دبئی میں ہوٹل سے غائب ہونے والے برطانوی شہری کے ایئرپوڈز پنجاب پولیس نے جہلم سے کیسے برآمد کیے؟

بی بی سی اردو  |  Jun 30, 2025

دستیاب سُراغ صرف ایئرپوڈز کی لوکیشن کا تھا اور ڈھونڈنے کے لیے سارا شہر۔۔۔

اس کہانی کی ابتدا دبئی میں لگ بھگ ایک سال قبل اُس وقت ہوئی جب ایک برطانوی شہری مائلز کے ایئر پوڈز ایک ہوٹل سے غائب ہو گئے اور ایک سال بعد اُن کی لوکیشن پاکستان میں صوبہ پنجاب کے شہر جہلم میں پائی گئی۔

مائلز نے اپنی ڈیوائس حاصل کرنے کے لیے پاکستان کی حکومت اور پنجاب پولیس سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ کے ذریعے رابطہ کیا۔ پنجاب پولیس کی جانب سے ایک انوکھی ترکیب اپنائی گئی اور مائلز نے اپنے پسندید ایئرپوڈز لینے کے لیے خود 2700 کلومیٹر کا سفر کر کے پاکستان آنے کی ٹھانی۔

آپ بی بی سی اُردو کے واٹس ایپ چینل پر تازہ ترین خبریں پڑھ سکتے ہیں: یہاں کلک کیجیے

لیکن یہ ایئر پوڈز جہلم شہر تک کیسے پہنچے اور پولیس نے ان کا سراغ کیسے لگایا؟ بی بی سی نے اس تحریر میں جہلم کی پولیس اور یہ ایئرپوڈز دبئی سے پاکستان لانے والے شخص سے بھی تفصیل سے بات کی ہے۔

’باریک بینی سے تلاش کا کام کیا گیا‘

https://twitter.com/real_lord_miles/status/1928090744452976775

جہلم کے ڈسڑکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) طارق عزیز کہتے ہیں کہ برطانوی شہری مائلز کی جانب سے چند دن قبل پنجاب پولیس، جہلم پولیس اور حکومت پاکستان کو ایکس پر ٹیگ کر کے کہا گیا تھا کہ اُن کے دبئی میں گُم ہونے والے ایئر پوڈ اِس وقت پاکستان کے شہر جہلم میں موجود ہیں۔

طارق عزیز کے مطابق ’اس پر جہلم پولیس نے ایکس ہی پر اُن سے رابطہ قائم کیا اور ان سے مزید معلومات حاصل کی گئیں۔‘

طارق عزیز کہتے ہیں کہ ’مائلز ابتدائی طور پر تو جہلم کی لوکیشن بتا رہے تھے۔ ان سے وہ لوکیشن حاصل کر کے خود جدید طریقے سے تفتیش کی گئی۔ ایک دفعہ جب لوکیشن سمجھ میں آ گئی تو اس وقت لوکیشن پر موجود ہزاروں افراد سے انٹرویو اور تلاش کا کام ممکن نہیں تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایئر پوڈ مبینہ طور پر دبئی میں گم یا چوری ہوئے تھے۔ پولیس نے مزید ٹریکنگ کا کام کیا اور ایک مخصوص آبادی کی نشان دہی ہوئی کہ اس مقام پر ایئر پوڈز ہو سکتے ہیں۔۔۔ اس کے بعد ہم نے انسانی ذرائع استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔‘

طارق عزیز کہتے ہیں کہ ’ایک خصوصی تفتیشی ٹیم کو ٹاسک سونپا گیا کہ وہ اس مخصوص علاقے میں پتا کریں کہ اس علاقے میں حالیہ دنوں میں کون کون دبئی سے واپس آیا ہے۔ ان لوگوں کے نام، پتے حاصل کر کے ان سے انٹرویو کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔‘

’ایئر پوڈز خریدے گئے تھے‘

طارق عزیز کہتے ہیں کہ ’مخصوص لوکیشن میں سے جو لوگ دبئی سے آئے تھے انھوں نے اس بات سے انکار کیا کہ ان کے پاس ایئر پوڈز موجود ہیں۔ مگر جب ہماری تفتیشکے مطابق مرتب کردہ فہرست میں دبئی سے واپس آنے والے آخری شخص سے بات ہوئی تو انھوں نے ایئر پوڈز کی بات سنتے ہی ایک دم کہا کہ انھوں نے دبئی سے ایئر پوڈز خریدے تھے۔‘

