Getty Images
رواں برس مئی میں انڈیا اور پاکستان کے بیچ فوجی تنازعے کے بعد مستقبل کی جنگی تیاریوں کی حکمت عملی کے طور پر انڈیا کی بریفوج نے اپنی مختلف شاخوں کے لیے مخصوص ’ڈرون بٹالین‘ تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس حکمت عملی کے تحت بری فوج کی آرٹلری، انفینٹری اور آرمرڈ ڈویژن میں ایک، ایک ڈرون یونٹ تشکیل دیا جائے گا۔ ان نئے یونٹس کا مقصد صرف ڈرون چلانے کی ذمے داریاں سنبھالنا ہو گا۔
حکام کے مطابق اس مقصد کے لیے فوجی عملے کو الگ سے ڈرون کے مختلف آپریشنز کی اعلیٰ تربیت دی جائے گی۔
26 جولائی کو ’یوم کارگل فتح‘ کے موقع پر انڈیا کی بری فوج کے سربراہ اوپیندر دویدی نے فوج میں 30 لائٹ کمانڈو بٹالین اور ڈرون سمیت سبھی ہتھیاروں اور سامان سے مزین ’رودرا‘ بریگیڈز بنانے کا اعلان کیا تھا۔
Getty Imagesانڈین ڈرون بٹالین کیا کام کرے گی؟
ڈرون بٹالین بنانے کی حکمت عملی انڈین فوج کی جدیدکاری اور فوج کی تینوں شاخوں کو مربوط کرنے کے وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے۔
انڈیا کے دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی کہتے ہیں ڈرون بٹالین کی تشکیل پر پہلے سے بات چیت چل رہی تھی۔
’آپریشنسندور کے بعد ڈرون کو فوج میں کمبیٹ یونٹ کی طرح شامل کرنا ایک وسیع تر حمکت عملی کا جزو بن گیا ہے۔ گذشتہ دس برس کے دوران جو جنگیں لڑی گئیں، چاہے وہ موجودہ یوکرین، روس جنگ ہو، آذربائجان کی جنگ ہو یا اسرائیل، لبنان اور ایران کی لڑائی، ان سبھی میں ڈرون کا بڑے پیمانے پر اور بہت مؤثر طریقے سے استعمال ہوا ہے۔‘
’ڈرون کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ عمومآ سستے ہوتے ہیں اور انھیں اربوں روپے کے انتہائی جدید ٹینکوں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے انھیں ایک سستے اور مؤثر ہتھیار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔‘
راہل بیدی کہتے ہیں کہ انڈین فوج اب ڈرون کے لیے مخصوص بریگیڈ بنا رہی ہے جس میں 25 سے سو فوجی اور ٹیکنیکل ماہرین کو صرف ڈرون چلانے کی ذمے داری دی جائے گی۔
’ڈرون دو طرح کے ہوں گے۔ ایک اٹیک ڈرون ہو گا اور ایک سرویلینس، یعنی معلومات حاصل کرنے کے لیے خفیہ پروازیں بھرنے والے ڈرون ہوں گے۔ سرویلینس ڈرون یہ دیکھے گا کہ ٹارگٹ کہاں ہے اور وہ اٹیک ڈرون کو سگنل دے گا اور وہ اکیلا یا 20-25 ڈرون کی مدد سے اس ہدف پر حملہ کرسکے گا۔‘
Getty Imagesانڈیا کے پاس موجود ڈرونز کی اقسام
ڈرونز تین طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک کم فاصلے کے لیے ہوتا ہے جو 20 سے 50 کلومیٹر تک کام کرتا ہے۔
دوسرا میڈیم اور اور ہائی لیول کا ڈرون ہوتا اور ایک ایکسٹنڈڈ فاصلے کا ڈرون ہوتا ہے۔ کچھ بہت ایڈوانسڈ نوعیت کے اٹیک ڈرون ہوتے ہیں جیسے ایم کیو 9 بی۔
انڈیا نے اس ساخت کے ساڑھے تین ارب ڈالر مالیت کے 31 ڈرون امریکہ سے خریدے ہیں۔
انڈیا نے 90 کے عشرے کے اواخر سے ڈرون خریدنے شروع کیے۔
اس نے اسرائیل سے ہارپی، ہیروپ اور ہیرون ساخت کے ڈرون خریدے ہیں جو آپریشن سندور میں بھی کافی استعمال ہوئے تھے۔
انڈیا خود اپنے ڈرون بھی بنا رہا ہے۔ ڈرون کا استعمال اب لداخ اور ارونا جل جیسے پہاڑی خطوں میں پہاڑوں کی اونچائی پر فوجیوں کے لیے جنگی سامان اور رسد پہنچانے میں بھی کیا جا رہا ہے۔
دو جوہری طاقتوں کے بیچ پہلی ڈرون جنگ: کیا پاکستان اور انڈیا کے درمیان روایتی لڑائی میں نئے اور خطرناک باب کا آغاز ہو چکا ہے؟پاکستان میں گرایا گیا اسرائیلی ساختہ ہروپ ڈرون کیا ہے اور فضا میں اس کی نشاندہی کرنا مشکل کیوں ہے؟پاکستان اور انڈیا کی فوجی طاقت کا موازنہ: لاکھوں کی فوج سے جدید طیاروں، بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز تکگولہ باری، ڈرون حملوں یا جنگی صورتحال میں آپ خود کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟Getty Imagesکون کون سے ملک ڈرون استمعال کرتے ہیں؟
