Getty Images
جب سنہ 1948میں اسرائیل وجود میں آیا تو شاہِ ایران نے نہتو ہاتھ ملایا اور نہ ہیمُکا تانا۔
ان کے خیال میںایک مغرب نواز، غیر عرب ریاست ایران کے لیے فائدہ مند تو ہو سکتیتھی، مگر اس کی کھلی حمایت عربوں کے غصے کو بھیدعوت دے دیتی۔ اسی لیے محتاط راستہ لیتے ہوئے ایران نے اسرائیل کو رسمی طور پر تو تسلیم نہیں کیا مگر اسے عملاً مانتے ہوئے 1950 میں تل ابیب میں ایک تجارتی مشن قائم کر لیا۔
یہ اقدام ترکی کے بعد کسی بھی مسلم ملک کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی ابتدا تھی جو ایران کے شاہ محمد رضا پہلوی کےدور میں خوشگواررہے۔
ایران اور اسرائیل کشیدگی سے متعلق بی بی سی اردو کی تحاریر براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں
سٹیفن کنزر اپنی کتاب ’آل دی شاہ زمین‘ میں لکھتے ہیں کہ سنہ 1951میں محمد مصدق ایران کےوزیر اعظم بنے تو انھوں نےپارلیمان کے دیے گئے اختیار کے تحت تیل کی صنعت کو قومیانے اور برطانوی اثر کو ختم کرنے کی کوشش کی اوراسرائیل کو مغربی مفادات کا نمائندہ سمجھا۔
’لیکن سنہ 1953 میں برطانیہ اور امریکہ کے تعاون سے ایک فوجی بغاوت کے ذریعے مصدق حکومت کے خاتمےکے بعد شاہ کے تحت اقتدار کو مرکزی حیثیت دی گئی اور ایران نے غیر ملکی آئل کمپنیوں کو ملکی صنعت میں شامل کر تے ہوئے مغرب اور اسرائیل کے ساتھ دوبارہ قریبی تعلقات استوار کر لیے۔
دشمن کا دشمن دوست
تریتا پارسی نے اپنی کتاب ’ٹریچرس الائینس: دی سیکرٹ ڈیلنگز آف اسرائیل، ایران اینڈ دی یونائٹڈ سٹیٹس‘ میں لکھا ہے کہ سنہ 1950 کیدہائی کے آخر تک ایران اور اسرائیلکا باقاعدہ اشتراک تشکیل پا چکا تھا۔
’اس کی بڑی وجہ مصر اور سوویت یونین کے بڑھتے تعلقات اور 1956 کی سویز جنگ کے بعد مصر کے حکمرانجمال عبد الناصر کا عرب دنیا کا قائد بن کر ابھرنا تھا۔ اس جنگ میں اسرائیل، برطانیہ اور فرانس نے مل کر مصر پر حملہ کیا تھا، جس سے ناصر کی اسرائیل سےدشمنی مزیدبڑھگئی تھی۔‘
پارسی لکھتے ہیں کہ ’اسرائیلی وزیراعظم ڈیوڈ بین گوریان کا خیال تھا کہ عرب دنیاکے ہمسایہ ممالک ایران، ترکی اور ایتھوپیا، جنھیں وہ حاشیہ ریاستیں کہتے تھے، اسی صورت میں اسرائیل سے سٹریٹجک یا تزویراتیتعلقات قائم کریں گی جب امریکہ ان پر دباؤ ڈالے۔‘
’اسی پس منظر میں 24 جولائی 1958 کو بین گوریان نے امریکی صدر آئزن ہاور کو ایک ذاتی خط لکھا، جس میں مشرق وسطیٰ میں ناصریت اور کمیونزم کے پھیلاؤ پر تشویش ظاہر کی اور امریکہ سے اسرائیل کی حمایت کی درخواست کی تاکہ مغربی مفادات کا تحفظ ممکن ہو سکے۔‘
پارسی لکھتے ہیں کہ صدر آئزن ہاور نے اسرائیل کی یہ درخواست قبول کی اوران ممالک کے ساتھ اشتراک یا ’پیریفری الائینس‘ کے لیے امریکی حمایت دے دی۔
