بالی وڈ کی مشہور اور دلوں پر راج کرنے والی فلموں میں ایک فلم ’شعلے‘ بھی رہی ہے جس کے نقش 50 سال گزرنے کے باوجود بھی شائقین کے دلوں سے مدہم نہ ہو سکے۔
فلم کی اسی مقبولیت کے پیش نظر ’شعلے‘ ایک بار پھر سکرین کی زینت بننے جا رہی ہے اور اس میں فلم بینوں کی دلچسپی کی بہت بڑی وجہ اس فلم کا غیر سنسنر شدہ ورژن میں پیش کیا جانا ہے۔
جی ہاں ’شعلے‘ کے اس خصوصی ورژن میں وہ تمام مناظر، میوزک یہاں تک کے فلم کا اصل اختتام بھی پہلی بار سکرین پر سامنے لایا جا رہا ہے جسے سنسر بورڈ کے اعتراض کی وجہ سے اس وقت تبدیل کیا گیا تھا۔
رمیش سپی کی 1975 میں بننے والی ’شعلے‘ کا ورلڈ پریمیئم 26 جون کو اٹلی کے شہر بولوگنا میں سینما ریٹروواٹو (Cinema Ritrovato) فیسٹیول میں کیا جا رہا ہے۔
’شعلے‘ کا نیا ورژن یورپ کے سب سے بڑے اوپن ایئر سینما پیازہ میگییور (Piazza Maggiore) میں پیش کیا جائے گا اور اس طرح طویل انتظار کے بعد فلم کی دوبارہ نمائش ایک شاندار ماحول میں کی جا رہی ہے۔
’شعلے‘ کی کہانی مصنف سلیم جاوید کی تحریر کردہ جبکہ فلم کی کاسٹ میں امیتابھ بچن، دھرمندر، ہیما مالنی، جیا بھادری، سنجیو کمار اور گبر سنگھ کا ناقابلِ فراموش کردار ادا کرنے والے امجد خان شامل تھے۔
گو کہ فلم مغربی اور جاپانی فلموں سے متاثر ہو کر لکھی گئی تاہم اس میں مکمل طور پر ایک انڈین کہانی کی ہی جھلک ملتی ہے۔
تین گھنٹے سے ذیادہ دورانیے کی اس طویل فلم میں رام گڑھ نامی (خیالی) گاؤں میں اچھائی اور ظلم کی جنگ کو دکھایا گیا۔
فلم میں شروع میں جے اور ویرو (امیتابھ بچن اور دھرمندر) کو چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث دکھایا گیا جنھیں رام گڑھ کے ایک سابق جیلر ٹھاکر بلدیو سنگھ کی طرف سے خطرناک ڈاکو گبر سنگھ کو پکڑنے کے لیے بلایا جاتا ہے۔
گبر سنگھ کا کردارامجد خان نے ادا کیا جو انڈین فلموں میں مشہور ولن کا کردار ادا کرنے والوں میں سر فہرست ادکاروں میں شمار ہوتے تھے۔
جس وقت ’شعلے‘ ریلیز ہوئی تھی تب یہ ممبئی کے 1,500 نشستوں والے مشہور منروا تھیٹر میں مسلسل پانچ سال تک چلتی رہی۔
اور پھر اس فلم کو بی بی سی انڈیا کے آن لائن سروے میں ’ملینیم کی بہترین فلم‘ قرار دیا گیا اور برٹش فلم انسٹیٹیوٹ کے ایک پول میں انڈیا کی بہترین فلم کا خطاب بھی حاصل ہوا۔
فلم کے موسیقار آر ڈی برمن کے گانوں اور فلم کے مشہور ڈائیلاگز کی پانچ لاکھ سے زیادہ کیسٹیں فروخت ہوئیں۔
’شعلے دنیا کا آٹھواں عجوبہ‘
لاکھوں فلم بینوں کے دل پر راج کرنے والی ’شعلے‘ محض ایک فلم ہی نہیں رہی بلکہ اس کے ڈائیلاگ اور گانے رفتہ رفتہ روز مرہ زندگی اور ثقافت کا حصہ بنتے گئے۔
