خواتین سے دوستی، واٹس ایپ گروپس اور سوشل میڈیا: توہینِ مذہب کے مقدمات میں گرفتار پاکستانی نوجوانوں کی کہانیاں اور الزامات

بی بی سی اردو  |  Jul 23, 2025

Getty Imagesعلامتی تصویر

نوٹ: پاکستان میں حالیہ دنوں میں سامنے آنے والے توہین مذہب کے الزامات پر اس جامع رپورٹ کا مقصد مذہب یا کسی مذہبی شخصیت کی دل آزاری نہیں بلکہ اس معاملے کی تفصیلات سامنے لانا ہے۔

دبئی کی ایک نجی کمپنی میں ملازمت کرنے والے عثمان (فرضی نام) اپریل 2024 میں پاکستان واپس آئے۔ دو روز بعد ہی انھیں توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔

عثمان اس وقت پاکستان کے صوبہ پنجاب میں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔ ان کے والدین کا دعویٰ ہے کہ ان کے بیٹے کو سوشل میڈیا پر ملنے والی ایک خاتون نے توہینِ مذہب کے جھوٹے مقدمے میں پھنسایا ہے۔

توہین مذہب کے مقدمات میں جیلوں میں قید ایسے ہی کم از کم 101 افراد کے خاندانوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں ایک ایسے گروہ کے خلاف تحقیقات کی استدعا کی گئی جو ان کی درخواست کے مطابق ’جھوٹے مقدمات‘ بنانے میں ملوث ہے۔

15 جولائی کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت کو حکم دیا کہ وہ توہین مذہب کے مقدمات کی تحقیقات کے لیے 30 روز میں فیکٹ فائنڈنگ کمیشن تشکیل دے۔ اس کیس کا فیصلہ سُناتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا ہے کہ یہ کمیشن چار ماہ میں توہین مذہب سے متعلق مقدمات کی تحققیات مکمل کر کے اپنی حتمی رپورٹ پیش کرے گا۔

تاہم ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا کہ پاکستانی حکام کے سامنے مبینہ دھوکے بازی کے الزامات سامنے آئے ہوں۔

اپریل 2024 میں پنجاب پولیس کی سپیشل برانچ نے ایک ’خصوصی رپورٹ‘ میں دعویٰ کیا تھا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں ’کچھ افراد پر مشتمل ایک گروہ متحرک ہے جو کہ نوجوانوں کو توہینِ مذہب کے جھوٹے الزامات میں پھنسا رہا ہے اور ان کے خلاف مقدمات وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو بھیج رہا ہے۔‘ یہ رپورٹ اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت کے دوران پیش کی جا چکی ہے۔

اس رپورٹ میں یہ الزام بھی عائد کیا گیا تھا کہ کچھ مقدمات میں ایسے شواہد بھی موجود ہیں جن کے مطابق توہینِ مذہب کے مقدمات دائر نہ کرنے کے بدلے میں ’پیسوں کا مطالبہ کیا گیا۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہینِ مذہب کے مقدمات میں جیلوں میں قید افراد کے اہلخانہ کی نمائندگی کرنے والے ایک وکیل کا کہنا ہے کہ ان کے موکلوں کے خلاف مقدمات میں نظر آنے والی مماثلت بھی ان مقدمات کو مشکوک بناتی ہے۔

Getty Imagesعثمان کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے سے ایک خاتون کی جانب سے رابطہ پہلی مرتبہ فیس بُک پر کیا گیا تھافیس بُک پر رابطہ

عثمان کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے سے ایک خاتون کی جانب سے رابطہ پہلی مرتبہ فیس بُک پر کیا گیا تھا۔ عثمان کی والدہ کی شناخت ان کی درخواست پر ظاہر نہیں کی جا رہی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’انھوں (عثمان) نے مجھے بتایا کہ ان کی (خاتون سے) باتیں فیس بُک میسنجر پر شروعہوئی تھیں اور کچھ روز بعد واٹس ایپ پر بھی ان کے درمیان باتیں ہونے لگیں۔ اس کے بعد انھیں (عثمان کو) اسی خاتون نے ایک واٹس ایپ گروپ میں شامل کیا۔‘