’ڈی کلاسیفائی یا غیرخفیہ کی گئی امریکی دستاویزات سے علم ہوتا ہے کہ ’اسرائیل نے محسوس کیا کہ وہ اور غیرعرب پڑوسی ممالک ایک جیسے ہیں کیونکہ وہ سب عرب طاقت کے ابھرنے اور سوویت حمایت سے خائف تھے، ان کے امریکہ سے قریبی تعلقات تھے اور وہ بین الاقوامی اہمیت کی حامل سمندری گزرگاہوں کے قریب واقع تھے۔‘
پارسی لکھتے ہیں کہ ’اسرائیل نے بالآخر ترکی اور ایتھوپیا کے ساتھ تقریباً مکمل سفارتی تعلقات قائم کر لیے۔ ایران سے تعلقات نسبتاً سست رفتاری اور احتیاط سے آگے بڑھے، جس کی بڑی وجہ شاہِ ایران کی اپنے عوام کے اسلامی جذبات کے بارے میں حساسیت تھی۔ اس کے باوجود، اسرائیل اور ایران نے نمائندے مقرر کیے جنھیں سفارتی مراعات حاصل تھیں۔‘
ایران اسرائیل تیل تعاون: سویز کے متبادل کی تعمیر
ایران اور اسرائیل کے درمیان ہم آہنگی صرف مشترکہ خطرات تک محدود نہ تھی۔
پارسی لکھتے ہیں کہ ’اسرائیل کی تیز رفتار معاشی ترقی اور عرب ممالک کی طرف سے اسرائیل کو تیل بیچنے سے انکار نے اسرائیل کو مجبور کر دیا کہ وہ ایران جیسے تیل کی دولت سے مالامال ملک کا در کھٹکھٹائے۔‘
’سنہ 1956کے سویز بحران کے بعد، ایران نے اسرائیل کی مدد سے ایک آٹھ انچ قطر کی تیل پائپ لائن ایلات سے بیئرشیبہ اور پھر بحیرہ روم تک تعمیر کی، جس نے خلیج عقبہ کو بحیرہ روم سے جوڑ دیا۔ یہ پائپ لائن سویز نہر پر انحصار کم کرنے کے لیے بنائی گئی تھی، کیونکہ اُس وقت ایران کی 73 فی صد درآمدات اور 76 فی صد برآمدات سویز سے گزرتی تھیں۔‘
پارسی لکھتے ہیں کہ ’یہ معاہدہ تل ابیب کے مضافات میں ایران کی نیشنل آئل کمپنی کے نمائندے کے خفیہ دورے میں طے پایا، اور صرف 100 دن میں پائپ لائن مکمل ہو گئی۔‘
’سنہ 1958میں وزیرِ اعظم لیوی اشکول اور شاہ ایرانکی ملاقات کے بعد اسے 16 انچ پائپ میں اپ گریڈ کیا گیا۔ یہ شاہ اور کسی اسرائیلی وزیرِ اعظم کی پہلی براہ راست ملاقات تھی۔‘
پارسی لکھتے ہیں کہ ’اگرچہ دونوں ممالک نے اس معاہدے کو کبھی تسلیم نہ کیا، مگر یہ تعلق ایک ’کھلا راز‘ بن چکا تھا، جس پر عرب دنیا شدید تنقید کرتی تھی۔‘
’شاہ کو عربوں کے ردعمل کا اندیشہ تھا، اس لیے واشنگٹن نے اس پراجیکٹ کی حمایت صرف اس یقین دہانی پر کی کہ ایران کے مالی مفادات، عربوں کی ناراضی کے اندیشے سے زیادہ اہم ہیں۔‘
پارسی کے مطابق ’اگر ایران مصر اور عراق کے لیے کمزور ہو جاتا، تو عرب اتحاد کو تقویت مل سکتی تھی اور عراق کے فوجی دستے اسرائیل پر حملے کے لیے آزاد ہو جاتے۔‘
’اسی لیے اسرائیلی انٹیلی جنس نے ایران کو مصر اور عراق کے فوجی منصوبوں کی تفصیل فراہم کی۔‘
پارسی لکھتے ہیں کہ ’تاہم 1960 کی دہائی کے آخر تک وہ تزویراتی تناظر کمزور پڑنے لگا، کیونکہ 1967 کی جنگ نے اسرائیل کو ایک جارح ریاست میں ڈھال دیا جو ایران کے لیے خطرہ بن سکتی تھی۔ یہ گمان شاہ کے لیے ناقابلِ قبول تھا اور انھوںنے اسرائیلسےکچھہاتھ کھینچا۔‘
