دریائے سوات کے سیلابی ریلے میں بہہ جانے والا خاندان: ’میں پاگلوں کی طرح فون ملاتا رہا لیکن بیوی بچوں سے رابطہ نہ ہوسکا‘

بی بی سی اردو  |  Jun 27, 2025

’مجھے کسی نے بتایا کہ میرے ہم زلف محمد محسن کی فیملی کو حادثہ پیش آگیا ہے اور اس کے بچے پانی میں بہہ گئے ہیں تو ایک لمحے کو میں سکتے میں آگیا کہ ان کے ساتھ تو میری بیوی اور بچے بھی تھے، میں نے پاگلوں کی طرح موبائل فون پر نمبر ڈائل کرنا شروع کردیے لیکن میرا اپنے بیوی بچوں سے رابطہ نہ ہوسکا۔‘

یہ کہنا تھا وسطی پنجاب کے ضلع سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ کے رہائشی عبدالسلام کا جن کی اہلیہ، دو بیٹیاں اور ایک بیٹا اپنے دیگر رشتہ داروں کے ساتھ سوات اور دیگر پہاڑی مقامات کی سیر کو گئے ہوئے تھے جہاں دریائے سوات میں یہ تمام لوگ ڈوب گئے۔

سوات میں ریسکیو 1122 کے ترجمان کے مطابق اس حادثے میں مجموعی طور پر 16 افراد سیلابی ریلے میں پھنسے جن میں سے تین کو بچا لیا گیا تھا جبکہ نو کی لاشیں نکالی جا چکی ہے اور باقی کی تلاش کا کام جاری ہے۔

عبدالسلام نے بتایا کہ وہ فوری طور پر سوات کی طرف روانہ ہو رہے ہیں۔

عبدالسلام نے بتایا کہ وہ سعودی عرب میں محنت مزدوری کرتے ہیں اور گھر کی تعمیر کے سلسلے میں چھٹیاں لے کر پاکستان آئے ہوئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’سوات جانے سے پہلے بیٹیاں کہہ رہی تھیں کہ آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں ہمیں زیادہ مزہ آئے گا، لیکن میں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ اگر میں بھی چلا گیا تو گھر کی تعمیر کا کام کون کروائے گا۔‘

دریائے سوات میں بہہ جانے والے خاندان کا تعلق ڈسکہ سے ہے متاثرہ خاندان گزشتہ رات گیارہ بجے ناران کاغان کے لیےروانہ ہوا تھا،جو ناران کاغان کی بجائے روٹ تبدیل کرکے سوات چلے گئے۔

حادثے کا شکار ہونے والے خاندان کو لے جانے والے محمد محسن کے والد عبدالرحمن کا کہنا ہے کہ ’میرے خاندان کے کل سولہ افراد روانہ ہوئے تھے جن میں میرے بیٹے محسن کے کچھ دوستوں کی فیملیز بھی شامل تھیں، صبح بیٹے محسن سے رابطہ ہوا تو اس نے بتایا وہ ناران کاغان کی بجائے سوات جارہے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’صبح ناشتہ کرنے کے دوران بھی رابطہ ہوا تب تک سب خیر وعافیت سے تھے، اس کے کچھ ہی دیر بعد رابطہ ہوا تو بیٹی اور داماد رو رہے تھے، جنھوں نے بس اتنا بتایا کہ بچے دریا میں بہہ گئے ہیں۔‘

عبدالرحمان نے بتایا کہ ’سوات جانے والی فیملی میں میری بہو روبینہ اور اس کی چار بیٹیاں شامل تھیں جو دریا میں بہہ گئیں۔ بہہ جانے والوں میں میری بیٹی فوزیہ اور اس کی چار بیٹیاں بھی شامل ہیں۔ بچ جانے والوں میں میری ایک بیٹی، داماد اور چار بیٹیاں شامل ہیں۔‘

اس خاندان کے ساتھ آئے ایک نوجوان محمد محسن سے ٹیلیفون پر رابطہ ہوا تو انھوں نے بتایا کہ وہ اس وقت بذریعہ ایمبولینس میتیں واپس سیالکوٹ لے کر جا رہے ہیں۔

اس حادثے کے صدمے کے باعث وہ صرف اتنا بتا سکے کہ ’یہ ان کے دوست کی فیملی تھی اور سیالکوٹ سے آئے تھے۔‘ وہ مزید بات کرنے کے قابل نہیں تھے۔

