مکہ میں تقریباً ایک ارب مالیت کے ہندوستانی مہمان خانے کی مسماری اور معاوضے پر دہائیوں پرانا تنازع

بی بی سی اردو  |  Jun 08, 2025

جیسے جیسے مسلمانوں کا مذہبی فریضہ حج اپنے اختتام کے قریب پہنچ رہا ہے، سعودی عرب کے شہر مکہ کا ایک طویل عرصے سے آباد گوشہ وہاں سے ہزاروں میل دور انڈیا میں ایک ہنگامہ برپا کر رہا ہے۔ لیکن اس کی وجہ روحانی نہیں بلکہ اس کا مرکز ایک 50 سال پرانا وراثتی تنازع ہے۔

اس تنازع کی جڑ کیئی روباتھ کا گیسٹ ہاؤس ہے۔ انیسویں صدی کے اس مہمان خانے کو 1870 کی دہائی میں مالابار (کیرالا) سے تعلق رکھنے والے ایک دولت مند ہندوستانی تاجر ماینکٹی کیئی نے تعمیر کروایا تھا جن کی تجارتی سلطنت ممبئی سے پیرس تک پھیلی ہوئی تھی۔

گیسٹ ہاؤس کی یہ عمارت اسلام کے مقدس مقام مسجد الحرام کے قریب واقع تھی تاہم 1971 میں مکہ کی توسیع کے منصوبے کے تحت اسے منہدم کر دیا گیا۔

سعودی حکام نے اس پراپرٹی کے عوض 14 لاکھ ریال (اس دور کے تقریباً 3 لاکھ 73 ہزار امریکی ڈالر) سعودی خزانے میں جمع کرا دیے مگر اس وقت کسی وارث کو رقم ادا نہ کی گئی اور کہا گیا کہ اس عمارت کا کوئی حقیقی وارث شناخت نہیں ہو سکا۔

کئی دہائیاں گزر جانے کے بعد سعودی خزانے میں موجود یہی رقم اب کیئی خاندان کے اپنے ہی اندر ایک تلخ تنازع کی وجہ بن چکی ہے، جہاں ہر فریق اپنا نسب ثابت کرنے اور اس وراثت پر حق جتانے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے۔

اس کوشش میں اب تک کوئی بھی فریق کامیاب نہیں ہو سکا۔ کئی دہائیوں سے انڈیا کی حکومت اس تنازعے کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔

اس خاندان کے کچھ لوگ اس رقم کو افراطِ زر کے مطابق جاری کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس کی موجودہ قیمت ایک ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر سکتی ہے۔ تاہم یہ ابھی واضح نہیں کہ سعودی حکام اس رقم کو ان کی شرط کے مطابق جاری کرنے کے لیے تیار بھی ہو گی یا نہیں۔

Getty Imagesمسجد الحرام میں نمازیوں کے ساتھ شہر مکہ کا ایک منظر

اس مقدمے کی پیروی کرنے والے افراد کہتے ہیں کہ یہ جائیداد ایک وقف (اسلامی فلاحی اوقاف) تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کے وارث اس کی نگرانی تو کر سکتے ہیں مگر اس کے مالک نہیں بن سکتے۔

بی بی سی نے اس حوالے سے سعودی محکمہ اوقاف سے موقف جاننا چاہا تاہم انھوں نے اس درخواست پر تاحال کوئی جواب نہیں دیا جبکہ سعودی حکومت نے بھی عوامی سطح پر اس معاملے پر کوئی بیان جاری نہیں کیا۔

اس سب کے باوجود رقم اور اس کی قانونی ملکیت کے حوالے سے قیاس آرائیاں جاری ہیں۔

دوسری جانب اس گیسٹ ہاؤس کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں تاہم اس کے دعوے دار کہتے ہیں کہ یہ مسجد الحرام سے چند قدم کے فاصلے پر واقع تھا اور ڈیڑھ ایکڑ پر پھیلے اس مہمان خانے میں 22 کمرے اور کئی بڑے ہال تھے۔

