ماتا ہری: مشہور جاسوسہ جنھوں نے سزائے موت سے قبل آنکھوں پر پٹی بندھوانے سے انکار کیا

بی بی سی اردو  |  Aug 07, 2025

BBC

نوٹ: یہ تحریر ابتدائی طور پر اکتوبر 2017 میں شائع ہوئی جسے قارئین کی دلچسپی کے لیے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔

15 اکتوبر 1917 کی صبح ایک سلیٹی رنگ کی فوجی گاڑی پیرس کی مرکزی جیل سے نکلی۔ اس پر ایک 41 سالہ ولندیزی خاتون سوار تھیں جنھوں نے ایک لمبا کوٹ پہن رکھا تھا اور ان کے سر پر چوڑا ہیٹ تھا۔

ایک عشرہ قبل اس خاتون نے یورپ کے دارالحکومتوں کو اپنے قدموں پر جھکا رکھا تھا۔ یہ وہ شعلۂ جوالہ تھی جو رقص میں بےبدل تھی اور ان کے چاہنے والوں میں وزیر، صنعت کار اور فوجی جنرل شامل تھے۔

لیکن پھر پہلی جنگِ عظیم چھڑ گئی، جس نے دنیا کو بدل کے رکھ دیا۔ ان خاتون کا اب بھی خیال تھا کہ وہ یورپ بھر کی آنکھیں اپنے جلووں سے خیرہ کر سکتی ہے۔ لیکن اب اونچے ایوانوں میں بیٹھے مرد اُن سے کچھ اور ہی چاہتے تھے۔ انھیں اب اس خاتون کا التفات نہیں بلکہ معلومات درکار تھیں۔

ان کا جرم؟ الزام تھا کہ وہ جاسوسہ ہیں جو اتحادی افسروں کو لبھا کر ان سے راز حاصل کر کے جرمن فوج کے حوالے کر دیتی ہیں۔ اخبار مرچ مصالحے لگا کر خبریں چھاپتے تھے کہ ماتا ہری کی وجہ سے ہزاروں اتحادی فوجی مارے گئے ہیں۔

لیکن عدالت میں جو شواہد پیش کیے گئے ان سے کچھ اور کہانی اُبھر کر سامنے آئی۔ وہ اصل میں ڈبل ایجنٹ تھیں اور انھیں قربانی کا بکرا بنایا گیا تھا۔

لگ بھگ چار سال قبل فرانسیسی وزارتِ دفاع نے کچھ ایسی دستاویزات جاری کی تھیں جن سے دنیا کی تاریخ کی اس مشہور ترین جاسوسہ کے بارے میں نئے انکشافات ہوئے ہیں جو اس سے پہلے دنیا کی آنکھ سے اوجھل تھے۔

ان میں سنہ 1917 میں ماتا ہری سے ہونے والی پوچھ گچھ کی دستاویزات بھی شامل ہیں۔ ان میں کچھ کو نیدرلینڈز میں ماتا ہری کے آبائی شہر لیووارڈن کے فرائز میوزیم میں نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔

ان دستاویزات میں میڈرڈ میں جرمنی کے فوجی اتاشی کی جانب سے برلن کو بھیجا گیا وہ تار بھی شامل ہے جو ماتا ہری کی گرفتاری کا باعث بنا۔

مارگریٹ زیلے 1876 میں پیدا ہوئی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا معروف نام ماتا ہری انڈونیشیائی زبان سے آیا جس کا مطلب ہے ’دن کی آنکھ‘ یعنی سورج۔

کم عمری میں شادی اور پھر شادی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد انھوں پیرس میں بطورِ رقاصہ زبردست شہرت بٹوری۔ فرائز میوزیم کے منتظم ہانز گروئن ویگ کہتے ہیں: ’گذشتہ صدی کی ابتدا میں یورپی دارالحکومتوں میں انھوں نے جو کچھ کیا اس کی وجہ سے جاسوسی کے بغیر بھی ماتا ہری کو آج یاد کیا جاتا۔‘

’انھوں نے بڑی حد تک سٹرپ ٹیز رقص ایجاد کیا۔ ہمارے پاس ان کی تصاویر اور اخباروں کے تراشے موجود ہیں۔ وہ اپنے زمانے کی سلیبرٹی تھیں۔‘

ایران کے اعلیٰ ترین حلقوں تک مبینہ رسائی رکھنے والی کیتھرین شکدم اسرائیلی جاسوس یا تجزیہ کار؟آڈرے ہیپ برن: آسکر ایوارڈ یافتہ اداکارہ جنھوں نے نازیوں کے خلاف جاسوسی کیراجیو گاندھی کے دفتر کا وہ جاسوس جو پاکستان سمیت دیگر معاملات پر خفیہ معلومات برسوں تک فروخت کرتا رہا’لائسنس ٹو کِل‘، نام کا راز اور 116 سال میں پہلی خاتون سربراہ: برطانوی خفیہ ایجنسی ’ایم آئی 6‘ جسے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے

آج ماتا ہری کو صرف جاسوسی کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔ گذشتہ برسوں میں کئی تاریخ دان ان کے دفاع میں سامنے آئے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ انھیں اس لیے قربان کر دیا گیا کہ فرانسیسی حکومت کو جنگ میں پے در پے ناکامیوں کا جواز پیدا کرنا تھا۔

