خیبر پختونخوا کے جنگلات میں آگ سے میاں بیوی کی موت، ’گھر جل جاتا لیکن امی ابو زندہ ہوتے‘

اردو نیوز  |  Jun 18, 2025

دوپہر کے قریب تین بجے کا وقت تھا جب شانگلہ کی تحصیل مارتونگ کے یونین کونسل نصرت خیل کے جنگل سے دھواں اٹھنے لگا۔ چند لمحوں میں یہ دھواں شعلوں میں تبدیل ہو گیا، اور ان شعلوں نے جنگل کی ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا۔

اسی جنگل کے قریب واقع ہاشم خیل ڈاب گاؤں میں حکیم زادہ کا گھر ہے۔ جب انہوں نے آگ کو پھیلتا دیکھا، تو انہیں اپنے گھر سے کچھ فاصلے پر رکھی لکڑیوں کی فکر ہوئی جو انہوں نے استعمال کے لیے ذخیرہ کی تھیں۔ حکیم زادہ اور ان کی اہلیہ آگ بجھانے اور لکڑیوں کو بچانے کے لیے روانہ ہوئے۔ ان کے بیٹے اسامہ نے بھی ان کے ساتھ جانے کی خواہش ظاہر کی، لیکن دونوں نے اسے روک دیا۔

اسامہ کے مطابق ’امی ابو نے کہا کہ وہ دیکھ کر آتے ہیں، اگر ضرورت پڑی تو تمہیں بلا لیں گے، لیکن وہ مجھے بلا نہ سکے۔‘

شانگلہ کے جنگلات میں مئی کے آغاز سے ہی آگ لگنے کے کئی واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔ مختلف مقامات پر جنگلات آگ کی لپیٹ میں آتے رہے۔ تحصیل مارتونگ کے علاقے ڈاب گاؤں میں لگی آگ تین روز تک جاری رہی، اور اسی دوران حکیم زادہ اور ان کی اہلیہ جان کی بازی ہار گئے۔

53  سالہ حکیم زادہ نے رسمی تعلیم حاصل نہیں کی تھی، اور وہ گزشتہ 10 برس سے اپنے گھر پر کھیتی باڑی کر رہے تھے۔

اسامہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ میرے والد کراچی اور دیگر علاقوں میں محنت مزدوری کرتے رہے، پھر کھیتی باڑی اختیار کر لی۔ میرے چار بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ اس وقت صرف میں گھر پر تھا، باقی بھائی کراچی میں مزدوری کر رہے ہیں۔

جب علاقے میں آگ پھیلنے لگی، تو ان کے والدین لکڑیوں کو بچانے اور آگ بجھانے کے لیے پہاڑ پر چلے گئے۔ اسامہ کے مطابق ’امی ابو نے مجھے گھر پر رہنے کو کہا۔ وہ چار بجے گئے۔ آدھے گھنٹے بعد میں نے آوازیں دینا شروع کر دیں لیکن کوئی جواب نہ آیا۔‘

جب اسامہ خود پہاڑ پر پہنچا، تو منظر انتہائی دردناک تھا۔

’امی ابو زمین پر پڑے تھے، جھلسے ہوئے۔ ان کے ہاتھوں میں جھاڑیاں اور لکڑیاں تھیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ آخری لمحے تک آگ بجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں نے شور مچایا، لیکن وہاں کوئی نہ تھا۔ پھر میں بے ہوش ہو گیا۔‘

ریسکیو 1122، ٹی ایم اے، محکمہ جنگلات اور مقامی لوگ تین دن تک مسلسل آگ بجھانے میں مصروف رہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)تین دن تک جاری رہنے والی اس آگ نے صرف حکیم زادہ اور ان کی اہلیہ کو نہیں نگلا بلکہ کھیتوں، جنگلات اور کئی گھروں کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ لیکن اسامہ کے لیے سب سے بڑا نقصان وہ دو چہرے تھے جو اس کی زندگی کا سہارا تھے۔

’ہم کہتے ہیں کھیت جل گئے، فصلیں برباد ہو گئیں، لیکن اگر والدین بچ جاتے تو گھر جلنے کا دکھ نہ ہوتا۔‘

ریسکیو 1122، ٹی ایم اے، محکمہ جنگلات اور مقامی لوگ تین دن تک مسلسل آگ بجھانے میں مصروف رہے۔ ریسکیو ترجمان کے مطابق کئی مکانات کو جلنے سے بچایا گیا، لیکن مکمل قابو پانے میں دن لگے۔

ظہیر احمد، جو فارسٹ گارڈ کے طور پر اسی علاقے میں ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں، نے بتایا کہ چیڑھ کے درختوں میں آگ تیزی سے لگتی ہے، خاص طور پر مئی میں جب گرمی اور خشکی زیادہ ہو۔

’میں نے خود تین راتیں اسی جنگل میں گزاری ہیں۔ کبھی ہم آگ بجھاتے، کبھی آرام کرتے، لیکن آگ بار بار بھڑک اٹھتی تھی۔‘

ان کے مطابق آگ کم از کم 20 کنال پر پھیلی، لیکن ممکن ہے اصل رقبہ 40 کنال سے بھی زیادہ ہو۔

آگ کے بڑھتے واقعات اور عواملپاکستان بھر میں موسم گرما میں جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات بڑھ جاتے ہیں۔ کچھ میں انسانی عمل دخل ہوتا ہے، کچھ قدرتی عوامل کی وجہ سے ہوتے ہیں۔

شانگلہ کے جنگلات میں مئی کے آغاز سے ہی آگ لگنے کے کئی واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔ (فوٹو: اردو نیوز)ریسکیو ترجمان عبدالرحمٰن کے مطابق، لوئر دیر کے کئی مقامات پر گزشتہ ہفتے کے دوران 22 آگ لگنے کے واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں ڈوبا میدان، رسول بانڈہ، ٹکاٹک، تبو سنگولئی، گدر چکدرہ، جبگی اور اسبنڑ شامل ہیں۔

حل کیا ہو سکتا ہے؟فیاض احمد، جو سائل اینڈ واٹر کنزرویشن ڈیپارٹمنٹ سوات میں مانیٹرنگ آفیسر ہیں، اور بین الاقوامی جرائد میں جنگلات سے متعلق مقالے لکھ چکے ہیں، کہتے ہیں کہ ’جنگلات میں آگ لگنے کی دو بڑی وجوہات ہوتی ہیں  انسانی سرگرمیاں اور قدرتی عوامل۔‘

ان کے مطابق انسانی سرگرمی سے آتش زدگی میں چراگاہ صاف کرنے کے لیے دانستہ آگ لگانا، شہد نکالنے میں آگ کا استعمال، چائے یا کھانے پکانے میں بے احتیاطی، دشمنی یا زمین کے تنازعات شامل ہیں۔

جبکہ قدرتی عوامل میں شدید گرمی اور خشکی، آسمانی بجلی ار  چیڑھ کے درختوں میں موجود ریزن، جو سورج کی شعاعوں کو فوکس کر کے آگ لگا سکتے ہیں۔

فیاض احمد کہتے ہیں کہ عوام خود آگ نہ لگائیں اور بجھانے میں مدد دیں، تو آدھی مشکل حل ہو جائے گی۔

ان کی تجویز ہے کہ فارسٹ ڈیپارٹمنٹ میں فائر فائٹنگ سکواڈ بنایا جائے، فائر لائنز قائم کی جائیں اور ہر گاؤں میں فائر واچنگ کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More