وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن سے رابطوں کا خیرمقدم کریں گے۔خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق دونوں رہنماؤں کی صدر ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں اور یہ دوستانہ نوعیت کی رہی تھیں۔وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیوٹ نے بدھ کو رپورٹرز کو بتایا کہ ’صدر ٹرمپ شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ اُن کی جانب سے رابطے پر خیرمقدم کریں گے۔‘وہ ایک رپورٹ پر ردعمل ظاہر کر رہی تھیں جس میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ میں شمالی کوریا کے وفد نے صدر ٹرمپ کی جانب سے کم جونگ اُن کے نام خط کو وصول کرنے سے متعدد بار انکار کیا۔یہ رپورٹ جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول میں قائم ایک ویب سائٹ این کے نیوز نے شائع کی تھی۔ یہ ویب سائٹ شمالی کوریا سے متعلق امور کو رپورٹ کرتی ہے۔صدر ٹرمپ اور کم جونگ اُن نے ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت 2017تا2021 کے دوران تین ملاقاتیں کیں اور متعدد خطوط کا بھی تبادلہ کیا۔اُس وقت صدر ٹرمپ نے خطوط کو ’خوبصورت‘ قرار دیا تھا۔ جون 2019 میں صدر ٹرمپ نے ایک مختصر سے دورے میں جنوبی کوریا کے ساتھ سرحد پر قائم غیر فوجی زون سے شمالی کوریا میں قدم رکھا تھا۔تاہم شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کو روکنے میں بہت کم پیش رفت ہوئی اور ٹرمپ نے مارچ میں تسلیم کیا کہ پیانگ یانگ ایک ’ایٹمی طاقت‘ ہے۔صدر ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت ختم ہونے کے بعد سے شمالی کوریا نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں واپس آنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔کم جونگ اُن کے شمالی کوریا کے ساتھ میل جول بڑھانے کی کوششیں پڑوسی ملک جنوبی کوریا میں نئے صدر لی جائی میونگ کے انتخاب کے بعد سامنے آئی ہیں جنہوں نے پیانگ یانگ کے ساتھ بات چیت دوبارہ شروع کرنے کا عہد کیا ہے۔شمالی کوریا کے رہنما روس کے بہت زیادہ قریب سمجھے جاتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پیصدر لی جائی میونگ نے اس حوالے سے ایک اقدام کے طور پر سرحد کے ساتھ غیرفوجی زون میں جنوبی کوریا کے لاؤڈ سپیکروں سے موسیقی اور پیغامات کو شمالی کوریا میں نشر کرنے سے روک دیا ہے۔تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کو مذاکرات کی طرف لانا ممکنہ طور پر صدر لی اور صدر ٹرمپ دونوں کے لیے امریکی صدر کی پہلی مدت کے مقابلے میں زیادہ مشکل ہو گا۔گزشتہ چار برس میں شمالی کوریا نے اپنے جوہری ہتھیاروں اور بیلسٹک میزائل پروگراموں میں نمایاں طور پر توسیع کی ہے، اور یوکرین میں ماسکو کی جنگ کی براہ راست حمایت کے ذریعے روس کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے ہیں۔ اس جنگ کے لیے پیانگ یانگ نے فوج اور ہتھیار دونوں مہیا کیے ہیں۔سرکاری میڈیا نے جمعرات کو رپورٹ کیا کہ کم جونگ اُن نے روسی صدر ولادیمیر پوتن کے نام ایک پیغام میں کہا کہ ان کا ملک ہمیشہ ماسکو کے ساتھ کھڑا رہے گا۔