’پہلے پہل تو اس واٹس ایپ گروپ میں اچھی پوسٹس آتی رہیں لیکن بعد میں اس خاتون نے اس گروپ میں کچھ ایسی چیزیں بھِیجیں جس کے سبب میرے بیٹے نے واٹس ایپ گروپ چھوڑ دیا۔‘

عثمان کی والدہ کہتی ہیں: ’میرے بیٹے نے کہا ’آپ نے گروپ میں جو بھیجا ہے اس کے بعد میرے لیے آپ سے رابطے میں رہنا مشکل ہوگیا ہے۔‘ لڑکی نے کہا ’میں دفتر میں مصروف تھی اور میں نے کوئی بھی ایسی چیز گروپ میں نہیں بھِیجی، آپ مجھے یہ پوسٹس ذرا فارورڈ کردیں۔‘

عثمان نے وہ متنازع پوسٹس اس لڑکی کو فارورڈ کر دیں۔

عثمان کی والدہ کہتی ہیں کہ ’یہ میرے بیٹے کی غلطی ہے۔۔۔ آپ نے یہ پوسٹس اسے کیوں بِھیجیں جب آپ کو معلوم تھا کہ یہ گستاخانہ مواد ہے؟‘

توہینِ مذہب کے مقدمات درج کروانے والا مبینہ گینگ اور ’ایمان‘ نامی پُراسرار کردار: اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکمنامے میں کیا ہے؟توہین مذہب کے الزام کا خوف: ’لگتا ہے کسی بھی وقت کوئی ہمیں ختم کر دے گا‘توہین مذہب کا الزام: ننکانہ میں ہجوم کے ہاتھوں ہلاک ہونے والا شخص کون تھا؟توہین مذہب: ڈاکٹر شاہنواز قتل کیس جو پولیس میں انتہاپسندی اور پرتشدد گروہوں سے اس کے گٹھ جوڑ کی کہانی سُناتا ہے

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس خاتون نے ایسی کوئی بھی پوسٹ بھیجنے کی تردید کی تھی اور ان کے بیٹے نے اس پر یقین کر لیا کہ واقعی انھوں نے اس واٹس ایپ گروپ پر کوئی ایسی پوسٹ نہیں بھیجی جس کے دو دونوں ممبر تھے۔

ان کے مطابق اس خاتون نے بعد میں ان کے بیٹے کو ایک ریستوران پر ملاقات کے لیے بُلایا تھا لیکن جب عثمان وہاں پہنچے تو وہاں کوئی خاتون تو موجود نہیں تھی بلکہ ایف آئی اے اور کچھ دیگر افراد موجود تھے جنھوں نے عثمان کو پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے تحت توہینِ مذہب کے مقدمے میں گرفتار کرلیا۔

بی بی سی عثمان کی والدہ کی جانب سے کیے گئے دعوؤں کی آزادنہ تصدیق نہیں کر سکا لیکن ایسے ہی دعوے دیگر افراد بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

Getty Imagesتوہین مذہب کے مقدمات میں جیلوں میں قید ایسے ہی کم از کم 101 افراد کے خاندانوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کر رکھی ہےخواتین سے دوستی، سوشل میڈیا اور واٹس ایپ گروپس

اُسامہ اور سلیم (فرضی نام) کی کہانیاں بھی عثمان سے ملتی جُلتی ہیں اور وہ بھِی توہینِ مذہب کے مقدمات میں اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کی سوشل میڈیا پر چند خواتین سے دوستی ہوئی اور انھِیں بھی ایک واٹس ایپ گروپ میں شامل کیا گیا تھا۔

ان کے خاندانوں کے مطابق، جنھوں نے بی بی سی سے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات چیت کی، ان خواتین نے ان گروپس میں توہینِ مذہب پر مبنی مواد شیئر کیا اور جب ان کے بیٹوں نے اس متعلق استفسار کیا تو انھوں نے اس طرح کا مواد شیئر کرنے کی تردید کر دی اور کہا کہ وہ یہ پوسٹس انھیں فارورڈ کر دیں۔

