سوشل میڈیا پر ’فحش مواد‘ پوسٹ کرنے کے الزام میں ’کمل کور بھابی‘ نامی انفلوائنسر قتل، متعدد کو دھمکیاں

بی بی سی اردو  |  Jun 18, 2025

انڈیا کی ریاست پنجاب میں سوشل میڈیا انفلوائنسر کنچن کماری عرف ’کمل کور بھابھی‘ کے قتل کے بعد ریاست میں سوشل میڈیا پر مواد تخلیق کرنے والے کئی دیگر مرد و خواتین کو جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔

یاد رہے کہ 11 جون کو بٹھنڈہ میں ایک کار سے کنچن کماری کی لاش برآمد ہوئی تھی۔

پولیس نے اس معاملے میں 32 اور 21 سالہ دو سکھ نوجوانوں کو گرفتار کیا ہے۔

بھٹنڈہ پولیس کے سربراہ امنیت کونڈل نے کہا ہے کہ اس واقعے کے مرکزی ملزم امرت پال سنگھ مہروں ہے۔ ان کے مطابق امرت پال مہروں سازش سے لے کر اس واقعے کو انجام دینے تک ہر چیز میں ملوث تھے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ بظاہر ملزم کو کنچن کماری کے سوشل میڈیا مواد پر اعتراض تھا جسے وہ ذومعنی اور ’فحش‘ قرار دیتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں امرت پال سنگھ کو سوشل میڈیا انفلوائنسرز کی جانب سے تخلیق کیے جانے والے مواد پر ناراضگی کا اظہار کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ جو ان کے بقول ’پنجاب کی روایات نہیں۔‘

امرت پال سنگھ اس بات پر ناراض تھے کہ خواتین کے لیے ’کور‘ اور مردوں کے لیے ’سنگھ‘ کا لقب قابلِ عزت ہے اور اس طرح ’غیر سکھ‘ افراد ان القابات کا استعمال کر کے نامناسب مواد تخلیق کرتے ہیں جو ان کی ’روایات کی توہین‘ ہے۔

کنچن کماری کے قتل کے بعد امرت پال سنگھ مہروں نے قتل کا جواز پیش کرتے ہوئے ویڈیوز پوسٹ کیں اور پنجاب میں دیگر انفلوائنسرز کو بھی دھمکیاں دیں۔

اس ویڈیو میں امرت پال سنگھ مہروں سوشل میڈیا پر نوجوانوں کی جانب سے شیئر کیے جانے والے مواد کو ’غیر اخلاقی‘ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ’نسلوں کی تربیت کا سوال ہے، بچے کیا سوچیں گے کہ ہمارے بڑے ایسے ہی ننگے رہتے تھے۔‘

انھوں نے کنچن کماری کے قتل کے حوالے سے کہا ’یہ کام آج سے سات سال پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ وہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو پیار سے سمجھا رہے ہیں ’اور اگر ایسا مواد دوبارہ نظر آیا تو جان لینے سے گریز نہیں کریں گے۔‘

پولیس کے مطابق امرت پال سنگھ مہروں تاحال مفرور ہے اور وہ امرتسر ایئرپورٹ سے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) فرار ہو گئے تھے۔

کمل کور کے قتل کے پانچ دن بعد، پنجاب پولیس نے امرت پال سنگھ مہروں کے خلاف امرتسر میں مقیم سوشل میڈیا انفلوائنسر دیپیکا لوتھرا کو قتل کی دھمکی دینے کے الزام میں ایک نیا مقدمہ درج کیا ہے۔

قتل ہو نے والی کنچن کماری عرف کمل کور بھابھی کون تھیں؟

30 سالہ کنچن کماری اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ’کمل کور بھابھی‘ کے نام سے بنائے تھے۔

کمل کور کے انسٹاگرام پر چار لاکھ سے زیادہ فالوورز تھے۔ وہ کئی دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی سرگرم تھیں۔

انھیں اکثر اپنی مبینہ ’ذومعنی‘ ویڈیوز کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ امرت پال سنگھ مہروں نے بھی کئی بار ان کے مواد پر اعتراض کیا تھا۔