ضلع سیالکوٹ کی ڈپٹی کمشنر صبا اصغر نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ڈسکہ سے سوات جانے والے افراد کی تعداد 35 ہے، ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ڈسکہ کا محمد محسن نامی شخص اپنی فیملی، اپنے ہم زلف اور اس کی فیملی اور دو دوستوں کی فیملیز اور دیگر افراد کو اپنے ہمراہ سوات لے کرگیا۔

ریسکیواہلکاروں کے مطابق متاثرہ خاندان ضلع سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ سے سوات سیر کے لیے آیا تھا جو دریا کے کنارے بیٹھا ناشتہ کررہا تھا تاہم اسی دوران بارش کی وجہ سے دریا میں تیز بہاؤ ہوا اور ایک ہی خاندان کے 16 افراد بہہ گئے۔

ریسکیو ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ آٹھ بجے کے قریب ان لوگوں کے ڈوبنے کی اطلاع ملی۔

ان کے مطابق یہ لوگ مینگورہ بائی پاس پر دریا کے کنارے بیٹھے تھے، ان لوگوں کو پانی کے ریلے کا علم نہیں تھا۔

ریسکیو حکام کے مطابق واقعے کی اطلاع ملتے ہی ریسکیو آپریشن شروع کیا گیا اور تین افراد کو زندہ بچالیا گیا جب کہ آٹھ افراد کی لاشیں مل گئی، اس کے علاوہ دیگر افراد کی تلاش جاری ہے، ہلاک ہونے والے افراد میں پانچ بچے بھی شامل ہیں۔

سوات کے ڈپٹی کمشنر نے میڈیا کو بتایا کہ دریا میں نہانے اور اس کے قریب جانے پر دفعہ 144 نافذ کررکھی ہے لیکن اس کے باوجود سیاح وہاں جاتے ہیں۔

سوات شہر کے میئر شاہد علی خان کے جو فوری طور پر دریائے سوات کے اُس کنارے پہنچے تھے جہاں سیالکوٹ اور مردان سے آئے سیاح دریائے سوات میں آنے والے سیلابی ریلے کی نظر ہو گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سیلابی ریلا اس قدر تیز تھا کے اس میں پھنس جانے والے یہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ اب کرنا کیا ہے۔‘

شاہد علی خان نے بتایا کہ وہاں موجود سیاحوں میں پنجاب کے شہر سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے متعدد افراد بھی اس ریلے میں بہہ گئے۔

انھوں نے بتایا کہ اس ریلے میں مردان سے تعلق رکھنے والے تین افراد معجزانہ طور پر بچ گئے ہیں۔

شاہد علی خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ سیاح ناشتہ کرنے کے لیے دریا کے اس پار رُکے تھے، کچھ ادھر ہوٹل میں بیٹھ گئے اور باقی دریا کی طرف چلے گئے، پھر انہی میں سے ایک خاتون دریا کے قریب جانے والے افراد کو واپس بلانے کے لیے گئی ہی تھیں کہ اچانک سیلاب کا ریلہ اتنی تیزی سے آیا کہ کسی کو سمجھ نہیں آئی وہ سب ایک ٹیلے پر رُک گئے کہ پانی کم ہو جائے تو کنارے کی جانب چلے جائیں گے مگر ایسا نہیں ہوا اور پانی کی سطح مسلسل بلند ہوتی رہی۔‘

سوات کے میئر شاہد علی خان کے مطابق سیلابی ریلے کے باعث حادثے کا شکار ہونے والے افراد میں سیالکوٹ سے آئے خاندان کے گیارہ افراد شامل ہیں جبکہ پانچ افراد کا تعلق مردان سے تھا۔

انھوں نے کہا کہ صرف 15 سے 20 منٹ کے اندر سیلاب کا تیز ریلا آیا اور ان کو سنبھلنے کا موقع بھی نہیں مل سکا۔انھوں نے بتایا کہ سیالکوٹ سے آنے والا خاندان جمعہ کی صبح ہی سوات پہنچا تھا۔

عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟

مقامی لوگوں کے مطابق سیلابی ریلے میں پھنس جانے والے افراد دریا میں ایک ٹیلے پر کھڑے ہو گئے اور اس بات کا انتظار کرنے لگے کہ انھیں جلد سے جلد ریسکیو کیا جا سکے یا دریا میں سیلاب کم ہو تو وہ یہاں سے نکل سکیں۔

