غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف چھاپے: ٹرمپ کا لاس اینجلس میں نیشنل گارڈز تعینات کرنے کا اعلان

اردو نیوز  |  Jun 08, 2025

ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کے روز لاس اینجلس کی سڑکوں پر 2,000 نیشنل گارڈز تعینات کرنے کا حکم دیا، جسے وائٹ ہاؤس نے ’بے قاعدگی‘ کو روکنے کی کوشش قرار دیا، یہ اقدام اس وقت اٹھایا گیا جب امیگریشن چھاپوں کے خلاف مظاہرے پُرتشدد ہو گئے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی صدر نے کیلیفورنیا کی ریاستی فوج کا وفاقی کنٹرول سنبھالتے ہوئے انہیں ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر میں تعینات کیا، جہاں ان کا سامنا مظاہرین سے ہو سکتا ہے۔

 یہ ایک غیرمعمولی قدم تھا جسے گورنر گیون نیوسم نے ’جان بوجھ کر اشتعال انگیزی‘ قرار دیا۔

یہ پیش رفت دو روزہ جھڑپوں کے بعد سامنے آئی، جن میں وفاقی ایجنٹوں نے مشتعل ہجوم پر فلیش بینگ گرینیڈ اور آنسو گیس فائر کی، یہ سب کچھ ایسے شہر میں ہوا جس کی بڑی آبادی لاطینی نژاد ہے اور جہاں درجنوں تارکینِ وطن کو گرفتار کیا گیا۔

ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک کار کو ایک مصروف چوراہے پر آگ لگا دی گئی، جبکہ سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں ایک شخص موٹر بائیک ہیلمٹ پہنے تیز رفتار وفاقی گاڑیوں پر پتھر پھینکتا دکھائی دے رہا ہے۔

مظاہرین کو ایجنٹس پر آوازیں کستے اور موبائل سے ویڈیوز بناتے ہوئے دیکھا گیا۔

کچھ مناظر میں مظاہرین نے مقامی قانون نافذ کرنے والے افسران پر آتش گیر مواد پھینکا، جنہیں امن قائم رکھنے کے لیے بلایا گیا تھا۔

وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیوٹ نے ہفتے کی رات کہا، ’صدر ٹرمپ نے ایک صدارتی یادداشت پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت 2,000 نیشنل گارڈز تعینات کیے جا رہے ہیں تاکہ اُس قانون شکنی کو روکا جا سکے جسے برداشت کیا جا رہا ہے۔‘

انہوں نے کیلیفورنیا کے ڈیموکریٹ رہنماؤں کو ’بے اثر‘ قرار دیا۔

انہوں نے مزید کہا، ’ٹرمپ انتظامیہ مجرمانہ رویے اور تشدد کے لیے زیرو ٹالرنس کی پالیسی رکھتی ہے، خاص طور پر جب یہ تشدد قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے خلاف ہو جو اپنا کام انجام دے رہے ہیں۔‘

نیشنل گارڈ، جو ایک ریزرو فوج ہے، کو عام طور پر قدرتی آفات جیسے کہ لاس اینجلس میں آتشزدگی کے بعد استعمال کیا جاتا ہے، شہری بدامنی کی صورتحال میں یہ کم ہی تعینات کیا جاتا ہے۔ اسے آخری بار 2020 میں جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد لاس اینجلس میں تعینات کیا گیا تھا۔

گورنر نیوسم، جو طویل عرصے سے ٹرمپ کے ناقد رہے ہیں، نے سوشل میڈیا پر وائٹ ہاؤس کے حکم کی مذمت کی۔

انہوں نے ایکس پر لکھا، ’یہ قدم جان بوجھ کر اشتعال انگیزی ہے اور اس سے صرف کشیدگی میں اضافہ ہو گا۔‘

’لاس اینجلس کے حکام ضرورت پڑنے پر فوری طور پر قانون نافذ کرنے والوں کی مدد حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم شہر اور کاؤنٹی کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں، اور فی الحال کوئی فوری ضرورت نہیں ہے۔‘