مگر امریکی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں دونوں ممالک کے درمیان قریبی معاشی اور دفاعی تعلقات قائم ہوئے۔
پارسی لکھتے ہیں کہ ’ایران اسرائیل کو خام تیل فراہم کرنے والا اہم ترین ملک بن گیا، یہاں تک کہ اسرائیل نے عربوں کے خلافچھ روزہ جنگ میں سینا کے تیل کے کنویں حاصل کر لیے۔ جب 1975 میں اسرائیل نے ’سینا معاہدوں‘ کے تحت وہ کنویں مصر کو واپس کر دیے، تو ایران دوبارہ اسرائیل کا سب سے بڑا تیل فراہم کرنے والا ملک بن گیا اور شاہِ ایران کے زوال (1979) تک اسرائیل کی 70 فیصد تیل کی ضرورت پوری کرتا رہا۔‘
پارسی لکھتے ہیں کہ تہران میں اسرائیلی مشن کی موجودگی بہت نمایاں تھی، لیکن اس کے پرچم کو سرکاری عمارت پر نہیں لہرایا جاتا تھا اور اسرائیلی سفارتکار رسمی تقریبات میں شریک نہیں ہوتے۔ مگر تمام عملی امور میں یہ مشن کسی بھی سفارتخانے کی طرح مؤثر طریقے سے کام کرتا تھا۔‘
’اسرائیلی مشن کے سربراہ کو عموماً ’اسرائیل کے سفیر برائے ایران‘ کہا جاتا تھا، اور 1970 کی دہائی میں اسے شاہ تکآسان رسائی حاصل تھی۔ اسرائیلی عہدیدار بار بار ایران آتے اور شاہ سے ملاقاتیں کرتے، بعض اوقات ایران کی وزارتِ خارجہ کو بتائے بغیر۔ یہ شراکت ایران کے لیے فوجی فائدے لیتی تھی، مگر عرب محالفت کے خوف سے عوامی توجہ سے بچتی تھی۔‘
دفاعی تعاون
امریکی دستاویزات کے مطابق ’اسرائیل نے شاہِ ایران کے دور میں ایران کو باقاعدگی سے اسلحہ فروخت کیا، جن میں بنیادی طور پر چھوٹے ہتھیار، مارٹر اور گولہ بارود شامل تھے؛ ایرانی فضائیہ اور فوج کے لیے انجن کی مرمت اور دیکھ بھال کی سہولت فراہم کی؛ اور ایران کی دفاعی صنعت کو تکنیکی مدد فراہم کی۔‘
’یہ اسلحہ فروخت اسرائیل کی دفاعی صنعت کے لیے بڑا سہارا بنی، اور تیل کے بدلے ہتھیاروں اور تکنیکی امداد کی بارٹر ڈیلز اسرائیل کے لیے انتہائی اہم بن گئیں۔‘
ایران اور اسرائیل کے درمیان دوستی ’خونیں دشمنی‘ میں کیسے بدلیایران نے اپنے سابقہ اتحادی اسرائیل پر حملہ کیوں کیا؟متنازع نقشے پر سعودی عرب، فلسطین اور عرب لیگ کی مذمت: ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ یا کوئی ٹھوس منصوبہریموٹ کنٹرولڈ میزائل، پرزوں کی سمگلنگ اور ڈرون فیکٹریاں: ایران کے اندر اسرائیل کا خفیہ آپریشن جس کی تیاری مہینوں سے کی جا رہی تھیعراق میں کُرد باغیوں سے خفیہ تعاون
پارسی لکھتے ہیں کہ ’سنہ 1960کی دہائی کے اوائل میں، عراق میں کُرد لیڈر ملا مصطفیٰ برزانی نے عراقی فوج کے خلاف لڑنے کے لیے اسرائیل سے فوجی تعاون طلب کیا۔‘