موقع پر موجود ایک عینی شاہد فضل سبحان نے بتایا کہ ’کچھ بچے اور خواتین دریا کے کنارے پر کھڑے تصویریں بنا رہے تھے اس کے بعد ایک خاتون بھی اُن کے پاس چلی گئیں۔ سیالکوٹ اور مردان سے آئے افراد دریا کے پاس موجود تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’دریا کے ایک طرف ایک بند باندھا گیا تھا اور سیلابی ریلے سے وہ بند ٹوٹ گیا جس سے پانی کا ایک بڑا ریلہ ان کی طرف آیا۔ انھوں نے اپنی جان بچانے کی کوشش تو کی لیکن چند ہی منٹ میں ان کے پیروں تلے سے سیلاب وہ ریت اور پتھر بہا کر لے گیا جس پر وہ کھڑے تھے اور بس یہ سب دریائے سوات کے تُند و تیز ریلے میں بہہ گئے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کے لیے یہ بہت تکلیف دہ منظر تھا۔

موقع پر موجود ایک اور عینی شاہد شیر علی نے بھی بی بی سی کو بتایا کہ ’پانی کی سطح جوں جوں بلند ہو رہی تھی متاثرہ افراد کے لیے اس کا مقابلہ کرنا مُشکل ہوتا چلا جا رہا تھا، جس ٹیلے پر وہ سب کھڑے تھے وہاں پاؤں جمانے کی جگہ بھی کم ہو رہی تھی اور کوئی سہارا بھی نہیں تھا۔‘

ایک عینی شاہد نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ پنجاب سے آنے والے سیاح ناشتہ کرکے چائے پی رہے تھے اور بچیاں دریا کے پاس سیلفی لینے گئی تھیں، اس وقت دریا میں اتنا پانی نہیں تھا لیکن اچانک سے دریا میں بہت زیادہ پانی اگٓیا تو بچے وہاں پھنس کر رہ گئے، انہوں نے دعوی کیا کہ ریسکیو کو آگاہ کیا تو وہ کافی تاخیر سے پہنچے اور ریسکیو کی موجودگی میں بچے دریا میں ڈوبے اور وہ بچا نہیں سکے، اس بارے ریسکیو حکام سے رابطہ کیا گیا لیکن انھوں نے کہا کہ وہ ریسکیو آپریشن کرنے میں مصروف ہیں اور فی الوقت اس بارے بات نہیں کرسکتے۔

مقامی لوگوں نے مدد کے لیے رسیاں پھینکیں ’لیکن وہ خوفزدہ تھے‘سوات میں دریا کنارے غیر قانونی تعمیرات کیسے خطرہ بنیں؟پاکستان اور انڈیا سمیت دنیا بھر میں ’فضا میں اڑتے دریا‘ جو تباہیوں کا باعث بن رہے ہیںسیلاب کے دوران سب سے زیادہ تباہی دریائے بیاس کے آس پاس کیوں ہوئی؟مختلف علاقوں میں ریسکیو کی تمام تدبیریں؟

سوات کے ریسکیو 1122 کے ڈسٹرکٹ ایمرجنسی افسر محمد سعد خان نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں جیسے ہی اطلاع موصول ہوئی انھوں نے فوری طور پر ٹیمیں موقع پر روانہ کر دی تھیں اور سیلاب میں پھنسے تمام افراد کو بچانے کی بھرپور کوشش کی۔

ان کا کہنا تھا کہ انھیں نو بج کر 39 ریسکیو پر کال موصول ہوئی تھی جس پر وہ دس سے 12 منٹ میں وہاں پہنچ گئے تھے انھوں نے ابتدائی طور پر کوشش کی اور تین افراد کو بچا لیا بعد میں دیگر کو بچانے کے لیے دور سے کشی سیلاب میں ڈال دی تھی لیکن اتنے میں ان کے نیچے سے ریت پھسل گئی۔

سوات میں حالیہ بارشوں کے بعد سیلابی ریلے میں مختلف مقامات پر کوئی 70 کے لگ بھگ افراد پھنس گئے تھے جنھیں ریسکیو کرنے کے لیے امدادی ٹیموں کے120 اہلکار موقع پر موجود تھے۔ ریسکیو 1122 کے ترجمان بلال فیضی کے مطابق سوات بائی پاس پر 19 افراد پانی میں بہہ گئے ہیں جبکہ تختے بند کے مقام پر 4 لاشیں نکالی گئی ہیں۔