ان تینوں خاندانوں کے مطابق ان کے بیٹوں نے ایسا ہی کیا اور بعد میں وہ توہینِ مذہب کے مقدمات میں گرفتار کر لیے گئے۔

مقدمات میں مماثلت

نہ صرف ان افراد کی کہانیوں میں مماثلت ہے بلکہ ان کے خلاف دائر مقدمات میں بھی مماثلت نظر آتی ہے۔

گذشتہ چند برسوں میں توہینِ مذہب کے الزامات پر درج مختلف ایف آئی آر کے متن کو پڑھنے کے بعد کچھ حقائق منظرِ عام پر آتے ہیں: ایسے مقدمات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور کچھ افراد نے ایک سے زائد مقدمات بھی درج کروا رکھے ہیں۔

یہ تمام مقدمات سوشل میڈیا یا واٹس ایپ پوسٹس کی بنیاد پر درج کروائے گئے ہیں اور توہینِ مذہب پر مبنی مواد بھی ان مقدمات کی اکثریت میں ایک جیسا ہی نظر آتا ہے۔

ہائی کورٹ میں توہین مذہب کے مقدمات سے متعلق پٹیشن ایک ایسے وقت میں سُنی جا رہی ہے جب پاکستان میں ایسے مقدمات کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

توہینِ مذہب کے الزامات میں جیلوں میں قید افراد کے خاندانوں کے ایک وکیل عثمان وڑائچ نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’ہم قانون کے جائز یا ناجائز ہونے پر سوال نہیں اُٹھا رہے۔ ان خاندانوں کا کہنا ہے کہ اس قانون کا غلط استعمال کیا گیا اور ان کے بچوں کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے گئے۔‘

توہینِ مذہب کے مقدمات میں اضافہ اور سرکاری رپورٹس

پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے سرکاری ادارے نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس (این سی ایچ آر) نے گذشتہ برس ایک رپورٹ شائع کی تھی جس کے مطابق گذشتہ ساڑھے تین برسوں میں ملک میں توہینِ مذہب کے الزام میں قید افراد کی تعداد 2020 میں 11 سے بڑھ کر 2024 تک 767 پر پہنچ گئی۔

این سی ایچ آر کی ایک علیحدہ تحقیقاتی رپورٹ میں میں کہا گیا ہے کہ توہین مذہب کے مقدمات میں 2020 میں 11، 2021 میں نو، 2022 میں 64 اور 2023 میں 213 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا اور جولائی 2024 تک توہین مذہب کے الزامات میں جیلوں میں قید افراد کی تعداد 767 تک پہنچ چکی تھی۔

تاہم اس رپورٹ میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ ان قیدیوں کے ساتھ مقدمات کی سماعت شروع ہونے کے بعد کیا ہوا اور نہ ہی کوئی ایسے سرکاری اعداد و شمار موجود ہیں جس سے اس معاملے پر مزید روشنی ڈالی جا سکے۔

این سی ایچ آر کی اس رپورٹ میں سنہ 2020 سے جولائی 2025 تک کے اعداد و شمار شامل کیے گئے ہیں اور اس کے مطابق توہینِ مذہب کے مقدمات میں پنجاب کی جیلوں میں 581، سندھ میں 120، خیبر پختونخوا میں 64 جبکہ بلوچستان کی جیلوں میں دو افراد قید ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان میں توہینِ مذہب ایک ایسا جرم ہے جس کے ثابت ہونے پر سزائے موت بھی سنائی جا سکتی ہے۔

Reutersپاکستان میں توہینِ مذہب ایک ایسا جرم ہے جس کے ثابت ہونے پر سزائے موت بھی سنائی جا سکتی ہے

گذشتہ برسوں میں ان مقدمات میں اس وقت اضافہ دیکھا گیا جب مذہبی گروہوں نے توہینِ مذہب کے خلاف مہم تیز کی اور حکام سے مطالبہ کیا کہ سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد شیئر کرنے والوں کے خلاف کارروائیاں کی جائیں۔