’یہ غلط مشن ہے اور عوامی اعتماد کو نقصان پہنچائے گا۔‘

وائٹ ہاؤس کے نائب چیف آف اسٹاف اسٹیفن ملر نے مظاہروں کو ’امریکہ کے قوانین اور خودمختاری کے خلاف بغاوت‘ قرار دیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)ٹرمپ کے وزیر دفاع نے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ قریبی فوجی اڈوں سے باقاعدہ فوج بھی شامل کی جا سکتی ہے۔

انہوں نے سوشل میڈیا پر لکھا، ’اگر تشدد جاری رہا تو کیمپ پینڈلٹن کے متحرک میرینز کو بھی متحرک کر دیا جائے گا — وہ ہائی الرٹ پر ہیں۔‘

جنوری میں صدارت سنبھالنے کے بعد سے، ریپبلکن ٹرمپ نے غیر قانونی تارکینِ وطن کے داخلے اور قیام کے خلاف سخت کارروائی کے اپنے وعدے پر عمل کیا ہے، جنہیں وہ ’درندے‘ اور ’حیوان‘ کہہ چکے ہیں۔

ہفتے کا یہ تصادم لاس اینجلس کے علاقے پیرا ماؤنٹ میں ہوا، جہاں مظاہرین ایک وفاقی سہولت کے باہر جمع ہوئے، جسے مقامی میئر کے مطابق ایجنٹوں نے بطور سٹیجنگ ایریا استعمال کیا۔

جمعہ کو، ماسک پہنے اور مسلح امیگریشن ایجنٹوں نے لاس اینجلس کے مختلف علاقوں میں نمایاں چھاپے مارے، جس کے بعد مشتعل ہجوم اکٹھا ہو گیا اور گھنٹوں طویل محاصرے ہوئے۔

لاس اینجلس کی میئر کیرن باس نے تسلیم کیا کہ کچھ شہری وفاقی امیگریشن کارروائیوں کے بعد ’خوف‘ محسوس کر رہے ہیں۔

انہوں نے ایکس پر کہا، ’ہر شخص کو پرامن احتجاج کا حق حاصل ہے، لیکن واضح کر دوں: تشدد اور تباہی ناقابل قبول ہیں، اور جو ذمہ دار ہوں گے اُن کا احتساب ہو گا۔‘

سڑکیں بند، نعرے بازیایف بی آئی کے نائب ڈائریکٹر ڈین بونجینو نے بتایا کہ جمعے کے تصادم کے بعد کئی افراد کو گرفتار کیا گیا۔

امریکی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق پیرا ماؤنٹ کی آبادی تقریباً 50,000 ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)انہوں نے ایکس پر کہا، ’اگر آپ افراتفری لائیں گے تو ہم ہتھکڑیاں لائیں گے۔ قانون اور نظم و ضبط غالب آئیں گے۔‘

لاس اینجلس ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ ہفتے کو جب مظاہرین امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) کے ایجنٹوں کو نکالنے کے نعرے لگا رہے تھے، کچھ افراد میکسیکو کے جھنڈے لہرا رہے تھے جبکہ دوسروں نے امریکی پرچم کو نذر آتش کر دیا۔

سیمنٹ کے بلاک اور الٹے ہوئے شاپنگ کارٹس کو سڑک بند کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔

وائٹ ہاؤس نے ان مظاہروں پر سخت موقف اختیار کیا ہے، نائب چیف آف اسٹاف اسٹیفن ملر نے انہیں ’امریکہ کے قوانین اور خودمختاری کے خلاف بغاوت‘ قرار دیا۔

امریکہ کا دوسرا سب سے بڑا شہر لاس اینجلس ملک کے متنوع ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔

امریکی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق پیرا ماؤنٹ کی آبادی تقریباً 50,000 ہے، جن میں سے 82 فیصد ہسپانوی یا لاطینی نژاد ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More