’اسرائیل بغداد کو کمزور کرنا چاہتا تھا، مگر موساد نے جلد سمجھ لیا کہ اس تعاون کے لیے ایران کو شامل کرنا ناگزیرہے۔ امریکہ کو بھی خفیہ اطلاع دی گئی اور محدود مدد فراہم کرنے کی منظوری ملی۔ ایران نے بھی اس تعاون کو عوامی نگاہوں سے مخفی رکھا۔ اور پہلا معاہدہ مئی 1965 میں برزانی کے صدر دفتر میں ہوا۔‘
پارسی لکھتے ہیں کہ ’شاہ کے رازدار ادارے ساواک کے اہلکار، روایتی کُرد پوشاک میں ملبوس، اسرائیلی افسران کے ساتھ عراقی حدود عبور کرکے برزانی کے کیمپ پہنچے۔ اسرائیل نے کُرد فوجیوں کو تربیت، ہتھیار اور فنڈ فراہم کرنا شروع کیا۔‘
’یہ ساری سپلائی ساواک کے ذریعے ایران سے عراق کے کُرد علاقوں تک پہنچائی گئی جس میں ہتھیار، طبی سازوسامان، ڈاکٹر اور انسٹرکٹرز شامل تھے۔‘
علم، زراعت اور مہارت کی منتقلی
ایران اور اسرائیل، دونوں کی خشک زمینوں نے انھیں زراعت میں ایک دوسرے کا فطری حلیف بنا دیا۔
سابق اسرائیلی وزیرِ محنت آریا ایلیاؤ کے مطابق اسرائیل نے تقریباً دس ہزار ایرانی زرعی ماہرین کو تربیت دی۔
ایران کی امریکہ سے قربت
پارسی لکھتے ہیں کہ سوویت یونین سے متعلقشاہ کے خدشات نے ایران کو امریکہ کے قریب کر دیا کیونکہ شاہ چاہتے تھے کہ کوئی طاقتور مغربی ملک انھیں تحفظ دے۔
ان کے مطابق برطانیہ کے انخلا نے خطے میں خلا چھوڑا تھا، امریکہ نے خلیجِ فارس کی سلامتی ایران کو سونپ دی۔ یہ شاہ کی سفارتی حکمت عملی کی کامیابی تھی۔
پارسی کے مطابق مئی 1972 میں صدر نکسن اور قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسینجر کے تہران دورے کے دوران شاہ نے امریکہ کو کُرد باغی خفیہ منصوبے میں بڑے پیمانے پر شامل ہونے پر آمادہ کیا۔ جلد ہی امریکی مالی مدد بھی عراق کے کُردوں کے لیے فراہم کی جانے لگی۔
پارسی نے یعقوب نِمرودی (ایک اسرائیلی تاجر اور انٹیلیجنس افسر) کے حوالے سے لکھا کہ ’اسرائیلی دستے عراق کے کُرد علاقوں میں موجود تھے۔ وہ تربیت دیتے اور معرکوں میں رہنمائی کرتے، البتہ خود زیادہ لڑائی میں حصہ نہیں لیتے تھے۔ ایران نے بھی ساواک کے ساتھ مل کر ایک اینٹی ایئرکرافٹ بیٹلین اور ایک آرٹلری یونٹ تعینات کی مگر وہ بھی محاذِ جنگ پر براہِ راست نہیں لڑے۔‘
مارچ 1975 میں اچانک ایران نے یہ تعاون روک دیا، جس سے اسرائیل کی عراق پر دباؤ کی پالیسی متاثر ہوئی۔
1977 میں مناخیم بیگن کی قیادت میں لیکوڈ پارٹی کی حکومت آئی، جو اسرائیل کے نکتہ نظر میں سخت پالیسیوں کی حامل تھی۔ اس سیاسی تبدیلی نے ایران اسرائیل تعلقات میں کشیدگی پیدا کی۔
امریکہ نے اس تبدیلی کو ایک اہم نقصان کے طور پر دیکھا، کیونکہ ایران خلیجِ فارس میں استحکام فراہم کرنے والا ایک کلیدی اتحادی بن چکا تھا۔
’اسرائیل، ایران ، اینڈ دی یونائیٹڈ سٹیٹس: اے پریکییریئس الائنس‘ کے عنوان کے تحت رائے جے ایلس ورتھ کی تحقیق ہے کہ ایران اسرائیل کو خام تیل فروخت کرتا اور بدلے میں اس سے تکنیکی تعاون، امریکی ہتھیاروں تک رسائی، اور انٹیلی جنس مدد حاصل کرتا۔‘