شعلے کے ڈائیلاگ اور گانے شادیوں میں دہرائے جاتے ہیں، سیاسی تقاریر میں ان کا حوالہ دیا جاتا ہے یہاں تک کے اشتہارات میں بھی انھیں مزاحیہ انداز میں پیش کیا گیا۔
فلم میں ایک چھوٹے مجرم کا کردار ادا کرنے والے فلمسٹار دھرمندر کی جوڑی امیتابھ بچن کے ساتھ بنائی گئی تھی۔
حال ہی میں کئے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ’شعلے دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے۔‘
دوسری جانب فلم میں جے کا کردار ادا کرنے والے فلمسٹار امیتابھ بچن اس فلم کو زندگی کے ناقابل فراموش تجربے کے طور پر یاد کرتے ہیں۔
’شعلے کی شوٹنگ ایک ناقابلِ فراموش تجربہ تھی، اگرچہ اُس وقت مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ فلم انڈیا کے سنیما میں سنگِ میل بن جائے گی۔‘
فلم ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے شوندرا سنگھڈُنگرپور کے مطابق ’شعلے‘ کا نیا بغیر سنسر شدہ ورژن مکمل، خالص اور حقیقت سے قریب ہے جس میں فلم کا اصل اختتام اور وہ مناظر بھی شامل ہیں جو اس سے پہلے کبھی ناظرین نے نہیں دیکھے۔
فلم کے اصل ورژن میں گبر سنگھ مر جاتا ہے اور انھیں ٹھاکر اپنے کیلوں والے جوتے سے روند کر ہلاک کر دیتا ہے۔
لیکن سنسر بورڈ نے اس پر اعتراض کیا۔ وہ ایک سابق پولیس افسر کو قانون اپنے ہاتھ میں لیتے دیکھ کر پریشان ہو گئے۔
انھیں فلم کے مخصوص انداز میں دکھائے گئے تشدد پر بھی شدید تحفظات تھے۔ فلم نے ایک غیر معمولی سخت سنسر شپ کا سامنا کیا کیونکہ یہ فلم ایمرجنسی کے دوران پیش کی گئی تھی۔ یہ انڈیا میں ایک ایسا وقت تھا جب کانگریس حکومت نے شہری آزادیوں کو معطل کر دیا تھا۔
جب سنسر بورڈ کو قائل کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں تو ہدایت کار رمیش سپی کو مجبوراً فلم کا اختتام دوبارہ فلمانا پڑا۔
فلم کی کاسٹ اور عملے کو فوری طور پر انڈیا کے جنوب کے سخت اور پتھریلے علاقے رام نگرم واپس بلایا گیا (جسے فلم میں خیالی گاؤں رام گڑھ کے طور پر دکھایا گیا تھا۔)
نئے اور نسبتاً نرم انجام میں گبر سنگھ کو قتل نہیں کیا جاتا بلکہ گرفتار کر لیا جاتا ہےاور یوں شوٹنگ کے بعد فلم کو سنسر بورڈ سے منظوری مل گئی۔
تاہم اس تین سالہ بحالی کے سفر کی راہ آسان نہ تھی۔ فلم کے اصل 70 ملی میٹر پرنٹس محفوظ نہ رہ سکے تھے اور کیمرہ نیگیٹیوز شدید بوسیدگی کا شکار تھے۔
پھر 2022 میں ہدایتکار رمیش سپی کے بیٹے شہزاد سپی نے ممبئی میں قائم فلم ہیریٹیج فاؤنڈیشن سے رابطہ کیا اور فلم کو بحال کرنے کی تجویز پیش کی اور یوں اس تاریخی فلم کے ایک بار پھر زندہ ہونے کا سفر شروع ہوا۔
