ادھر بی بی سی روسی کے مطابق روس کے ٹیلی گرام چینلز پر ایسی فوٹیجز بھی موجود ہیں جس میں ڈرونز اور گولیاں چلتی دکھائی دے رہی ہیں اور یہ علاقہ مبینہ طور پر بیلیا اور اولینیا اڈوں کے قریب کا ہے۔
یاد رہے کہ بیلایا ایئربیس سائبیریا میں واقع ہے جو یوکرین کی سرحد سے تقریباً 4.5 ہزار کلومیٹر دور ہے جبکہ اولینیا ہوائی اڈہ یوکرین سے تقریباً 1.7 ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر مرمانسک کے علاقے میں واقع ہے۔
بی بی سی روسی کے مطابق روسی حکام نے تصدیق کی ہے کہ ڈرونز نے ان علاقوں پر حملہ کیا ہے جہاں کم از کم دو اڈے موجود ہیں تاہم حکام نے طیاروں کو پہنچنے والے نقصان پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
پلاسٹک کی وہ ’کینڈی‘ جس کے بغیر کوئی یوکرینی فوجی محاذ پر جانے کے لیے تیار نہیں’حملے کے تین گھنٹے بعد بھی دھماکے‘: روس کا وہ پراسرار ’اوریشنِک‘ میزائل جو معمہ بن گیافائبر آپٹک ڈرون: یوکرین جنگ کو تیزی سے بدلنے والا یہ خوفناک نیا ہتھیار کیا ہے؟ایرانی ’فتح‘ میزائل اور ’شاہد‘ ڈرونز سمیت وہ غیر ملکی ہتھیار جن کی بدولت روس کی عسکری صلاحیت بڑھ گئی
دوسری جانب روسی وزارت دفاع نے اتوار کو رات گئے سوشل میڈیا پر تصدیق کی کہ ملک کے پانچ علاقوں کے فوجی ہوائی اڈے نشانہ بنے۔
وزارت نے دعویٰ کیا کہ ایوانوو، ریازان اور امور کے علاقوں میں تمام حملے ناکام بنا دیے گئے۔ یاد رہے کہ ایس بی یو نے امور کے علاقے کا ذکر نہیں کیا تھا۔
روسی وزارت دفاع نے مزید بتایا کہ مورمانسک اور ارکتسک کے علاقوں میں ’کئی طیارے‘ جل گئے تاہم تمام آگ بجھا دی گئی اور کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’دہشت گرد حملوں میں ملوث کچھ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ آگ بجھا دی گئی ہے۔ فوجی اہلکاروں یا عام شہریوں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔‘
دوسری جانب یوکرینی حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ رات 472 ڈرونز اور سات بیلسٹک و کروز میزائلوں نے یوکرین پر حملہ کیا۔
یہ روس کی جانب سے اب تک کا سب سے بڑا ڈرون حملہ معلوم ہوتا ہے۔ یوکرین نے کہا کہ 385 فضائی اہداف کو ناکارہ بنایا گیا۔
ایک اور پیش رفت میں یوکرینی زمینی افواج نے کہا کہ ایک تربیتی مرکز پر روسی میزائل حملے میں اس کے 12 فوجی ہلاک اور 60 سے زائد زخمی ہو گئے۔
یوکرین کے زمینی افواج کے سربراہ میجر جنرل میخائیلو دراپاتی نے اس واقعے کے بعد استعفیٰ دے دیا ہے۔
مستعفی ہونے کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ انھوں نے ’ذاتی احساسِ ذمہ داری‘ کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔
سنگاپور کے ہوٹل کا کمرہ اور جرمن فوجی افسر کی معمولی غلطی: جاسوسوں نے حساس گفتگو کیسے ریکارڈ کی؟یوکرین جنگ کے دوران چین نے روس کو عالمی پابندیوں سے کیسے بچایا؟ایرانی ’فتح‘ میزائل اور ’شاہد‘ ڈرونز سمیت وہ غیر ملکی ہتھیار جن کی بدولت روس کی عسکری صلاحیت بڑھ گئی’حملے کے تین گھنٹے بعد بھی دھماکے‘: روس کا وہ پراسرار ’اوریشنِک‘ میزائل جو معمہ بن گیایوکرین کے خلاف نیا ہتھیار: دشمن کے ڈرون کو جال میں پھنسانے والا روسی ڈرونایرانی ’فتح‘ میزائل اور ’شاہد‘ ڈرونز سمیت وہ غیر ملکی ہتھیار جن کی بدولت روس کی عسکری صلاحیت بڑھ گئی