گذشتہ چند برسوں میں سرکاری حکام نے بھی سوشل میڈیا پر ’توہین آمیز‘ مواد کے خلاف کارروائیاں تیز کی ہیں اور لوگوں کو ہدایات دی ہیں کہ وہ ایسے مواد کے خلاف شکایات پاکستانی ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور ایف آئی اے کو بھیجیں۔

تاہم توہینِ مذہب کے الزامات میں جیلوں میں قید متعدد افراد کے خاندانوں کی نمائندگی کرنے والے وکیل عثمان وڑائچ کا دعویٰ ہے کہ ان کے موکلوں کو توہین مذہب کے مقدمات میں پھنسایا گیا ہے۔

عثمان وڑائچ کا ماننا ہے کہ توہینِ مذہب کے مقدمات میں اضافے کے پیچھے ایک منظم طریقہ کار نظر آتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’توہینِ مذہب کے متعدد مقدمات میں مدعی بھی ایک ہی ہیں۔‘

حکومت سے تحقیقات کا مطالبہ

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی سالانہ رپورٹ میں بھی ایسے ہی گروہ کا ذکر ہے جو ادارے کے مطابق توہینِ مذہب کے مقدمات میں اضافے کے پیچھے ہے۔ ایچ آر سی پی نے بھی حکومت سے اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

کچھ عرصہ قبل پاکستان کی وفاقی حکومت کے ترجمان برائے قانون امور برسٹر عقیل ملک نے پاکستان کے نجی ٹی وی چینل آج ٹی وی کے ایک پروگرام میں کہا تھا کہ حکومت اس معاملے کی تحقیقات کا ارادہ رکھتی ہے۔

این سی ایچ آر اور سپیشل برانچکی رپورٹ میں مشکوک بتائے گئے مقدمات کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا: ’پہلی نظر ڈالنے سے یہ لگتا ہے کہ مدعی ایک ہیں، ایف آئی آر کا مواد ایک جیسا ہے تو اس معاملے پر شکوک و شبہات تو ابھرتے ہیں۔‘

بیرسٹر عقیل ملک نے اس وقت کہا تھا کہ ’میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ (تحقیقات کے لیے) کمیشن آئندہ چند ہفتوں میں مکمل کر لیا جائے گا۔‘

تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ توہینِ مذہب کے ’تمام مقدمات جھوٹے نہیں ہیں۔‘

Getty Imagesتوہینِ مذہب کے الزامات میں جیلوں میں قید متعدد افراد کے خاندانوں کی نمائندگی کرنے والے وکیل عثمان وڑائچ کا دعویٰ ہے کہ ان کے موکلوں کو توہین مذہب کے مقدمات میں پھنسایا گیا ہےتوہینِ مذہب کے مقدمات اور ایک گروہ پر الزامات

اپریل 2024 میں پنجاب پولیس کی سپیشل برانچ نے صوبائی چیف سیکریٹری، پولیس اور ایف آئی اے کو ایک ’خصوصی رپورٹ‘ ارسال کی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں کچھ افراد پر مشتمل گروہ نوجوانوں کو توہین مذہب کے مقدمات میں پھنسا رہا ہے اور یہ مقدمات ایف آئی اے کو بھیج رہا ہے۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اس گروہ کے سربراہ شیراز احمد فاروقی نامی شخص ہیں جبکہ راؤ عبدالرحیم نامی وکیل بھی گروپ کا حصہ ہیں۔

پنجاب پولیس کی سپیشل برانچ کا اس رپورٹ میں کہنا تھا: ’انھوں نے لیگل کمیشن آن بلاسفیمی نامی ایک تنظیم بنائی ہے اور اس کے تحت کام کر رہے ہیں۔‘

راؤ عبدالرحیم دراصل لیگل کمیشن آن بلاسفیمی کے سربراہ ہیں اور مدعیان کے لیے توہین مذہب کے خلاف مقدمات لڑتے ہیں۔ یہ گروپ کچھ شہریوں اور چند وکیلوں پر مشتمل ہے۔

بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران راؤ عبدالرحیم اور شیراز احمد فاروقی نے سپیشل برانچ کی رپورٹ میں درج الزامات کی تردید کی ہے۔

بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو کے دوران شیراز احمد فاروقی بھی راؤ عبدالرحیم کے ہمراہ موجود تھے اور راؤ عبدالرحیم نے ہی ان کے بدلے سوالات کے جوابات دیے۔

شیراز احمد فارقی راولپنڈی اور اسلام آباد میں توہین مذہب کے چھ مقدمات میں مدعی ہیں۔ راؤ عبدالرحیم ان کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: ’اگر ایک شخص کو ایک مرتبہ توہین آمیز مواد موصول ہوتا ہے تو وہ ایک ایف آئی آر درج کرواتا ہے اور اگر اسے یہ مواد چار مرتبہ موصول ہوگا تو وہ چار ایف آئی آرز درج کروائے گا۔‘

توہین مذہب کے مقدمات میں جیلوں میں بند تین افراد کے خاندانوں نے بھی بی بی سی کے ساتھ گفتگو کے دوران راؤ عبدالرحیم اور شیراز احمد فاروقی پر اپنے بچوں کو توہینِ مذہب کے مقدمات میں پھنسانے کے الزامات عائد کیے ہیں۔

سپیشل برانچ کی رپورٹ میں یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ لوگوں کو توہینِ مذہب کے مقدمات میں پھنسا کر ان سے سے رقم کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے۔ راؤ عبدالرحیم اور شیراز احمد فاروقی ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔

’انھوں نے 50 لاکھ کا مطالبہ کیا‘

اسامہ کو 11 ستمبر 2024 میں صوبہ پنجاب کے ایک شہر سے گرفتار کیا گیا تھا اور ان کے خاندان کا کہنا ہے کہ انھیں ایک خاتون نے توہینِ مذہب کے مقدمے میں پھنسایا ہے۔

اسامہ کی والدہ کہتی ہیں کہ جس خاتون نے ان کے بیٹے سے رابطہ کیا اس نے اپنا تعارف آیت کیانی کے نام سے کروایا تھا۔

22 سالہ اُسامہ پنجاب کے ایک ہسپتال سے نرسنگ میں ڈپلومہ کر رہے تھے لیکن ان کی گرفتاری کے بعد ان کی تعلیم بھی ادھوری رہ گئی۔

اسامہ کے بھائی کا کہنا ہے کہ ان کے بھائی کو بھی اس لڑکی نے ایک واٹس ایپ گروپ میں شامل کیا تھا اور پھر وہاں توہین آمیز چیز شیئر کی گئی تھیں۔

’اس کے بعد لڑکی نے کہا ’میں نے یہ توہین آمیز چیزیں شیئر نہیں کیں، مجھے دکھائیں آپ کس بارے میں بات کر رہے ہیں۔‘

اسامہ کے بھائی کا کہنا ہے کہ بعد میں ان کا بھائی اسی واٹس ایپ پوسٹ کے سبب گرفتار ہوا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ان سے ان کے وکیل کے ذریعے 50 لاکھ روپے کی رقم کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔

اسامہ کے بھائی نے راؤ عبدالرحیم یا شیراز احمد فاروقی پر رقم مانگنے کا براہ راست الزام نہیں لگایا اور پیسے مانگنے والے شخص کی شناخت بتانے سے بھی انکار کر دیا کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ اس کے سبب ان جیل میں قید بھائی کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

Getty Imagesین سی ایچ آر نے گذشتہ برس ایک رپورٹ شائع کی تھی جس کے مطابق گذشتہ ساڑھے تین برسوں میں ملک میں توہینِ مذہب کے الزام میں قید افراد کی تعداد 2020 میں 11 سے بڑھ کر 2024 تک 767 پر پہنچ گئی

بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو کے دوران اُسامہ کی والدہ کی آںکھوں میں آنسو تھے اور ان کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے پر شدید تشدد بھی کیا گیا تھا۔

انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’مدعی بھی اس (واٹس ایپ) گروپ کا حصہ ہے۔ اگر وہاں توہین آمیز مواد شیئر کیا جا رہا ہے تو مدعی وہاں کیا کر رہا ہے؟‘

بی بی سی مدعی کے واٹس ایپ گروپ کے رکن ہونے سے متعلق دعوے کی آزادانہ تصدیق نہیں کرسکا ہے۔