امام ڈھیری کے مقام پر 22 افراد پانی میں پھنس گئے تھے اور ان تمام کو ریسکیو کر لیا گیا تھا۔ اسی طرح غلگئی کے مقام پر دو افراد پھنس گئے تھے جن میں سے ایک کو بچا لیا گیا جبکہ ایک کی لاش نکالی گئی ہے۔ مایار کے مقام پر سات افراد پھنس گئے تھے جن میں سے چار کو ریسکو کر لیا گیا ہے باقی کی تلاش جاری ہے۔

گپنجی گرام کے مقام پر ایک شخص پانی میں پھنس گیا تھا جس کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے۔ بمخیلہ مٹہ میں کوئی 20 سے 30 افراد پانی میں پھنس گئے تھے اور ان تمام کو ریسکیو کر لیا گیا ہے جبکہ اوڈی گرام سے دو افراد کی لاشیں نکالی گئی ہیں۔

خیبر پختونخوا میں دو روز پہلے سے پی ڈی ایم اے اور محکمہ موسمیات کی جانب سے الرٹ جاری کیے گئے تھے اور ضلع سطح پر سیکشن 144 بھی نافذ کر دیا گیا تھا جس میں شہریوں سے کہا گیا تھا کہ شدید بارشوں کی وجہ سے دریاؤں اور ندی نالوں میں طغیانی کا خطرہ پایا جاتا ہے۔

اس بارے میں سوات سے مقامی صحافی عدنان باچا نے بتایا کہ پہلے روز تو پولیس اور انتظامیہ کے کچھ لوگ دریا کے قریب آئے اور لوگوں کو منع کر دیا تھا لیکن اس کے بعد کوئی نہیں آیا۔ جمعہ کی صبح بھی ان دریاؤں کے پاس کوئی نہیں تھا حالانکہ جب سیلاب آتا ہے تو کافی پہلے معلوم ہوجاتا ہے کہ سیلابی ریلا آ رہا ہے انتطامیہ تمام لوگوں کو محفوظ مقام پر منتقل کر دے۔

اس واقعہ کے وقت بھی جو لوگ ویڈیو بنا رہے ہیں ان کے بیک گراؤنڈ میں یہ آوازیں آ رہی ہیں کہ کہاں ہیں انتظامیہ اور ریسکیو کے لوگ کہ جلدی آجائیں اور ان لوگوں کو بچا لیں۔

اس وقت ان سیاحتی مقامات پر مقامی ضلعی انتظامیہ کے اہلکاروں کے ساتھ ساتھ پولیس، ٹورزم پولیس، ریسکیو 1122، سول ڈیفنس، محکمہ آبپاشی کے اہلکار اور دیگر لوگ موجود ہوتے ہیں لیکن ان سیاحوں کو بچانے کے لیے موقع پر کوئی موجود نہیں تھے۔

سٹی میئر شاہد علی خان سے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے علاقے میں یہ طویل دریا ہے اور اس کے لیے ان کی پاس وسائل بہت کم ہیں لیکن اس میں اگر کہیں کوئی کوتاہی کسی بھی جانب سے ہوئی ہے تو اس پر ذمہ دار افراد یا ادارے کی باز پرس ضرور ہوگی۔

مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ محکمہ موسمیات کے الرٹ کے بعد صرف وٹس ایپ گروپس میں پیغامات بھیج دیے گئے تھے انتظامیہ کی جانب سے عملی اقدامات کہیں نظر نہیں آئے یہیں وجہ ہے کہ اچانک سیلاب آنے سے 70 کے لگ بھگ افراد اس سیلاب میں پھنس گئے تھے۔ اب اعلانات اور دیگر لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اعلانات کیے جا رہے ہیں۔

مقامی لوگوں نے مدد کے لیے رسیاں پھینکیں ’لیکن وہ خوفزدہ تھے‘سوات میں دریا کنارے غیر قانونی تعمیرات کیسے خطرہ بنیں؟پاکستان اور انڈیا سمیت دنیا بھر میں ’فضا میں اڑتے دریا‘ جو تباہیوں کا باعث بن رہے ہیںسیلاب کے دوران سب سے زیادہ تباہی دریائے بیاس کے آس پاس کیوں ہوئی؟لاہور میں موسلا دھار بارش: اربن فلڈنگ کیا ہے اور زیادہ بارش ہونے پر پانی شہریوں کے گھروں تک کیسے پہنچ جاتا ہے؟پاکستان میں 2022 کا سیلاب: کیا سوات میں دریا پر بنی تجاوزات تباہی کا سبب بنیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More