ڈرون ٹیکنالوجی میں تین ملکوں نے بہت ترقی کی ہے۔ سب سے پہلے اسرائیل نے بہت جدید قسم کے ڈرون تیار کیے۔ پھر امریکہ نے اس میں مزید مہارت حاصل کی اور اب چین اس ٹیکنالوجی میں بہت تیزی سے آگے بڑھا ہے۔
ترکی اور ایران بھی ڈرون ٹیکنالوجی میں تیزی سے آگے آئے ہیں۔
انڈیا اور پاکستان کے درمیان مئی کے ٹکراؤ میں پاکستان نے چین اورترکی کے ڈرون استعمال کیے تھے۔ ہائی ٹیک ڈرون وار فییر اب بڑھتا جا رہا ہے۔
تجزیہ کار راہل بیدی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ پہلے پیدل فوج کی لڑائیاں ہوا کرتی تھیں، گولیاں چلتی تھیں۔ اسے کنٹیکٹ وار فیر کہا جاتا تھا۔ اب وہ سب گم ہوتا جا رہا ہے۔ اب یہ کام مشینوں کو سونپ دیا گیا اور اب تو کمپیوٹر سے کنٹرول ہونے والے بغیر پائلٹ والے جنگی جہاز بھی بننے لگے ہیں۔‘
’پائلٹ سے تو ہدف کو نشانہ لینے میں غلطی ہو سکتی ہے لیکن ان مشینوں سے غلطی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔‘
راہل بیدی کہتے ہیں کہ ’مستقبل کی جنگوں میں آدمی کی ضرورت کم ہوتی جائے گی اور مشینوں کی ضرورت بڑھ جائے گی۔ جو جدید ٹیکنالوجی اختیار کرے گا اور جس کا اس پر کنٹرول ہو گا اسی کی جیت ہوگی۔‘
Getty Imagesکیا اس سے انڈین فوج کو پاکستان پر کوئی برتری حاصل ہو گی؟
دفاعی تجزیہ کار اور عسکری امور کے جریدے ’فورس‘ کے ایڈیٹر پروین ساہنی کہتے ہیں کہ انڈیا اپنی فوج میں جو ڈرون بٹالین بنا رہا ہے اس کا کوئی بہت بڑا فائدہ نہیں پہنچے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ جب تک انڈیا کے پاس زمین پر 24 گھنٹے نظر رکھنے کے لیے اپنا ایک مؤثر سیٹلائٹ نظام نہیں بن پاتا تب تک یہ ڈرون موثر طریقے سے کارگر نہیں ہو سکتے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے آپریشن سندور کے دوران دیکھا تھا کہ چین کے سیٹلائٹ نیٹ ورک کے ذریعے پاکستان کو 24 گھنٹے کی سرویلینس دستیاب تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انڈین فوج کی جو نقل و حرکت ہوتی تھی وہ انھیں 24 گھنٹے دکھائی دے رہی تھی۔ انھیں یہ معلوم تھا کہ کون سی چیز کہاں ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ڈرون کی اہمیت تب ہوتی ہے کہ جب میدان جنگ کی معلومات حاصل ہوتی ہے، آپ ایک ایسی لڑائی لڑ رہے ہیں جب دونوں کو یہ پتہ نہیں کہ آگے کیا ہے۔ دونوں ممالک زیادہ تر میزائلوں کا استعمال کر رہے ہیں جس کی پہنچ ہر جگہ ہے۔‘
پروین ساہنی کہتے ہیں کہ ’جب تک آپ کے پاس راؤنڈ دی کلاک ویز یبلٹی(ہمہ وقت نگرانی) دستیاب نہیں ہوتی تب تک ان یونٹوں کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوںکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن موجودہ صورتحال میں اسے ترجیح دینے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
ان کے خیال میں انڈین فوج کی پہلی ضرورت سیٹیلائٹ کے ذریعے 24 گھنٹے جنگ کے میدان کی واضح تصویر کی نگرانی ہے جو چین کے توسط سے پاکستان کو حاصل ہے۔ ’پھر ہمیں الیکٹرانک وارفئیر کی صلاحیت چاہیے جو اس وقت پاکستان کے پاس ہے۔‘
’اس وقت انڈین فوج سرحد پار کی نقل و حرکت کی معلومات کے لیے یو اے وی استعمال کرتی ہے۔اس مرحلے پر جو چیز انڈیا کے لیے سب سے اہم ہے وہ ہےملٹری کا انٹیگریشن یعنی اس کی تینوں شاخوں کو پوری طرح مربوط کرنے کی۔ ابھی جو جدید کاری ہو رہی ہے وہ مربوط نہیں ہے۔ یہاں انٹیگریٹیڈ تھیٹر کمان بنانے کی بات 2020 سے چل رہی ہے لیکن ابھی تک اس کے باری میں کچھ واضح نہیں ہے۔‘
دو جوہری طاقتوں کے بیچ پہلی ڈرون جنگ: کیا پاکستان اور انڈیا کے درمیان روایتی لڑائی میں نئے اور خطرناک باب کا آغاز ہو چکا ہے؟پاکستان اور انڈیا کی ’ڈرون ریس‘: وہ یو اے ویز جو جنوبی ایشیا میں ’عسکری طاقت‘ کو نئی شکل دے رہے ہیںپاکستان میں گرایا گیا اسرائیلی ساختہ ہروپ ڈرون کیا ہے اور فضا میں اس کی نشاندہی کرنا مشکل کیوں ہے؟پاکستان اور انڈیا کی فوجی طاقت کا موازنہ: لاکھوں کی فوج سے جدید طیاروں، بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز تکگولہ باری، ڈرون حملوں یا جنگی صورتحال میں آپ خود کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