راؤ عبدالرحیم سے جب پوچھا گیا کہ کیا وہ کسی ایسے واٹس ایپ گروپ کے رُکن ہیں جہاں متنازع مواد شیئر کیا جا رہا ہے تو انھوں نے کہا کہ: ’میں ان گروپس کے خلاف مدعی ہوں۔‘

انھوں نے اس سوال کا جواب ہاں یا نہیں میں دینے کے بجائے کہا کہ: ’جب میں کہہ رہا ہوں کہ وہاں مذہب کی توہین ہو رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھے وہاں انجیکٹ کیا گیا ہے۔‘

سلیم (فرضی نام) کا دعویٰ اسامہ اور عثمان کے دعووں سے ملتا جُلتا ہے جنھیں یکم اگست 2024 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کے بھائی کے مطابق سلیم سے رابطہ قائم کرنے والی لڑکی نے اپنا نام ثوبیہ ناز بتایا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے بھائی کا اس لڑکی سے رابطہ فیس بُک پر جُڑا اور بعد میں سلیم نے ان سے ویڈیو کال پر بھی بات کی تھی۔

بی بی سی کو ان افراد کے خاندانوں کی جانب سے پیسے طلب کرنے سے متعلق واٹس میسجز دکھائے گئے، ویڈیو کالز کے سکرین شاٹس دکھائے گئے جن میں ان لڑکیوں کو توہین مذہب کے الزام میں گرفتار افراد کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔

بی بی سی ان شواہد کی بھی آزادانہ تصدیق نہیں کرسکا۔ ان افراد کے خاندانوں کے مطابق وہ مزید شواہد کسی تحقیقاتی کمیشن کے سامنے رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

توہینِ مذہب کے مقدمات میں مدعی کون ہیں؟

وکیل عثمان وڑائچ اور ان کی ٹیم کی جانب سے عدالت میں جمع کروائے گئے دستاویزات کے مطابق ایسے بہت سے مدعی ہیں جنھوں نے ایک سے زائد مقدمات درج کروا رکھے ہیں۔

عثمان وڑائچ کے مطابق شیراز احمد فاروقی راولپنڈی اور اسلام آباد میں چھ مقدمات میں مدعی ہیں، جبکہ ایسے دیگر اور بھی افراد ہیں جو ایک سے زیادہ مقدمات میں مدعی ہیں۔

عدالت میں جمع کروائے گئے دستایزات میں مزید ایسے افراد کے نام بھی ہیں جنھوں نے توہین مذیب کے ایک سے زائد مقدمات درج کروائے ہیں۔

این ایچ سی آر کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں توہین مذہب کے الزام میں قید 11 سے 12 افراد کو چھ بائے بارہ میٹر کے کمرے میں رکھا جاتا ہے۔ انھیں ان کی حفاظت کے لیے دیگر قیدیوں سے بھی دور رکھا جاتا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب کے شہر لاہور میں توہینِ مذہب کے الزام میں قید تمام افراد کی عمریں 21 سے 33 برس کے درمیان ہیں۔

راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید اسامہ کی والدہ کہتی ہیں کہ: ’اب بھی جب میں اپنے بیٹے سے ملنے جاتی ہوں تو وہ پوچھتا ہے کہ ’میری کیا غلطی ہے؟‘ میں اسے کہتی ہوں کہ بیٹا اب میں تمھیں کیا بتاؤں؟‘

الزامات پر لیگل کمیشن آن بلاسفیمی کا کیا موقف ہے؟

لیگل کمیشن آن بلاسفیمی کے سربراہ کسی بھی شخص کو توہینِ مذہب کے مقدمات میں پھنسانے کی تردید کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر کسی نے بھی دنیا بھر سے ہمیں کسی بِھی طرح سے پیسے بھیجے ہیں تو وہ ہمیں ثبوت دکھائے، میں بغیر عدالتی کارروائی کے سزا کے لیے تیار ہوں۔‘

تاہم انھوں نے یہ ضرور کہا کہ وہ توہینِ مذہب کے مقدمات لڑنے والے لاہور کے وکیلوں کے ساتھ ضرور کام کرتے ہیں اور 'تحفظ ختمِ نبوت لائرز فورم' سے بھی منسلک ہیں۔

