’یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی‘: ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے بعد بی بی سی نے تہران میں کیا دیکھا؟

بی بی سی اردو  |  Jun 28, 2025

Getty Images

شدید گرم دوپہر میں ایران کے دارالحکومت تہران کے دل میں واقع ایک کیفے کے اندر گاہکوں کو ٹھنڈے مشروب پلائے جا رہے ہیں۔

یہ یہاں دستیاب سب سے زیادہ مشہور آئس امریکانو کافی ہے۔ یہ کیفے برسوں سے بند امریکی سفارتخانے کے ایک کونے میں واقع ہے۔

سیمنٹ سے تعمیر کی گئی اس کی بلند دیواروں پر امریکہ مخالف تصاویر بنی ہوئی ہیں۔ یہ تصاویر ان دیواروں پر تب سے ہی موجود ہیں جب سنہ 1979 میں ایرانی انقلاب کے موقع پر امریکی سفارتخانے کے عملے کو یرغمال بنا لیا تھا۔

اس واقعے کے بعد آج تک ایران اور امریکہ کے بیچ تعلقات خراب رہے ہیں۔

اس کیفے میں ملازمت کرنے والے ویٹر عامر کہتے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ اور ایران کے درمیان تعلقات بہتر ہو جائیں۔

ایک گلاس میں کافی ڈالتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’امریکی پابندیوں نے ہمارے کاروبار کو نقصان پہنچایا ہے اور ہمارے لیے دنیا میں سفر کرنا مشکل ہو گیا ہے۔‘

ایران، اسرائیل اور مشرقِ وسطیٰ سے متعلق خبریں اب آپ کے فون پر: بی بی سی اردو کے واٹس ایپ چینل پر جانے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

اس کیفے میں صرف دو ہی میزوں پر لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک میز پر سیاح برقعے میں ملبوس ایک خاتون بیٹھی ہیں جبکہ دوسری میز پر بلیو جینز میں ملبوس ایک خاتون اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ بیٹھی ہیں۔

یہ ایرانی دارالحکومت کے ایک چھوٹے سے حصے کی منظر کشی ہے جس کا مستقبل بے یقینی سے دوچار ہے۔

اسی مقام سے کچھ ہی دور ایران کے سرکاری میڈیا کی عمارتیں موجود ہیں جہاں سے جمعرات کو رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کا ریکارڈ شدہ ویڈیو بیان چلایا گیا تھا۔

انھوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ ’امریکی ابتدا سے ہی اسلامی جمہوریہ ایران کے مخالف رہیں گے۔‘

ایرانی رہبرِ اعلیٰ کا مزید کہنا تھا کہ ’معاملہ اصل میں یہ ہے کہ: وہ ہم سے سرینڈر چاہتے ہیں۔‘

کہا جاتا ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد آیت اللہ علی خامنہ ای نے کسی خفیہ بنکر میں پناہ لے لی تھی۔

منگل کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جنگ بندی کے اعلان کے بعد ہم نے ایرانی رہبرِ اعلیٰ کی تقریر ایران کے سرکاری ٹی وی چینل کے دفتر میں ایک چھوٹے سے ٹی وی پر دیکھی تھی۔

کیا خفیہ بنکر سے نکلنے والے ایرانی رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کے سامنے نیا اور مختلف ایران ہوگاپُراسرار نقل و حرکت، سرمئی دھول اور ملبے کے آثار: امریکی حملے میں ایرانی جوہری تنصیبات کو کتنا نقصان ہوا؟افزودہ یورینیئم کہاں گئی؟ ایران اسرائیل جنگ بندی کے باوجود وہ سوال جو امریکی صدر ٹرمپ کے سامنے اب بھی موجود ہیںوہ شخص جسے اسرائیل کے جوہری پروگرام کا راز افشا کرنے پر دو دہائیاں جیل میں گزارنا پڑیں

جنگ کے دوران اسرائیل نے عمارتوں کو بھی نشانہ بنایا تھا اور اب وہاں کچھ عمارتوں کی جگہ صرف سٹیل کا ڈھانچہ نظر آ رہا تھا۔

جب اسرائیل نے 16 جون کو آئی آر آئی بی میڈیا کمپلیکس کو نشانہ بنایا تو اس وقت وہاں مرکزی سٹوڈیو میں بھی آگ لگ گئی تھی۔ شاید اس سٹوڈیو سے ہی آیت اللہ خامنہ ای کی تقریر نشر کی جانی تھی لیکن اب اس سٹوڈیو میں صرف راکھ رہ گئی تھی۔

اس مقام پر اب عجیب سی بو پھیلی ہوئی ہے، سب ساز و سامان جیسے کہ کیمرے، لائٹس اور ٹرائپوڈز جل چکے ہیں۔ فلور پر دور دور تک شیشے کے ٹکڑے پھیلے ہوئے ہیں۔

اسرائیل کا اس وقت کہنا تھا کہ انھوں نے ایران کی پروپیگنڈا مشین کو نشانہ بنایا ہے جو کہ عسکری کاموں کے لیے استعمال ہو رہی تھی۔ تاہم ایران صحافی اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔

سرکاری ٹی وی سٹیشن میں نظر آنے والا منظر ایران کے ایک سیاہ دور کی یاد دلاتا ہے۔

'مجھے ڈر ہے اسرائیل دوبارہ حملہ کرے گا'

اس سیاہ دور کا ایک عکس آپ کو تہران کے ہسپتالوں میں بھی نظر آتا ہے جہاں 12 دن جاری رہنے والی جنگ کے زخمی اب بھی زیرِ علاج ہیں۔

تہران کے طلقانی جنرل ہسپتال کے محکمہ ایمرجنسی میں میری ملاقات اشرف بارغی نامی ہیڈ نرس میں ہوئی۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ’مجھے ڈر ہے کہ وہ (اسرائیل) دوبارہ حملہ کرے گا۔‘

