کاغان میں ایک کار 300 فٹ گہری کھائی میں گری مگر اس میں موجود بچہ ’معجزاتی طور پر‘ بچ گیا

بی بی سی اردو  |  Jun 25, 2025

24 جون کی صبح جب ریسکیو اہلکار عادل حسین ایک حادثے کی اطلاع پر روڈ سے تقریباً تین سو فٹ سے زیادہ نیچے جائے حادثہ پر پہنچے تو وہ حیرت زدہ تھے۔

دریائے کنہار کے کنارے ایک تباہ حال گاڑی موجود تھی جس سے چند فٹ کی دوری پر ایک جوڑے کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔

مگر انھیں یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ قریب تین سال کا بچہ وہاں پتھر سے ٹیک لگائے خاموش بیٹھا تھا۔ یہ بچہ حادثے میں مارے جانے والے جوڑے کا بیٹا تھا۔

یہ منظر دیکھنے والے عادل حسین اکیلے نہ تھے بلکہ تھانہ کاغان کے ایس ایچ او راجہ ساجد بھی اپنی نفری کے ہمراہ موقع پر موجود تھے۔

راجہ ساجد کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنی برسوں کی پولیس سروس میں ایسا واقعہ پہلے مرتبہ دیکھا ہے کہ کوئی تین سو فٹ نیچے گرے اور اس کو چند معمولی خراشیں آئیں۔ یہ واقعی انہونی ہے۔‘

یہ حادثہ کیسے پیش آیا؟

حادثے میں ہلاک ہونے والے محمد جمشید اور ان کی اہلیہ ہیں۔ ویسے تو ان کا تعلق ضلع اٹک کے علاقے حضرو سے ہے لیکن وہ آج کل ہانگ کانگ میں رہائش پذیر تھے۔ حادثے کا شکار ہونے والی فیملی 25 روز قبل ہی پاکستان پہنچی تھی۔

بچے کے ماموں عادل ایاز نے دونوں لاشیں اور بچے کو اپنے حوالے لیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ جمشید اپنی فیملی کے ساتھ حضرو سے بدھ رات کے کوئی دس، گیارہ بجے نکلے تھے۔

عادل ایاز کا کہنا تھا کہ ان کی بہن اور بہنوئی ہانگ گانگ میں رہتے تھے اور کبھی کبھار ہی پاکستان آتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ اس بار بھی یہ لوگ پاکستان آئے اور سیر و تفریح کے لیے پاکستان کے شمالی سیاحتی مقامات کی طرف نکلے تھے۔

ایس ایچ او راجہ ساجد کا کہنا ہے کہ حادثہ کاغان بازار سے ایک کلو میٹر پہلے لڑی کے مقامپر پیش آیا۔

ان کا کہنا ہے کہ اس مقام پر روڈ کافی بہتر حالت میں ہے اور یہ کوئی ایسا مقام نہیں ہے جہاں عموماً حادثے ہوتے ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ رات میں اس روڈ پر ٹریفک بھی بہت کم ہوتی ہے۔

راجہ ساجد کا کہنا تھا کہ فیملی کے حضرو سے نکلنے کے وقت کی بنا پر ’ہم اندازہ لگا رہے ہیں کہ ممکنہ طور پر یہ لوگ رات کے کوئی ڈھائی یا تین بجے حادثے کے مقام پر پہنچے ہوں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ بظاہر رات کو لمبے سفر کی وجہ سے وہ گاڑی چلاتے ہوئے سو گئے ہوں گے۔

لواحقین نے اب تک اس واقعے کا کوئی مقدمہ درج نہیں کروایا ہے۔

عادل حسین بتاتے ہیں کہ ان کا گھر جائے حادثہ کے نزدیک ہی واقع ہے۔ ’میں اپنے گھر میں سویا ہوا تھا جب مجھے مقامی لوگوں کی کال آئی کہ انھوں نے اس مقام پر نیچی کھائی میں ایک کار دیکھی ہے۔‘

گجرات سے آئے چار سیاح جن کی لاشیں سکردو میں دریا کنارے سے ملیں: ’ریسکیو اہلکار رسیوں کی مدد سے نیچے گئے‘ہر تین منٹ میں ایک موت: انڈیا کی سڑکیں جن کا شمار دنیا کی سب سے غیر محفوظ شاہراہوں میں ہوتا ہےناران سے رتّی گلی کا پیدل ٹرِپ جس نے کراچی کے ایک ٹیلی کام انجینیئر کو ٹریول سٹارٹ اپ کا بانی بنا دیاhttps://www.bbc.com/urdu/articles/cj9ejrp8gvxo