پولیس کے مطابق اُس شخص نے ’خریداری کا ثبوت بھی دکھایا اور یہ بھی بتایا کہ انھوں نے کس سے اسے خریدا تھا۔ پولیس نے خریداری کے یہ سارے ثبوت مائلز کو دکھائے، جس کے بعد مائلز نے خود ہی ایکس پر پوسٹ کر دیا کہ ان کے ایئر پوڈز مل گئے ہیں۔‘

طارق عزیز کا کہنا تھا کہ ’جس شخص سے یہ ایئر پوڈز ملے جب انھوں نے برطانوی شہری مائلز کی انھیں تلاش کرنے کی کہانی سنی تو وہ مسکرائے اور یہ ایئر پوڈز رضاکارانہ طور پر یہ کہتے ہوئے ہمارے حوالے کر دیے کہ اگر ایک شخص ایئر پوڈز کے لیے اتنا جذباتی ہو رہا ہے تو انھیں یہ واپس کرتے ہوئے خوشی ہو گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے دوبارہ مائلز سے رابطہ قائم کیا اور انھیں کہا کہ اگر وہ چاہیں تو پولیس ان کے لیے کسی کوریئر سروس کے ذریعے یہ ایئرپوڈز واپس پہنچا سکتی ہے مگر انھوں نے انکار کیا اور کہا کہ وہ خود لینے آئیں گے اور پھر وہ جہلم ہمارے دفتر آئے۔‘

’سوچا نہیں تھا کہ ایک حیرت انگیز کہانی کا حصہ بنوں گا‘

مائلز کے ایئر پوڈز رضاکارانہ طور پرر واپس کرنے والے پاکستانی شہری حالیہ دنوں میں چھٹیاں گزارنے جہلم آئے تھے اور واپس جانے سے ایک دن پہلے انھوں نے یہ ایئر پوڈز پولیس کو دیے۔

مذکورہ پاکستانی اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب مجھے پتا چلا کہ دبئی سے خریدے گئے ایئرپوڈز برطانوی شہری کے ہیں اور وہ اِن کو پانے کے لیے بہت بے تاب ہیں تو اس وقت میں بہت پریشان ہوا کہ کہیں مجھ پر اس کی چوری کا الزام نہ لگ جائے۔‘

’مگر شکر ہے کہ میرے پاس ایسے ثبوت موجود تھے کہ یہ میں نے خریدے تھے۔ میں نے یہ ثبوت پولیس کے حوالے کر دیے۔‘

چوری کی انوکھی واردات جس کے بعد راولپنڈی پولیس کباڑ خانوں پر چھاپے مار رہی ہےدو گھنٹوں میں 28 ملکوں سے 14 ملین ڈالر کی چوری کی انوکھی اور پیچیدہ واردات

شہری کا کہنا تھا کہ ’حقیقت بھی یہی ہے کہ دبئی کے جس ہوٹل سے یہ ایئرپوڈز گم ہوئے تھے میرا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ میں تو کبھی اس ہوٹل میں گیا بھی نہیں۔ دبئی میں میرے کام کی نوعیت ہوٹل اور ریستوران سے منسلک نہیں ہے۔ مگر جس شخص سے میں نے یہ ایئرپوڈز خریدے تھے وہ ہوٹل میں ہاؤس کیپنگ کا پارٹ ٹائم کام کرتا تھا۔‘

شہری کا کہنا تھا کہ ’مجھے پولیس کے ذریعے سے بعد میں یہ آفر بھی ملی کہ وہ شخص اس کی رقم ادا کرنے کو تیار ہیں۔ مگر میرا دل نہیں مانا کہ میں رقم وصول کروں۔ میں نے دیکھا ہے کہ وہ ایئرپوڈز پا کر بہت خوش ہوئے اور ایئر پوڈز کو وصول کرنے کے لیے خود پاکستان آئے۔ مجھے اس بات کی بہت خوشی ہوئی۔‘

’اسامہ بن لادن نے میرے ایئر پوڈز نہیں چرائے‘

مائلز کے سوشل میڈیا سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں۔

گذشتہ چند دونوں سے وہ پاکستان میں ہیں، جہاں سے وہ مختلف ویڈیوز شیئر کر رہے ہیں اور اپنے ایئر پوڈز ملنے کے حوالے سے بات بھی کر رہے ہیں۔