نسوانی حقوق کے علم بردار کہتے ہیں کہ ماتا ہری کو اس لیے نشانہ بنانا بےحد آسان تھا کہ ان پر ’برے کردار‘ کا الزام تھا جس کی وجہ سے انھیں بڑی سہولت سے ’فرانس کا دشمن‘ قرار دے دیا گیا۔

نئی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ ماتا ہری نے میڈرڈ میں جرمن ملٹری اتاشی آرنلڈ فان کالے سے تعلق استوار کیا۔ اس وقت وہ فرانسیسی خفیہ اداروں کے لیے کام کر رہی تھیں اور ان کا مقصد جرمن نیٹ ورکس کا سراغ لگانا تھا۔

تاہم فان کالے نے ایک تار جرمنی بھیجا جس نے ماتا ہری کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ اس تار میں ایچ 21 نامی ایک جرمن جاسوس کا ذکر تھا۔ اس میں پتہ، بینک کی تفصیلات، حتیٰ کہ ماتا ہری کی خادمہ کا نام بھی درج تھا۔ فرانسیسی حکام کو یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی کہ ایچ 21 دراصل ماتا ہری ہیں۔

نمائش میں یہ تار بھی موجود ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس تار کا سرکاری ترجمہ موجود ہے، اور یہیں سے سارا معاملہ گڑبڑ ہوتا نظر آتا ہے۔

یہ تار کوڈ ورڈز میں تھا لیکن فرانسیسی بہت عرصہ پہلے جرمن کوڈ بوجھ چکے تھے۔ جرمنوں کو بھی یہ بات معلوم تھی کہ فرانسیسی ان کی خفیہ زبان جان گئے ہیں۔

دوسرے الفاظ میں، جرمنوں نے جان بوجھ کر وہ تار بھیجا تاکہ فرانسیسی اپنی ہی جاسوسہ کو پکڑ کر موت کے گھاٹ اتار دیں۔

لیکن ایک اور نظریہ بھی ہے۔

ریکارڈ میں صرف ترجمہ کیوں ہے؟ اصل تار کہاں ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ فرانسیسیوں نے خود ہی وہ تار گھڑ لیا ہو تاکہ ماتا ہری کو پکڑا جا سکے؟ اور یوں ایک ’خطرناک جاسوس‘ کو پکڑ کر اپنی کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹا جائے؟

چاہے یہ جرمنوں کا کام ہو یا فرانسیسیوں کا، دونوں صورتوں میں پھنسیں ماتا ہری۔

دستاویزات میں ماتا ہری کا اعترافی بیان بھی شامل ہے۔ انھوں نے اپنے تفتیش کاروں کو بتایا کہ وہ واقعی جرمن جاسوسہ تھیں تاہم یہ کام انھوں نے صرف پیسہ حاصل کرنے کے لیے کیا اور ان کی ہمدردیاں اتحادی افواج کےساتھ تھیں۔

تاہم ان کی بات پر یقین نہیں کیا گیا۔

انھیں پیرس کے مشرقی مضافات میں واقع شیتو دے ونسین لایا گیا جہاں 12 سپاہی بندوقیں لیے ان کے منتظر تھے۔

بعض اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ ماتا ہری نے آنکھوں پر پٹی بندھوانے سے انکار کر دیا تھا۔ انھوں نے ایک ہاتھ ہلا کر اپنے وکیل کو خدا حافظ کہا۔ کمانڈر نے اپنی تلوار تیزی سے نیچے جھکائی، 12 رائفلوں کی صدا فضا میں گونجی اور ماتا ہری اپنے ہی قدموں پر گر پڑیں۔

ماتا ہری کی نعش قبول کرنے کوئی نہیں آیا۔ انھیں پیرس کے ایک میڈیکل کالج کے حوالے کر دیا گیا جہاں اسے طلبہ کو علم الابدان سکھانے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ ان کا سر میوزیم آف اناٹومی میں محفوظ کر دیا گیا۔ تاہم 20 سال قبل یہ وہاں سے غائب ہو گیا۔ کسی نے اسے چرا لیا تھا۔

روس کے لیے جاسوسی کرنے والی دو خواتین جن کا سراغ بی بی سی نے لگایاپیراشوٹ سے نازیوں کے زیرِ قبضہ پولینڈ میں جاسوسی کے لیے اترنے والی خاتون جن کے سرپرست بھی ان کے مخالف تھےوہ جاسوس جو دوسری عالمی جنگ کے کئی مشکل محاذوں سے بچ نکلیں لیکن اپنے سابق عاشق کے ہاتھوں ماری گئیںوہ ملک جہاں مخبری کرنا منافع بخش کام ہے: ’میں نے یہ کام اپنے دادا سے سیکھا جو خود ایک مخبر تھے‘ہوپ کک: سکم کی رانی جنھیں سی آئی ایجنٹ اور آزاد ریاست کے انڈیا میں انضمام کا سبب قرار دیا گیارافت الہجان: مصر کے افسانوی جاسوس ’نمبر 313‘ قومی ہیرو تھے یا اسرائیلی ڈبل ایجنٹ؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More