رائے جے ایلس ورتھ نے لکھا ہے کہ ’سارا معاملہ شاہ کے خفیہ ادارےساواککے ذریعے اسرائیلی خفیہ ایجنسیموساد کے ساتھ طے پاتا، تاکہ عرب دنیا کو ناراض کیے بغیر تعلقات رکھے جا سکیں۔ ایرانی سفارتکار ترکی کے راستے اسرائیل آتے، مگر ان کے پاسپورٹ پر مہر نہیں لگتی تھی۔‘
تجارت فروغ پاتی رہی؛ اسرائیلی تعمیراتی کمپنیاں اور انجینئرز ایران میں سرگرم تھے۔ اسرائیل کی قومی ایئرلائن کی تہران تل ابیب پروازیں بھی چلتی تھیں۔
ایلات اشکلون پائپ لائن(خفیہ اسرائیلی ایرانی آئل پراجیکٹ) اور پروجیکٹ فلاور: ایران اسرائیل مشترکہ میزائل پروگرام، جس میں اسرائیل کاجریکو-2میزائل شامل تھا، وہ منصوبے تھے جو شاہ کے زوالاور انقلابِ ایران تک جاری رہے۔
امریکیدستاویزات میں لکھا ہے کہ ’سابق اعلیٰ اسرائیلی سفارتکار جدعون رافائیل کے مطابق، اسرائیل کو خدشہ تھا کہ اگر شاہ کا اقتدار ختم ہو گیا اور خلیج میں سوویت اثر و رسوخ بڑھا تو امریکہ عرب ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش میں اسرائیل پر 1967 کی جنگ میں قبضہ کی گئی زمینیں واپس کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکتا ہے۔‘
اسرائیل ایران کا مقروض اور قانونی تنازع
اسرائیلی صحافی الُف بین نے ہارٹز میں لکھا ہے کہ سنہ 1979میں انقلاب سے قبل اسرائیل ایران کا تقریباً ایک ارب ڈالر کا مقروض تھا۔
الُف بین نے لکھا ’یہ رقم تیل کی خریداری اور پائپ لائن منصوبوں سے جڑی ہوئی تھی، جن میںایرانی آئل کمپنیاور اسرائیلی ادارے شریک تھے۔‘
’اسرائیل نے1979 میں فیصلہ کیا کہ وہ یہ قرض واپس نہیں کرے گا اور متعلقہ کمپنیوں کو قانونی تحفظ دے دیا۔ ایک اسرائیلی بینک اکاؤنٹ میںکم از کم 250 ملین ڈالر ایرانی رقم اب بھی موجود ہے۔‘
الُف بین نے لکھا ’سنہ 1980 کی دہائی سے ایران یورپی عدالتوں میں مقدمے دائر کر رہا ہے اور کئی میں کامیابی حاصل کی۔ لیکن عالمی پابندیاںاور اسرائیل کا ایران کو’دشمن ریاست‘قرار دینا، ادائیگی میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔‘
’مئی 2015 میںایکسوئس عدالت نے اسرائیل کی ایلات–اشکلون کمپنی کو 1.1 ارب ڈالر ادا کرنے کا حکم دیا،مگر اسرائیل نے انکار کر دیا۔‘
انقلاب اور پھر احمد کاشانی کا دورہ
سنہ 1979کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران نے اسرائیل کی مخالفت اختیار کر لی۔ ایرانی یہودیوں پر دباؤ بڑھا اور اسرائیلی مشن پر حملہ ہوا۔
شاہیت ختم ہوئی تو ایران اور امریکہ کے تعلقاتکشیدہ ہوگئے۔ لیکن اسرائیل کی جانب کھڑکی ابھی خفیہ طورپر کھلی تھی۔