وہ کہتے ہیں کہ جب وہ اس مقام پر پہنچے تو پولیس بھی وہاں پہنچ چکی تھی اور ان کے ساتھ ہی مقامی افراد بھی نیچے اترے۔

انھوں نے بتایا کہ مقامی لوگ ممکنہ قانونی کارروائی کے ڈر سے اس وقت تک کسی جائے حادثہ پر جانے سے گریز کرتے ہیں جب تک سرکاری افسران، پولیس یا ریسکیو اہلکار موقع پر نہیں پہنچ جائے۔

عادل حسین کہتے ہیں کہ جس جگہ سے گاڑی نیچی گری ہے، اس مقام پر سردیوں میں حفاظتی دیوار ٹوٹ گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ گاڑی دریائے کنہار کے کنارے پر موجود تھی۔

عادل حسین کے مطابق، سکی کناری ڈیم کی وجہ سے اب دریائے کنہار میں پانی کم ہوتا ہے۔ ’اگر پانی کا بہاؤ تیز ہوتا تو گاڑی شاید بہہ جاتی اور پتا بھی نہ چلتا کہ کوئی حادثہ ہوا ہے۔‘

’بچہ بالکل چُپ تھا، جیسے صدمے میں ہو‘

عادل حسین کہتے ہیں کہ جب وہ دیگر افراد کے ہمراہ جائے حادثہ پر پہنچے تو دیکھا کہ دونوں لاشیں گاڑی سے دس، پندرہ فٹ کے فاصلے پر پڑی ہوئی تھیں اور قریب ہی بچہ ایک پتھر کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا بس دیکھ رہا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ بچے نے ’ہمیں دیکھ کر بھی کوئی ردعمل نہیں دیا، لگتا تھا کہ جیسے شاک میں ہو۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے بچے کو اٹھایا اور اسے فوری طور پر ابتدائی طبی امداد فراہم کی گئیں لیکن اسے زیادہ چوٹ نہیں آئی تھی۔

عادل حسین کہتے ہیں کہ حادثے میں گاڑی مکمل طور پر تباہ ہو گئی تھی۔ ’بچے کے والدین گاڑی کے باہر پڑے ہوئے تھے مگر بچے کو صرف کچھ خراشیں ہی آئی تھیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ موقع پر موجود تمام لوگ یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ ’ایسا کیسے ممکن ہے؟‘

عادل حسین کا کہنا تھا کہ بچہ بالکل چپ تھا کوئی بات نہیں کررہا تھا۔ ’حیرت کی بات یہ ہے کہ رو بھی نہیں رہا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ حادثہ بظاہر رات کو ہوا اور اس علاقے میں جنگلی حیات بھی ہوتے ہیں مگر بچے کو کوئی نقصاں نہیں پہنچا۔ ’بچہ بہت کم عمر ہے اور شاید اس لیے وہ اپنی بات سمجھا نہیں پا رہا ہے۔‘

انھیں امید ہے کہ ’وقت کے ساتھ وہ اس صدمے سے باہر نکلے تو بتا سکے کہ ہوا کیا تھا۔۔۔ مگر ایک بات طے ہے کہ بچے کا بچ جانا معجزہ ہے۔ اس کو کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔‘

’لندن روڈ‘: یورپی سیاحوں کے لیے پاکستان کا دروازہ سمجھی جانے والی سڑک جو ’ڈنکی روٹ‘ بن گئینو برس قبل پراسرار ’سروالی چوٹی‘ پر لاپتہ ہونے والے تین پاکستانی کوہ پیماؤں کی لاشیں کیسے ملیں؟خواتین کی تنہا سیاحت میں ٹور کمپنیوں کا کردار: ’پہلے والدین اکیلے کیا، دوستوں کے ساتھ بھی شمالی علاقوں کو نہیں جانے دیتے تھے‘کم عمر ڈرائیورز کے ہاتھوں ٹریفک حادثات میں بڑھتی اموات: ’ایسے واقعات کو روکنا ہے تو ملزمان کو بھی ویسی ہی سزا دی جائے‘عطا آباد جھیل کنارے ہوٹل کا ایک حصہ سیل: غیر ملکی وی لاگر کی وائرل ویڈیو اور آلودہ پانی کا معاملہپہلگام حملے کے بعد کشمیر سے روٹھے سیاح: ’نقصان کا حساب لگانے بیٹھیں تو ہارٹ اٹیک آ جائے گا‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More