کیئی کے خاندان والوں کا دعوی ہے کہ کیئی نے اس کی تعمیر کے لیے مالابار سے لکڑی منگوائی اور اپنے ہی علاقے سے ایک مینیجر کو اس کی دیکھ بھال کے لیے مقرر کیا جو ایک بڑا قدم تھا۔ تاہم اس دور میں یہ غیر معمولی بات نہیں تھی۔

اس وقت سعودی عرب ایک نسبتاً غریب ملک تھا اور اس کے تیل کے وسیع ذخائر کی دریافت میں ابھی کئی دہائیاں باقی تھیں۔

حج اور اسلام میں مکہ کی اہمیت کی وجہ سے ہندوستان کے مسلمان اکثر وہاں کے زائرین کے لیے عطیات دیتے یا بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کرتے تھے۔

Getty Imagesمسجد الحرام کی 19ویں صدی کی تصویر، جو مکہ کے قدیم ترین فوٹوگرافر عبد الغفار نے لی ہے

مورخ ضیا الدین سردار 2014 میں اپنی کتاب 'مکہ: دی سیکرڈ سٹی' میں لکھتے ہیں کہ 18ویں صدی کے دوسرے نصف کے دوران شہر پر ہندوستانی روایات کی نمایاں چھاپ تھی اور اس کی معیشت اور مالی فلاح و بہبود ہندوستانی مسلمانوں پر منحصر تھی۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’شہر کی تقریباً 20 فیصد آبادی ہندوستانی نژاد افراد پر مشتمل تھی جن میں گجرات، پنجاب، کشمیر اور دکن کے لوگ شامل تھے۔ اس بڑی اکثریت کو مقامی طور پر ہندی کہا جاتا تھا۔‘

جب 20ویں صدی میں سعودی عرب کی تیل سے حاصل ہونے والی دولت میں اضافہ ہوا تو بڑے ترقیاتی منصوبوں کے تحت مکہ کا منظرنامہ تبدیل ہو گیا۔ کیئی رباط کو تین بار منہدم کیا گیا اور آخری بار 1970 کی دہائی کے اوائل میں اسے مسمار کیا گیا۔

اسی وقت سے معاوضے کے معاملے میں الجھن پیدا ہونا شروع ہوئی۔ انڈیا کی سینٹرل وقف کونسل کے سابق سیکریٹری بی ایم جمال کے مطابق اس وقت جدہ میں انڈین قونصل خانے نے حکومت کو خط لکھ کر کیئی کے قانونی وارث کی معلومات طلب کی تھیں۔

بی ایم جمال کا کہنا ہے کہ’میری سمجھ کے مطابق حکام کسی وارث کو جائیداد کا نگران مقرر کرنے کے لیے تلاش کر رہے تھے، نہ کہ معاوضے کی رقم تقسیم کے لیے۔‘

حضرت ابراہیم کی ’بڑی آزمائش‘: قربانی کا تصور اسلام، یہودیت اور مسیحیت میںطوفان، کشتی اور کوہ جودی: حضرت نوح کا قصہ جو اسلام سمیت تین مذاہب میں بیان کیا گیاہُدہُد کی خبر سے شیش محل تک: سورج پرست ملکہ سبا کے حضرت سلیمان کے ہاتھ ایمان لانے کا واقعہ اسلام اور دیگر مذاہب میںوہ مسیحی فرقہ جس میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت تو ہے لیکن کافی اور شراب ممنوع ہیں

تاہم اس جائیداد پر دو گروہوں نے سامنے آ کر ملکیت دعویٰ کیا۔ ان میں ماینکٹی کیئی کے والد کی طرف کے رشتہ دار جبکہ ان کے سسرالی رشتہ دار اراکل خاندان شامل ہیں۔

اراکل خاندان کیرالا کا شاہی خاندان ہے جہاں ماینکٹی کیئی نے شادی کی تھی۔

دونوں خاندان روایتاً وراثتی نظام کی پیروی کرتے ہیں جو سعودی قانون کے تحت تسلیم شدہ نہیں، جس سے معاملہ مزید پیچیدہ ہو گیا۔