’ہمیں اس بات پر یقین نہیں ہے کہ یہ جنگ اب ختم ہو چکی ہے۔‘

جب اسرائیل نے 23 جون کو اوین جیل پر حملہ کیا تھا تو وہاں زخمی ہونے والے فوجی اہلکاروں اور عام شہریوں کو اشرف بارغی کے محکمہ ایمرجنسی میں ہی طبی امداد دینے کے لیے لایا گیا تھا۔

ہیڈ نرس کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنے 32 سالہ کیریئر میں اتنے گہرے زخم نہیں دیکھے تھے۔‘

اوین ایک بدنام زمانہ جیل ہے جہاں سیاسی قیدی بھی قید ہیں۔ اس جیل پر حملہ بظاہر اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نتن یاہو کا ایرانی عوام کو ایک پیغام ہی لگ رہا تھا کہ ’اپنی آزادی کے لیے اُٹھ کھڑے ہو۔‘

طلقانی ہسپتال کے ایک بیڈ پر اوین جیل میں ملازمت کرنے والے مرتضیٰ بھی موجود تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے صرف فوج اور جوہری مقامات کو نشانہ بنایا ہے۔ لیکن یہ سب جھوٹ ہے۔‘

جب اسرائیلی میزائل اوین جیل کی عمارت سے ٹکرایا تو مرتضی وہاں شعبہ ٹرانسپورٹ میں اپنے کام میں مشغول تھے۔ انھوں نے ہمیں اپنے دونوں ہاتھوں اور کمر پر آنے والے زخم بھی دکھائے۔

اس سے اگلے ہی وارڈ میں ایرانی فوجی اہلکار زیرِ علاج تھے لیکن ہمیں اس وارڈ میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔

دور تک پھیلے ہوئے اس ایرانی دارالحکومت میں اب بھی ایرانی شہری اس جنگ کی قیمت کے بارے میں سوچ بچار کر ہے ہیں۔ ایران کی وزارتِ صحت کے مطابق اس جنگ میں 627 افراد ہلاک اور تقریباً 5000 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

ایرانی حکمرانوں کے ناقد اور حامی دونوں ملک کے مستقبل کے لیے فکرمند

تہران میں بظاہر آہستہ ہی سہی لیکن زندگی معمول پر آ رہی ہے۔ یہاں سڑکوں پر ایک مرتبہ پھر ٹریفک نظر آنے لگا ہے۔

جنگ کے دوران بمباری کے سبب تہران چھوڑنے والے شہری بھی واپس اب تہران آ رہے ہیں اور یہاں بازار بھی دوبارہ کُھلنے لگے ہیں۔

جنگ کے دوران بمباری کو یاد کرتے ہوئے نوجوان خاتون مینا کہتی ہیں کہ ’وہ اچھے دن نہیں تھے، ہمارے دل ٹوٹے ہوئے ہیں۔‘

’ہم نے اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے سخت محنت کی ہے لیکن اب ہمیں اپنا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔‘

Getty Imagesاسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی کے بعد تہران میں زندگی معمول پر آ رہی ہے

میری ان سے ملاقات تہران کے مشہور زمانہ آزادی ٹاور پر ہوئی تھی۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد یہاں تہران سمفونی آرکیسٹرا میں ملّی نغمے سننے جمع ہوئی تھی۔

اس کنسرٹ کو منعقد کرنے کا مقصد شہر میں پُرسکون فضا کو بحال کرنا تھا۔

یہاں پر ایران کے مذہبی حکمرانوں کے حامی اور مخالف دونوں ہی ایک ساتھ موجود تھے اور مشترکہ طور پر ملک کے مستقبل کے بارے میں سوچ کر فکر مند تھے۔

جب میں نے علی رضا نامی ایک شہری سے پوچھا کہ وہ اپنی حکومت کو کیا مشورہ دینا چاہیں گے تو انھوں نے کہا کہ ’انھیں عوام کی بات سننا پڑے گی۔ میں بس یہ کہنا چاہوں گا کہ ہمیں زیادہ آزادیاں چاہییں۔‘

یہاں ہمیں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے جذبات بھی سُننے کو ملے۔ 18 سالہ حمید کہتے ہیں کہ ’ہماری جوہری تنصیبات پر صرف اس لیے حملہ کرنا تاکہ ہم آپ کے کہہ پر عمل کر سکیں یہ بات سفارکاری کے اصولوں کے خلاف ہے۔‘

ایران کے عوام دہائیوں سے پابندیاں اور اصولوں تلے زندگیاں گزار رہے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی یہاں لوگ اپنے دل کی بات کہہ ہی دیتے ہیں۔ اب انھیں انتظار ہے کہ ان کے اپنے ایرانی حکمران اور واشنگٹن میں بیٹھے ہوئے مغربی رہنماؤں کے آئندہ اقدامات کیا ہوں گے۔

ان ہی رہنماؤں اور حکمرانوں کے فیصلے ایرانی عوام کی زندگیوں پر اثر انداز ہوں گے۔

’ایک نوبیل انعام پاکستانی عوام کے لیے‘دوحہ کے قریب واقع امریکی اڈے العدید پر ایرانی میزائل حملے کے مناظرکیا ٹرمپ کا داؤ ایران اور اسرائیل کے بیچ میزائلوں کا تبادلہ روک پائے گا؟’امریکہ اور ایران دونوں کے لیے اگلا مرحلہ زیادہ فیصلہ کن ہو سکتا ہے‘جب تیل سے مالا مال دبئی، ابوظہبی اور عمان پاکستان یا انڈیا کا حصہ بنتے بنتے رہ گئے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More