’شعلے‘ سے لے کر ’برفی‘ تک، بالی وڈ کی سپر ہٹ فلموں پر نقل کا الزام کیوں لگتا ہے؟فلم ’شرابی‘ کے 40 سال، جس میں امیتابھ بچن کے ہاتھ کی چوٹ مشہور سٹائل بن گئی شعلے کے ’ٹھاکر‘ سنجیو کمار، جن کا لاکھوں روپے کا ادھار ہڑپ لیا گیاشعلے فلم کے ’رحیم چاچا‘ جنھوں نے کراچی میں درزیوں کی ہڑتال کروائیشوٹنگ میں استعمال ہونے والے اصل کیمرے کا دریافت ہونا
شہزاد سپی نے انکشاف کیا کہ فلم کے کئی حصے ممبئی کے ایک گودام میں محفوظ ہیں۔ اس گودام میں بغیر لیبل والے ڈبوں کے اندر فلم کے اصل 35 ملی میٹر کیمرہ نیگیٹیوز اور ساؤنڈ نیگیٹیوز محفوظ تھے اور یوں جو بظاہر ایک مشکل کام لگ رہا تھا، وہ دراصل ایک معجزہ ثابت ہوا۔
تاہم خوشی کا یہ لمحہ یہیں ختم نہیں ہوا۔
سپی فلمز نے فاؤنڈیشن کو مزید ریلز کے بارے میں بھی مطلع کیا جو برطانیہ میں محفوظ تھیں۔
برٹش فلم انسٹیٹیوٹ کے تعاون سے ٹیم کو اس تاریخی فلمی مواد تک رسائی حاصل ہوئی۔ یہ ریلز احتیاط سے اٹلی کے شہر بولونیا میں واقع لا ایمیجن ریٹرووٹا (L'Immagine Ritrovata) لیبارٹری منتقل کی گئیں، جس کا شمار فلم بحالی کے لیے دنیا کی بہترین لیبارٹریز میں ہوتا ہے۔
اگرچہ فلم کے اصل 70 ملی میٹر پرنٹس ضائع ہو چکے تھے اور نیگیٹیوز کو شدید نقصان پہنچا تھا لیکن آرکائیوز کے ماہرینِ نے ممبئی اور برطانیہ سے مختلف اجزا جمع کیے۔
انھوں نے برٹش فلم انسٹیٹیوٹ اور لا ایمیجن ریٹرووٹا کے ماہرین کے ساتھ مل کر انتھک محنت اور باریک بینی سے فلم کو دوبارہ جوڑنے کا عمل مکمل کیا۔
اس عمل کے دوران فلم کی شوٹنگ میں استعمال ہونے والا اصل کیمرہ بھی دریافت ہوا۔
’فلم کے ابتدائی شوز کے دوران ہنسی، نہ آنسو، صرف خاموشی‘
یہاں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ شعلے جب پہلی بار سنیما گھروں میں پیش کی گئی تو اس کا آغاز کچھ خاص نہ رہا۔ اس کے ابتدائی تجزیوں میں بہت تنقید کی گئی اور باکس آفس کی صورتحال غیر یقینی رہی۔
میگزین ’انڈیا ٹوڈے‘ نے فلم کوراکھ کا ڈھیر قرار دیا۔ فلم فیئر کے ناقد بکرم سنگھ نے لکھا کہ فلم کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ’مغربی فلم کو انڈیا کے ماحول میں زبردستی بٹھانے کی ایک ناکام کوشش ہے۔‘
ان کے مطابق ’یہ فلم محض مغربی انداز کی ناکام نقل ہے اور نہ اِدھر کی، نہ اُدھر کی۔‘
فلمی مصنفہ انوپما چوپڑا نے اپنی کتاب (Sholay: The Making of a Classic) میں لکھا کہ ’فلم کے ابتدائی شوز کے دوران ناظرین خاموشی سے بیٹھے رہے۔ نہ کوئی ہنسی، نہ آنسو، نہ تالیاں۔ بس خاموشی۔‘
