پاکستان ٹیلی ویژن کی درخشاں تاریخ کا ایک باب خاموشی سے بند ہو گیا۔ عائشہ خان—وہ چہرہ جس نے کلاسک ڈراموں میں جان ڈال دی، وہ آواز جو ہزاروں دلوں کو چھو گئی, اب ہم میں نہیں رہیں۔ لیکن جس طرح وہ دنیا سے رخصت ہوئیں، وہ ہر انسان کو ہلا دینے کے لیے کافی ہے۔
کراچی کے ایک فلیٹ سے جب اُن کی لاش ایک ہفتے بعد ملی، تو کوئی چیخ سنائی نہیں دی، کوئی ماتم نہ ہوا۔ بس ایک سناٹا، ایک ویرانی اور وہ لاش جو گلنے سڑنے لگی تھی۔ اُن کا سفرِ زندگی تنہا ہی تھا، اور ان کا آخری وقت بھی تنہائی میں گزرا۔
معروف صحافی سارہ حسین کے قلم سے نکلے الفاظ نے اس سانحے کو ایک اور زاویہ دے دیا۔ اُن کی یہ تحریر اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہے، جسے وی لاگر فرح اقرار نے اپنے جذباتی وی لاگ میں بیان کیا۔ سارہ کے مطابق، "عائشہ آپا اب آزاد ہو گئیں، کیونکہ وہ برسوں سے جینے کے بجائے صرف زندہ تھیں۔"
دس برس قبل اپنی جائیداد بچوں میں بانٹنے کے بعد، وہی بچے ماں کو زندگی کے سفر میں تنہا چھوڑ گئے۔ ایک بیٹا کراچی کے پوش علاقے میں رہتا ہے، دوسرا اسلام آباد میں، اور بیٹی لندن میں، لیکن ماں کے دروازے پر کوئی نہ آیا۔
ایک بار وہ اپنے پرانے دوست، اداکار طلعت حسین کے گھر طارق روڈ پر گئیں۔ آنکھوں میں آنسو، دل میں درد لیے بس اتنا کہا: "بچے کہتے ہیں بعد میں بات کریں گے، لیکن پھر کبھی فون نہیں آتا۔"
پھر ایک دن وہ خاموش ہو گئیں۔ بغیر کسی کو بتائے، بغیر کسی الوداع کے۔
جب اُن کی لاش ملی، تو پوسٹ مارٹم کی بات آئی۔ مگر اُن کے بیٹوں نے انکار کر دیا، کہنے لگے: "یہ فطری موت ہے۔ اب بس دفنا دینا ہے۔" اور یوں، ایدھی سرد خانے سے اُن کی خاموش میت کو سخی حسن قبرستان لے جایا گیا—جہاں صرف گنتی کے چند لوگ تھے۔ نہ کوئی ہجوم، نہ کوئی نغمہ، نہ کوئی پرانا ساتھی۔
فرح اقرار کے مطابق، "عائشہ خان کی قبر اُن کے والد کے پہلو میں بنی، لیکن اُس دن شوبز کی کوئی بڑی شخصیت وہاں نہ پہنچ سکی، کیونکہ کسی کو اطلاع ہی نہ دی گئی۔"
یہ وہی عائشہ خان تھیں جنہوں نے کبھی ہر پردے پر روشنی بکھیر دی تھی۔ لیکن ان کا آخری وقت اندھیروں میں گزرا. مایوسی، ٹوٹے ہوئے پاؤں، اور ایک ویران فلیٹ۔
ان کی موت نے فنکاروں، مداحوں، اور عام لوگوں کو چونکا دیا۔ سوالات اٹھے: کیا یہ صرف ایک موت تھی؟ یا ایک ایسی کہانی کا اختتام، جسے کبھی سنجیدگی سے سنا ہی نہیں گیا؟
عائشہ خان کی زندگی ہم سب کے لیے آئینہ ہے۔ ایک یاددہانی کہ شہرت اور محبت ہمیشہ ساتھ نہیں دیتے۔ اور کبھی کبھی، سب سے اونچے مقام پر پہنچنے والے بھی سب سے گہری تنہائی میں گم ہو جاتے ہیں۔
الوداع، عائشہ خان۔ یہ روشنی بجھ گئی، لیکن اس کا درد ہمیشہ جلتا رہے گا۔