کمل کور لدھیانہ کے لکشمن نگر میں اپنی ماں، دو بھائیوں اور دو بہنوں کے ساتھ رہتی تھیں۔

خاندان کے مطابق، وہنو جون کو لدھیانہ سے بھٹنڈہ کسی پروموشنل کام کے لیے گئی تھی۔ اگرچہ ان کا خاندان میڈیا سے زیادہ بات نہیں کر رہا لیکن پولیس کو اپنے بیان میں انھوں نے کہا کہ وہ نو جون کی رات تک کنچن کماری کے ساتھ رابطے میں تھے، اس کے بعد کیا ہوا، وہ نہیں جانتے۔

’کمل کور بھابھی‘ کو قتل کیوں کیا گیا؟

کنچن کماری عرف ’کمل کور بھابھی‘ کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر فحاشی پر بہت بحث ہو رہی ہے۔

پولیس کے مطابق، ملزم نے مبینہ طور پر ’کمل کور بھابھی‘ کو اس لیے قتل کیا کیونکہ ملزم کو ان کی سوشل میڈیا پوسٹس پر اعتراض کیا تھا۔ ملزم نے ان کی سوشل میڈیا پوسٹس کو ’فحش‘ قرار دیا تھا۔

اس واقعے کے بعد کئی لوگ سوشل میڈیا پر فحاشی روکنے کے لیے طرح طرح کی توجیہات دے رہے ہیں۔

تاہم کئی لوگوں کا خیال ہے کہ قتل کرنے کے بجائے ملزمان کے پاس مبینہ فحاشی کو روکنے کے لیے قانونی راستہ بھی تھا۔

لیکن انڈیا میں مبینہ فحاشی کو روکنے کے بارے میں قانون کیا کہتا ہے اور کون سے قوانین موجود ہیں؟

بی بی سی نے اس حوالے سےپنجاب میں تشدد کے قوانین کے ماہر وکلا سے بات کی۔ آئیے جانتے ہیں کہ کن قوانین کے ذریعے فحاشی سے نمٹا جا سکتا ہے۔

قانونی ماہرین کے مطابق تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 294، 295، 296، انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ، 2000 کی دفعہ 67، 67 اے، 67 بی، اور خواتین کی بے حیائی کی نمائندگی (ممانعت) ایکٹ، 1986 انڈیا میں بدکاری کو روکنے کے لیے اہم دفعات ہیں۔

ان قوانین کے تحت فحاشی پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔ ان قوانین کے تحت ملزم کو بھاری جرمانے سے لے کر جیل تک کی سزا بھی ہو سکتا ہے۔

کیا ’باغی‘ قندیل کو زندگیاں مشکل بنانے پر قتل کیا گیا تھا؟17 سالہ ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے قتل کا ملزم14 روزہ ریمانڈ پر اڈیالہ جیل منتقلسوشل میڈیا انفلوئنسرز جو فراڈ کے گُر اور لوگوں کی معلومات بیچتے ہیںانفلوئنسرز کو ’سیکس کے بدلے ہزاروں پاؤنڈز کی پیشکش‘پنجاب میں انفلوائنسرز کو دھمکیاں

کنچن کماری کے قتل کے بعد، پنجاب کے بہت سے سوشل میڈیا پر انفلوائنسر نے امرت پال مہروں کی طرف سے دھمکیاں ملنے کی ویڈیوز پوسٹ کی ہیں۔

بہت سے لوگ ماضی میں اپنے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے مواد پر معذرت کر رہے ہیں۔ کچھ نے تحفظ کے لیے پنجاب پولیس سے رابطہ کیا ہے۔

پولیس کے مطابق سوشل میڈیا پر انفلوائنسر کو مبینہ طور پر ’فحش، دوہرے معنی والی پوسٹس ہٹانے، پر دھمکیاں ملی ہیں کہ وہ معافی مانگیں اور دوبارہ ایسی پوسٹس شیئر نہ کریں۔‘

دھمکیاں ملنے والوں میں دیپیکا لوتھرا اور سمرجیت عرف پریت جٹی شامل ہیں۔

امرتسر کی رہنے والی دیپیکا لوتھرا سوشل میڈیا انفلوائنسر ہیں۔ ان کے فیس بک پر تقریباً 80,000 اور انسٹاگرام پر ڈھائی لاکھ کے قریب فالوورز ہیں۔