پارسی کے مطابق ’سنہ 1980 کے اوائل میں مجلس شوریٰ اسلامی کے رکناحمد کاشانی نے اسرائیل کا خفیہ دورہ کیا۔ دورے کے نتیجے میں اسرائیل سے فینٹم جنگی طیاروں کے لیے ٹائر اور ایران کی فوج کے لیے ہتھیار خرید لیے۔ اس اقدام سے امریکہ سخت ناراض ہوا اور صدر کارٹر نے جزوی پابندیاں بھی لگائیں۔‘
آیت اللہ خمینی نے اس پر جواب میں ایرانی یہودیوں کو اسرائیل جانے کی اجازت دے دی۔ ہزاروں افراد پاکستان پہنچے، وہاں سے آسٹریا گئے اور بعد ازاں امریکہ یا اسرائیل ہجرت کر آئے۔
پارسی کہتے ہیں کہ سنہ 1980 کی دہائی میں عراق کے خلاف جنگ اور اسرائیلی ہتھیاروں کی ضرورتکے باعث، ایران نے پسِ پردہ اسرائیل سے دوبارہ روابط استوار کیے۔
پارسی کے مطابق اسرائیل نے آپریشن سی شیلکے ذریعے جس میں ارجنٹائنی ہوائی جہاز استعمال کیے گئے، امریکی اسلحے کی ایران کو خفیہ فراہمی شروع کی۔ یہ سب امریکا کی نظر سے چھپایا گیا مگر بعد میں یہ سکینڈل سامنے آگیا۔
تل ابیب یونیورسٹی کی تحقیق ہے کہ سنہ 1981سے 1983کے درمیان، اسرائیل نے ایران کو تقریباً 500 ملین ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے جن میں سے بیشتر کی ادائیگی ایرانی تیلسے ہوئی۔
پارسی نے احمد حیدری جو خمینی حکومت کے لیے بطور اسلحہ ڈیلر کام کر رہے تھے، کےحوالے سے لکھا کہ ’ایران نے جنگ کے آغاز پر جو ہتھیار خریدے، ان کا 80 فیصد اسرائیل سے آیا تھا۔‘
صحافی جان بلوخ اور ہاروے مورس اپنی کتاب ’دی گلف وار: اٹس ہسٹری اینڈ کانسی کونسز‘ میں لکھتے ہیں کہ ’جنگ کے دوران کم از کم 100 اسرائیلی تکنیکی ماہرین اور مشیرتہران کے شمال میں ایک خفیہ کیمپ میں مقیم رہے حتیٰ کہ جنگ بندی کے بعد بھی۔‘
وزیر اعظم ایریل شیرون کا مؤقف تھا کہ ایران کے ساتھ مستقبل کے تعلقات کے لیے ’چھوٹی سی کھڑکی کھلی رکھنی چاہیے۔‘
تریتا پارسی کے مطابق ’ایران کو اچانک ایک خطرہ بنا کر پیش کرنا زیادہ تر اسرائیلی داخلی سیاست اور عربوں کے ساتھ امن کے بیانیے سے جڑا ہوا تھا۔‘
پارسی نے لکھا کہ ’ایران نہیں بدلا، دنیا بدل گئی۔ اسرائیل کو ایک وجودی دشمن درکار تھا اور عراق کے بعد ایران اس خلا کو پُر کرنے لگا۔‘
ایران اور اسرائیل کے درمیان دوستی ’خونیں دشمنی‘ میں کیسے بدلیمتنازع نقشے پر سعودی عرب، فلسطین اور عرب لیگ کی مذمت: ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ یا کوئی ٹھوس منصوبہریموٹ کنٹرولڈ میزائل، پرزوں کی سمگلنگ اور ڈرون فیکٹریاں: ایران کے اندر اسرائیل کا خفیہ آپریشن جس کی تیاری مہینوں سے کی جا رہی تھیایران اسرائیل تنازعے میں امریکی صدر ٹرمپ کیا اقدامات اٹھا سکتے ہیں؟اکثریتی شیعہ آبادی کے باوجود آذربائیجان ایران کے بجائے اسرائیل کے زیادہ قریب کیوں ہے؟ایران کی اسرائیل کے خلاف کارروائی کی دھمکی: ایران اور حماس کے درمیان تعلقات اتنے گہرے کیسے ہوئے؟