’لاہور میں ہم ان کے ساتھ کام کرتے ہیں تاکہ اسلام آباد کے کسی وکیل کو لاہور اور لاہور کے کسی وکیل کو اسلام آباد نہ آ نے پڑے۔‘

جب راؤ عبدالرحیم سے سپیشل برانچ کی رپورٹ سے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے دعویٰ کیا کہ پنجاب پولیس کے افسران عدالتوں میں حاضر ہوئے تھے اور بتایا تھا کہ یہ ’سورس انفارمیشن رپورٹ‘ تھی جسے متعلقہ ایجنسی کو بھِیج دیا گیا تھا۔

’ان کا ایک افسر نے لاہور ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ یہ صرف معلومات ہے، کوئی رپورٹ نہیں ہے۔‘

راؤ عبدالرحیم دعویٰ کرتے ہیں کہ ایف آئی اے نے اس معاملے کی تحقیقات کی تھِیں اور اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ انھِیں ان الزامات کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔

بی بی سی نے ایف آئی اے کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل جان محمد بٹ سے 11 فروری کو براہ راست رابطہ کیا اور انھوں نے ہمیں سوالات بھیجنے کو کہا۔ اس کے بعد 12 اور 14 فروری کو دوبارہ ان سے رابطہ کیا گیا لیکن انھوں نے بی بی سی کو کوئی جواب نہیں دیا۔

دوسری جانب پنجاب پولیس کے ایک سینئر افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ: ’سپیشل برانچ سب کچھ ثبوت کی بنیاد پر رپورٹ کرتی ہے اور اس کی تصدیق ایف آئی اے کو گیجیٹس (موبائل فونز اور کمپیوٹرز) کا تجزیہ کر کے کرنی ہوتی ہے۔‘

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ محققین اور مقامی میڈیا کے مطابق گذشتہ تیس برسوں میں پاکستان میں 80 سے زائد افراد توہین مذہب کے الزمات لگنے کے سبب ماورائے عدالت قتل کیے گئے ہیں۔

مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق حالیہ برسوں میں پاکستان میں توہین مذہب کے الزامات پر خواتین سمیت دو درجن سے زائد افراد کو سزائے موت بھی سنائی جا چکی ہے۔

توہینِ مذہب کے الزامات میں جیلوں میں قید خاندانوں کا کہنا ہے کہ لیگل کمیشن آن بلاسفیمی کی جانب سے ملزمان اور ان کے شہروں کے نام بھی سوشل میڈیا پوسٹس میں شیئر کیے جاتے ہیں جس کے سبب ان کے خاندان کے دیگر افراد کی زندگیاں بھی خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔

جب راؤ عبدالرحیم سے ایسی سوشل میڈیا پوسٹس کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انھوں نے اپنے گروپ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ: ’بتائیں میں ایسے جرائم کے خلاف اپنے لوگوں میں ڈیٹرینس کیسے پیدا کروں اور انھیں کیسے آگاہی دوں؟‘

ان کا کہنا ہے کہ ان کے گروپ کی جانب سے کی گئی ایسی پوسٹس کے باوجود بھی کسی خاندان کو تاحال کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔

توہین مذہب: ڈاکٹر شاہنواز قتل کیس جو پولیس میں انتہاپسندی اور پرتشدد گروہوں سے اس کے گٹھ جوڑ کی کہانی سُناتا ہےتوہین مذہب کا الزام: ’میں سوچ رہا تھا کہ مجھے تشدد کر کے قتل کیا جائے گا یا آگ لگا کر‘توہین مذہب کا الزام: ننکانہ میں ہجوم کے ہاتھوں ہلاک ہونے والا شخص کون تھا؟توہین مذہب کے الزام کا خوف: ’لگتا ہے کسی بھی وقت کوئی ہمیں ختم کر دے گا‘توہینِ مذہب کے مقدمات اور ایف آئی اے پر عدالت کا اعتراض: ’ادارے خود ہی قانون میں درج ضابطہ کار کا احترام نہیں کرتے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More