وہ اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے نجی کمپنیوں اور گانوں کی تشہیر بھی کرتی ہے۔

امرت پال سنگھ مہروں ان کی پوسٹس پر اکثر اعتراض کرتے تھے۔ ایک بار امرت پال مہروں ان سے ملے۔ اس دوران لوتھرا نے معافی مانگی اور ویڈیوز کو ہٹا دیا۔

دیپیکا لوتھرا نے پولیس کو اپنے بیان میں کہا کہ ’مجھے اکثر ویڈیو ہٹانے کی دھمکیاں ملتی ہیں۔ امرت پال سنگھ مہروں نامی شخص کافی عرصے سے مجھے ویڈیو نہ ہٹانے کی صورت میں جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہا تھا۔‘

دیپیکا لوتھرا نے پولیس کو بتایا کہ 13 جون کو امرت پال سنگھ مہروں نامی اکاؤنٹ سے انسٹاگرام پر ایک ریل شیئر کی گئی جس میں انھیں ٹیگ کیا گیا۔

اس ریل میں ان کی ایک تصویر تھی اور انھیں جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ ایک اور پوسٹ شیئر کی گئی اور دھمکیاں دی گئیں۔

دیپیکا لوتھرا نے شکایت میں کہا ہے کہ مہروں محنت سے بنائی گئی ویڈیوز کو ڈیلیٹ کروا کر انھیں مالی نقصان پہنچا رہے ہیں اور انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔

امرتسر پولیس نے امرت پال سنگھ مہروں کے خلاف سائبر کرائم پولیس سٹیشن، امرتسر سٹی میں تعزیرات ہند کی دفعہ 308، 79، 351 (3)، 324 (4) اور آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 67 کے تحت مقدمہ درج کیا۔

پولیس نے مقدمہ درج کرنے کے علاوہ دیپیکا کو سکیورٹی بھی فراہم کی ہے۔

امرتسر کے پولس کمشنر گرپریت سنگھ بھولر نے کہا کہ ’دیپیکا لوتھرا کی شکایت پر مقدمہ درج کیا گیا ہے اور انھیں ضروری سکیورٹی فراہم کی گئی ہے۔‘

ایک اور سوشل میڈیا انفلوائنسر سمر پریت کور، جنھیں سوشل میڈیا پر ’پریت جٹی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، کو بھی مبینہ طور پر امرت پال مہروں کی جانب سے دھمکیاں موصول ہوئی ہیں۔

سمرپریت کور کا کہنا ہے کہ ان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر سادہ ویڈیوز بھی پوسٹ نہ کریں۔ ان کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے جس میں وہ رو رو کر معافی مانگ رہی ہیں۔

اس ویڈیو میں وہ کہہ رہی ہیں کہ ’مجھے نجومیوں کی ویڈیوز شیئر کرنے سے روکا گیا، میں نے وہ ویڈیوز پوسٹ کرنا بند کر دیں، اب عام کپڑوں میں بنی میری ویڈیوز اور گانوں پر بھی اعتراضات کیے جا رہے ہیں۔‘

سمرپریت کور پنجاب کے علاقے ترن تارن کی رہنے والی ہیں۔ انسٹاگرام پر ان کے پانچ لاکھ فالوورز ہیں۔

ترن تارن کے ضلعی پولیس سربراہ ایس ایس پی دیپک پاریک نے بی بی سی پنجابی کو بتایا کہ ’ہمیں ابھی تک سمرپریت کی طرف سے کوئی باقاعدہ شکایت موصول نہیں ہوئی ہے۔ لیکن ہم ان کی سکیورٹی کا جائزہ لے رہے ہیں۔‘