کیئی خاندان کا دعویٰ ہے کہ ماینکٹی کیئی بے اولاد فوت ہوئے اس لیے ان کی بہن کے بچے، روایتی نظام کے تحت ان کے قانونی وارث بنتے ہیں۔

جبکہ اراکل خاندان کا دعویٰ ہے کہ ان کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھی اس لیے انڈین قانون کے مطابق ان کی اولاد ہی قانونی وارث ٹھہرتی ہے۔

جب تنازع طول پکڑتا گیا تو اس میں کئی کہانیاں جڑتی چلی گئیں۔

2011 میں جب یہ افواہیں پھیلیں کہ معاوضے کی رقم لاکھوں میں ہو سکتی ہے تو ضلع کنّور میں 2,500 سے زائد افراد امڈ آئے جنھوں نے خود کو کیئی کا وارث قرار دیا۔

کیئی خاندان کے ایک بزرگ فرد نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط کے ساتھ بی بی سی کو بتایا کہ ’کچھ لوگوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے آبا و اجداد نے ماینکٹی کیئی کو بچپن میں پڑھایا تھا۔ کچھ نے کہا کہ ان کے آبا و اجداد نے مہمان خانے کے لیے لکڑی فراہم کی تھی۔‘

اس کے بعد دھوکہ دہی کے واقعات بھی سامنے آئے۔

ریاستی حکام کے مطابق 2017 میں کچھ جعلسازوں نے کیئی کے وارث ہونے کا دعویٰ کر کے مقامی لوگوں سے رقم وصول کی، اس وعدے کے ساتھ کہ انھیں معاوضے میں حصہ دیا جائے گا۔

تاہم آج بھی یہ معاملہ حل نہ ہو سکا۔

کچھ دعوے دار تجویز کرتے ہیں کہ اس تنازع کو ختم کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ سعودی حکومت سے درخواست کی جائے کہ ماینکٹی کیئی کی خواہش کے مطابق وہ معاوضے کی رقم سے حج زائرین کے لیے ایک نیا مہمان خانہ تعمیر کرے۔

تاہم بیشتر افراد اس خیال کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ مہمان خانہ ذاتی ملکیت تھا لہٰذا اس کا معاوضہ بھی خاندان کا حق بنتا ہے۔

کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگرچہ خاندان ماینکٹی کیئی سے اپنا تعلق ثابت کر دے تب بھی اگر ان کے پاس ملکیت کے کاغذات نہ ہوں، تو انھیں کچھ حاصل ہونے کا امکان کم ہے۔

کیئی اور اراکل خاندانوں کی تاریخ پر ایک کتاب میں معاونت کرنے والے ضلع کنّور کے رہائشی محمد شہاد کے نزدیک یہ تنازع صرف پیسے کا نہیں، بلکہ خاندانی ورثے کے احترام کا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اگر انھیں معاوضہ نہ بھی ملے تو بھی یہ قابلِ قدر ہوگا کہ اس نیک عمل سے خاندان اور علاقے کے تعلق کو کھلے عام تسلیم کیا جائے۔‘

حضرت ابراہیم کی ’بڑی آزمائش‘: قربانی کا تصور اسلام، یہودیت اور مسیحیت میںہُدہُد کی خبر سے شیش محل تک: سورج پرست ملکہ سبا کے حضرت سلیمان کے ہاتھ ایمان لانے کا واقعہ اسلام اور دیگر مذاہب میںحضرت ابراہیم کی ’بڑی آزمائش‘: قربانی کا تصور اسلام، یہودیت اور مسیحیت میںوہ مسیحی فرقہ جس میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت تو ہے لیکن کافی اور شراب ممنوع ہیںاصحابِ کہف: سینکڑوں برسوں تک سونے والے نوجوانوں اور اُن کے کتے کا واقعہ مسیحی روایات اور قرآن میں کیسے بیان کیا گیا؟مسلمانوں اور یہودیوں کے لیے اہم مسجد اقصیٰ اتنی متنازع کیوں ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More