اسلام آباد میں نصب نئی یادگار سوشل میڈیا پر مذاق بن گئی۔۔ ہٹانے کا عمل شروع ! پیسوں کے ضیاع کا ذمہ دار کون؟

ہماری ویب  |  Jul 15, 2025

وفاقی دارالحکومت میں حال ہی میں نصب کی گئی ایک غیر روایتی یادگار نے اپنے مختصر وجود میں جس قدر عوامی توجہ، حیرانی اور تنقید سمیٹی، شاید ہی کسی اور سرکاری مجسمے کے حصے میں آئی ہو۔ اسلام آباد کی مارگلہ ایونیو چورنگی پر نصب کی گئی اس یادگار کو اب مشینوں کے ذریعے زمین بوس کیا جا رہا ہے، مگر اس کی باقیات سے زیادہ وہ سوالات باقی رہ گئے ہیں جو اس کے قیام اور اچانک خاتمے سے جنم لے چکے ہیں۔

یادگار کا ڈیزائن غیر مانوس تھا. دو سنہری رنگ کے انسانی ہاتھ، جن کی ہتھیلیوں پر ایک سفید گیند رکھی گئی تھی۔ اس منظر کو دیکھ کر سوشل میڈیا پر حیرت سے زیادہ طنز کی لہر دوڑ گئی۔ کچھ نے اسے بے مقصد فن پارہ قرار دیا، تو کچھ نے اس کے پیچھے چھپے نظریے کو سمجھنے کی کوشش کی — جو وضاحت کبھی سامنے آئی ہی نہیں۔

انتظامیہ نے ابتدائی ردعمل کے بعد یادگار کو پردوں سے ڈھانپ کر وقتی طور پر نظر سے اوجھل کرنے کی کوشش کی، لیکن سوشل میڈیا کے دباؤ کے سامنے یہ ہتھکنڈہ بھی دیرپا ثابت نہ ہوا۔ چند ہی دنوں بعد، بغیر کسی باضابطہ اعلان کے، اسے ختم کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا۔ جگہ کو عام افراد کی رسائی سے روک دیا گیا اور مشینری لگا دی گئی, جیسے کوئی شرمندگی چھپائی جا رہی ہو۔

شہری اس تمام عمل پر حیران ہیں۔ نہ اس یادگار کے قیام سے قبل کوئی عوامی مشاورت ہوئی، نہ اس کی علامتی حیثیت یا مقصد پر روشنی ڈالی گئی، اور اب اس کی مسماری بھی خاموشی سے کی جا رہی ہے، جیسے یہ کبھی تھا ہی نہیں۔ یہ معاملہ صرف ایک ڈیزائن یا فن پارے کا نہیں، بلکہ اس سوچ، منصوبہ بندی اور پالیسی عمل کا ہے جو بغیر سمت اور جواز کے آگے بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔

سوال اب یہ ہے کہ اگر یہ مجسمہ شروع سے ہی ناقابلِ قبول تھا تو اس پر سرکاری وسائل کیوں خرچ کیے گئے؟ اور اگر یہ کوئی غلط فہمی تھی تو جواب دہی کس سے طلب کی جائے گی؟ کیا عوام کو یہ حق نہیں کہ انہیں بتایا جائے کہ ان کے ٹیکس سے بننے والی ایک یادگار کیوں صرف چند دن میں تاریخ بن گئی؟

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More