یہ پہلی بار نہیں تھی کہ امرت پال سکھ مذہب کے حوالے مشہور شخصیات پر تنقید کی۔

یاد رہے کہ تین سال قبل امرت پال مہروں کے اکاؤنٹ سے انڈین کامیڈین بھارتی سنگھ کی بھی ایک ویڈیو پوسٹ کی گئی تھی جس میں وہ کسی کامیڈی ایکٹ کے دوران داڑھی اور مونچھ کے بارے میں کیے گئے کمنٹ پر وضاحت دے کر معافی مانگتی دکھائی دیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ’میں عام سی بات کر رہی تھی اس میں کسی خاص مذہب کے لوگوں کا مذاق اڑانا مقصود نہیں تھا ۔ میں خود سکھ ہوں اور سکھوں کا احترام کرتی ہوں۔‘

BBCانڈین قانون میں ’فحاشی‘ کیا ہے؟

قانونی ماہرین کے مطابق انڈین قانون کے بی این ایس ایکٹ، آئی ٹی ایکٹ اور دیگر قوانین کے متعلقہ سیکشنز کے تحت فحاشی کی تعریف کی گئی ہے۔ یہ تعریف بہت تکنیکی ہے اور سیاق و سباق پر منحصر ہے۔

جالندھر کے رہنے والے ایڈوکیٹ یووراج سنگھ نے کہا کہ ’فحاشی کی کوئی ایک تعریف نہیں ہے۔ یہ ہر شخص کے لیے الگ ہے۔ کوئی چیز ایک شخص کو فحش لگ سکتی ہے اور دوسرے کو نہیں۔ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی بار عدالتوں میں ایسے معاملات کو خارج کر دیا جاتا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’بہت سے معاملات میں، فحش زبان بھی ان قوانین کے دائرے میں نہیں آتی ہے کیونکہ اس کا سیاق و سباق شہوت انگیز یا جنسی خیالات کو ابھارنا نہیں ہے۔ فحش زبان کبھی کبھی فلموں یا ویب سیریز میں استعمال ہوتی ہے اور منظر میں اس کا سیاق و سباق بعض اوقات شہوت انگیز خیالات کو ابھارنا نہیں ہوتا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’فحاشی کو روکنے والے قوانین پر عمل درآمد کرتے ہوئے کسی فرد کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔‘

لدھیانہ کے رہائشی ایڈوکیٹ ہرپریت سنگھ جیرکھ نے کہا کہ ’فحاشی کی تعریف بی این ایس ایکٹ، آئی ٹی ایکٹ کی دفعات کے مطابق کی گئی ہے۔ لیکن یہ تعریف سادہ نہیں بلکہ بہت تکنیکی ہے۔‘

’مزید برآں، فحاشی کی تعریف بھی سیاق و سباق پر منحصر ہے۔ بعض اوقات کوئی چیز کسی کو فحش لگ سکتی ہے، لیکن جب ہم اس کے سیاق و سباق کو دیکھتے ہیں تو وہ فحش نہیں ہوتی۔‘

ایڈوکیٹ راجیو لوہت بدھی نے کہا کہ تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 294 فحش مواد کی فروخت، نمائش یا ترسیل سے متعلق ہے۔ اگر یہ مواد الیکٹرانک شکل میں بھی ہو تب بھی یہ اس دفعہ کے دائرہ کار میں آتا ہے۔

اس سیکشن کے مطابق، ’کوئی بھی مواد، چاہے وہ کتاب، پمفلٹ، کاغذ، تحریر، ڈرائنگ، پینٹنگ، نمائندگی، تصویر یا کوئی اور چیز ہو جو شہوت انگیز مفادات کو جنم دیتی ہے یا اس سے رابطے میں آنے والوں کو متاثر کرتی ہے یا متاثر ہونے کا امکان ہے، کو فحش سمجھا جاتا ہے۔‘

مزید برآں، جنسی مفادات سے متعلق کسی بھی مواد کا الیکٹرانک ڈسپلے فحش ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس دفعہ کی پہلی بار خلاف ورزی کرنے والے یا پہلی بار اس دفعہ کے تحت کوئی جرم کرنے والے کو دو سال تک قید اور 5000 روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔

اس دفعہ کے تحت زیادہ سے زیادہ 10 سال کی سزا اور 10 ہزار روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔

ایڈوکیٹ ہرپریت سنگھ جیرکھ نے کہا کہ بی این ایس کی دفعہ 295 کا مقصد بچوں کو فحش مواد سے بچانا ہے۔ اس سیکشن کے تحت، کوئی بھی شخص جو کسی بچے کو کوئی فحش مواد بیچتا، کرایہ پر دیتا، تقسیم کرتا، دکھاتا یا منتقل کرتا ہے جرم ہے۔

اس سیکشن میں فحاشی کی تعریف بی این ایس کے سیکشن 294 کے مطابق ہے۔

اس دفعہ کے تحت مجرم کو کم از کم تین سال قید، دو ہزار روپے جرمانہ اور زیادہ سے زیادہ سات سال قید اور پانچ ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔

ایڈوکیٹ ہرپریت سنگھ جیرکھ نے کہا کہ دفعہ 296 عوامی مقامات پر فحاشی سے متعلق ہے۔ اس دفعہ کے تحت عوامی مقامات پر فحش حرکات کرنا اور عوامی مقامات پر فحش گانے، نظمیں یا الفاظ بولنا یا گانا جرم ہے۔

اس دفعہ کے تحت مجرم پائے جانے والے شخص کو تین ماہ تک قید، ایک ہزار روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔'

انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ 2000 کے سیکشنز

ایڈوکیٹ ہرپریت نے کہا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ 2000 کی دفعہ 67 فحش مواد کی آن لائن اشاعت یا ترسیل سے متعلق ہے۔

اس کی تعریف بی این ایس کے سیکشن 294 سے ملتی جلتی ہے لیکن انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کی اس دفعہ کے تحت سزا زیادہ سخت ہے۔

اس کے تحت پہلی بار مجرموں کو تین سال تک قید اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔ اس دفعہ کے تحت پانچ سال تک قید اور 10 لاکھ روپے تک کا جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔

ایڈوکیٹ راجیو لوہت بادھی بتاتے ہیں کہ آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 67A اور 67B بھی فحاشی پر پابندی لگاتی ہے۔ ان سیکشنز کے تحت قید کی سزا کم از کم پانچ سال اور زیادہ سے زیادہ سات سال ہو سکتی ہے جبکہ جرمانہ زیادہ سے زیادہ 10 لاکھ روپے تک ہو سکتا ہے۔

ایڈوکیٹ راجیو لوہت بدھی کے مطابق، قانون خواتین کی کسی بھی طرح کی تصویر کشی پر پابندی لگاتا ہے جسے خواتین کے لیے فحش، جارحانہ یا ہتک آمیز سمجھا جاتا ہے۔

اس میں اشتہارات، اشاعت اور نمائندگی کی تمام شکلیں شامل ہیں۔

اس قانون کا مقصد خواتین کی عزت کا تحفظ کرنا ہے۔

اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو زیادہ سے زیادہ پانچ سال قید اور 10 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔

17 سالہ ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے قتل کا ملزم14 روزہ ریمانڈ پر اڈیالہ جیل منتقلکیا ’باغی‘ قندیل کو زندگیاں مشکل بنانے پر قتل کیا گیا تھا؟چارسدہ: ’سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل‘ ہونے کے بعد مبینہ طور پر باپ کے ہاتھوں بیٹی کا قتلٹک ٹاک پر شادی کی مشکلات اور طلاق کا ذکر کرنے والی ثانیہ جنھیں ان ہی کے شوہر نے قتل کر دیاٹک ٹاک پر ’قابل اعتراض ویڈیوز‘ بنانے پر 14 سالہ لڑکی قتل: ’حرا نے ابو ابو کی آوازیں لگائیں‘’میں اب بھی بستر میں اُس کے پاؤں تلاش کرتا ہوں‘، 13 سالہ لڑکے کے قتل میں سوشل میڈیا کا کردار’مجھے آن لائن ریپ اور قتل کی دھمکیاں ملتی ہیں۔۔۔ یہ سب روکا کیوں نہیں جا سکتا؟‘بچوں کو انٹرنیٹ پر نقصان دہ مواد سےکیسے بچایا جا سکتا ہے؟انفلوئنسرز کو ’سیکس کے بدلے ہزاروں پاؤنڈز کی پیشکش‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More