مائلز نے اپنی ایک ’ایکس‘ سپیس میں کہا کہ ’ایک سال، تین سو پینسٹھ دن، اور برطانیہ سے پاکستان تک 2,700 میل کا سفر طے کرنے کے بعد مجھے ایئر پوڈز واپس مل گئے ہیں۔ پاکستانی حکام نے میرے ایئر پوڈز تلاش کرنے کے لیے خصوصی ٹاسک فورس بنائی تھی۔ میں (پاکستان میں) اُس مقام پر بھی گیا تھا جہاں پر اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا گیا تھا۔‘

مائلز کا کہنا تھا کہ ’جس نے میرے ایئر پوڈز چرائے ہیں اس کو میں قانونی طور پر کچھ نہیں کہوں گا۔ میں دبئی میں کام کے لیے گیا تھا اور وہاں پر ایئر پورٹ پر ایک سستے ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ کمرے کے دروازے پر میں نے ’ڈو ناٹ ڈسٹرب‘ کا ٹیگ لگا اور باہر چلا گیا مگر حیرت انگیز طور پر جب میں کمرے میں واپس آیا تو میرے ایئر پوڈز غائب تھے۔‘

مائلز اس سپیس میں کئی لوگوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں نے تلاش کا سفر جاری رکھا اور پھر میں نے دبئی میں حکام سے رابطہ قائم کیا اور ایئر پوڈز کو ٹریک کیا تو پتا چلا کہ یہ پاکستان میں ہیں اور دبئی کے حکام نے کہا کہ اب معاملہ ان کی پہنچ سے باہر ہے۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی حکام سے رابطہ اچھا رہا اور مجھے ساری کہانی بھی پتا چل گئی۔ جب میں پاکستان پہنچا تو یہ خبر ڈھائی لاکھ لائیکس کے ساتھ پاکستانی میڈیا میں چھا گئی۔ ہر پاکستانی جس سے ملا، وہ اس بارے میں بات کر رہا تھا۔ پولیس سٹیشن میں 20 کیمرہ مین تھے۔ یہ ایک بڑا ایونٹ بن گیا۔‘

اگر آپ کا فون یا کوئی ڈیوائس چوری ہو جائے تو کیا کرنا چاہیے؟

آپ اپنے کھوئے ہوئے فون تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں، اسے لاک کر سکتے ہیں اور یہاں تک کے اسے شٹ ڈاؤن بھی کر سکتے ہیں اور ایسا آپ کسی دوسرے لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ، یا فون کے ذریعے کر سکتے ہیں۔

مختلف فون کمپنیاں اس حوالے سے مختلف نظام متعارف کروا چکی ہیں لیکن ان کے کام کرنے کا طریقہ ایک ہی ہے۔

آئی فون یا اس سے منسلک ڈیوائسز: اس کے لیے آپ اپنی کسی بھی دوسری ایپل ڈیوائسز، فون یا لیپ ٹاپ پر ’فائنڈ مائے‘ نامی ایپ کھول کے فون ڈھونڈ سکتے ہیں۔

اینڈرائڈ یا اس سے منسلک ڈیوائسز: فائنڈ مائے ڈیوائس ایپ یا فائنڈ ہب کے ذریعے ڈیواس ڈھونڈی جا سکتی ہے۔

سیمسنگ پر فائنڈ مائی موبائل کے ذریعے آپ اپنے سیمسنگ اکاؤنٹ سے لاگ اِن ہو کر اپنی سیمسنگ ڈیوائس کو ڈھونڈ سکتے ہیں۔ آپ ان سروسز کو استعمال کرتے ہوئے ان کی لوکیشن کو ریموٹلی ٹریک کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد یہ لوکیشن پولیس کے ساتھ شیئر کی جا سکتی ہے اور فون یا الیکٹرانک ڈیوائس ریکور کرنے میں مدد حاصل کر سکتے ہیں۔

چوری کی انوکھی واردات جس کے بعد راولپنڈی پولیس کباڑ خانوں پر چھاپے مار رہی ہےدو گھنٹوں میں 28 ملکوں سے 14 ملین ڈالر کی چوری کی انوکھی اور پیچیدہ وارداتگاڑی پر برطانیہ سے پاکستان کا سفر: ’سب سے مہنگا پیٹرول انگلینڈ، سب سے سستا ایران میں ملا‘13 ہزار ڈالر کے جوتوں کی چوری مگر ایک بھی جوتا چوروں کے کسی کام نہ آیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More