پھر ہفتے کے اختتام تک اگرچہ تھیٹرز بھر گئے مگر ان کا ردعمل اب بھی غیر واضح تھا تاہم اگلے چند ہفتوں میں ناظرین نے فلم میں بھرپور دلچسپی کا اظہار شروع کر دیا اور اس پر تیزی سے بات ہونے لگی۔
انوپما چوپڑا کہتی ہیں کہ ’فلم کے مناظر شاندار تھے، ڈائیلاگز کا اندازمعجزاتی تھا اور تیسرے ہفتے تک ناظرین ڈائیلاگز دہرانے لگے۔ اس کا مطلب تھا کہ لوگ فلم کو دوبارہ دیکھنے آ رہے تھے۔‘
فلم ریلیز ہونے کے ایک مہینے بعد پولیڈور کمپنی نے 48 منٹ پر مشتمل فلمی مکالموں کا ریکارڈ جاری کیا اور تب صورتحال مکمل طور پر بدل گئی۔
شعلے فلم کے کردار یادگار بن گئےاور گبر سنگھ جو واقعی خوفناک مگر بے حد مقبول ولن تھے ایک ثقافتی علامت بن کر ابھرے۔
شعلے نے پانچ سال سے زیادہ سینما گھروں میں کامیابی سے چلنے کا ریکارڈ قائم کیا جن میں تین سال بطور ریگولر شو اور پھر دو سال میٹنی شوز کی صورت میں ممبئی کے منروا تھیٹر میں چلے۔
240ویں ہفتے میں بھی فلم کے شوز ہاؤس فل ہوتے تھے۔
یہ فلم اپریل 2015 میں پاکستان میں بھی نمائش کے لیے پیش کی گئی اور 40 سال پرانی ہونے کے باوجود اس نے ان انڈین فلموں سے بہتر کارکردگی دکھائی جو ایک دہائی سے بھی کم پرانی تھیں، بشمول 2002 کی فلم ’دیوداس‘ جس میں شاہ رخ خان نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
فلم کے ڈسٹری بیوٹر شیام شروف نے انوپما چوپڑا سے کہا کہ ’جیسے برطانوی سلطنت کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس کا کبھی سورج غروب نہیں ہوتا، ویسا ہی کچھ ’شعلے‘ کے ساتھ بھی ہے۔‘
پھر سوال یہ ہے کہ پچاس سال بعد بھی شعلے ناظرین کے دلوں میں کیوں موجود ہے؟
امیتابھ بچن نے اپنے ایک انٹرویو میں اس کا سادہ مگر گہرا جواب دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’نیکی کا بدی پر غلبہ اور سب سے بڑھ کر محض تین گھنٹوں میں مکمل شاعرانہ انصاف جو ہم شاید زندگی بھر نہ دیکھ پائیں۔‘
’شعلے‘ سے لے کر ’برفی‘ تک، بالی وڈ کی سپر ہٹ فلموں پر نقل کا الزام کیوں لگتا ہے؟شعلے فلم کے ’رحیم چاچا‘ جنھوں نے کراچی میں درزیوں کی ہڑتال کروائیشعلے کے ’ٹھاکر‘ سنجیو کمار، جن کا لاکھوں روپے کا ادھار ہڑپ لیا گیافلم ’شرابی‘ کے 40 سال، جس میں امیتابھ بچن کے ہاتھ کی چوٹ مشہور سٹائل بن گئی بھوت بنگلہ جو سپر سٹار راجیش کھنہ کے لیے خوش قسمتی کا در ثابت ہواشاہ رخ کی ’منت‘ اور راجیش کھنہ کا ’آشیرواد‘: بالی وڈ ستاروں کے وہ گھر جو ان کے لیے ’خوش قسمتی‘ کا سبب بنے