انس الشریف: اسرائیلی حملے میں ہلاک ہونے والے الجزیرہ کے صحافی اور ان کا ’آخری پیغام‘

بی بی سی اردو  |  Aug 11, 2025

الجزیرہ کے نامہ نگار انس الشریف سے منسوب ایک ایکس اکاؤنٹ پر گذشتہ شب ان کا ’آخری پیغام‘ پوسٹ کیا گیا جس کے مطابق ’اگر آپ کو یہ پیغام موصول ہو تو جان لیں کہ اسرائیل مجھے قتل کرنے اور میری آواز کو خاموش کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔‘

اگرچہ اس پیغام میں چھ اپریل 2025 کی تاریخ درج ہے مگر ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ ’انس نے ہدایت دی تھی کہ ان کی ہلاکت کی صورت میں یہ پیغام شائع کیا جائے۔‘

اس پیغام میں لکھا ہے کہ ’میں نے تمام تر درد کے ساتھ زندگی گزاری اور بار بار نقصان اور غم جھیلا۔ اس کے باوجود میں ایک بھی دن سچ کہنے سے پیچھے نہیں ہٹا۔‘

الشریف کی موت سے چند منٹ قبل اس اکاؤنٹ پر ان کی غزہ جنگ کے لیے آخری کوریج شائع کی گئی جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’بمباری رُک نہیں رہی ہے۔ دو گھنٹے سے غزہ شہر پر اسرائیلی جارحیت میں شدت آتی جا رہی ہے۔‘

غزہ شہر کے الشفا ہسپتال کے ڈائریکٹر کے مطابق ہسپتال کی عمارت کے گیٹ کے قریب اسرائیلی حملے میں پانچ فلسطینیوں کی ہلاکت ہوئی۔ ہلاک ہونے والوں میں الجزیرہ کے نامہ نگار انس الشریف اور محمد قریقہ کے علاوہ الجزیرہ کے کیمرہ مین ابراہیم داہر اور مومین علیوا اور عملے کے ڈرائیور محمد نوفل شامل ہیں۔ فلسطینی خبر رساں ادارے وفا کے مطابق صحافی محمد سوب بھی زخمی ہوئے۔

صحافیوں کے خیمے پر حملے کے بعد اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں الشریف کو نشانہ بنانے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ’حماس کے رہنما انس شریف کو نشانہ بنایا جنھوں نے الجزیرہ کے صحافی کا روپ دھار رکھا تھا۔‘

اسرائیلی فوج نے ان پر ’حماس کے سیل کی قیادت کرنے اور اسرائیلی شہریوں اور فوجی دستوں کے خلاف راکٹ حملوں میں تعاون کرنے‘ کا الزام عائد کیا ہے۔

اسرائیلی فوج کے مطابق اس آپریشن میں عام شہریوں کو ہونے والے نقصان کو کم رکھنے کی کوشش کی گئی جس کے لیے فضائی نگرانی کی جا رہی تھی اور خفیہ معلومات اکٹھی کی گئی تھی۔

نشریاتی ادارے الجزیرہ نے کہا ہے کہ غزہ شہر کے الشفا ہسپتال کے قریب اسرائیلی حملے میں الجزیرہ کے پانچ صحافی مارے گئے ہیں۔

الجزیرہ کی خبر کے مطابق نامہ نگار انس الشریف اور محمد قريقع کے علاوہ کیمرہ مین ابراہیم ظہیر، محمد نوفل اور مومین علیوا ہسپتال کے مرکزی دروازے پر صحافیوں کے لیے ایک خیمے میں تھے جب اس خیمے کو نشانہ بنایا گیا۔

الجزیرہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’ٹارگٹڈ قتل‘ آزادی صحافت پر ایک اور پہلے سے سوچا سمجھا حملہ تھا۔‘ حملے کے فوراً بعد اسرائیلی فوج نے تصدیق کی کہ اس نے انس الشریف پر حملہ کیا تھا۔

اسرائیل کے الشریف پر الزامات جن کی الجزیرہ تردید کرتا ہے

اس سے قبل اسرائیلی فوج کے ترجمان افیخائی ادرعی نے بتایا تھا کہ الجزیرہ کے نامہ نگار انس الشریف کے ’حماس کے ساتھ رابطے ہیں اور وہ مسلح سرگرمیوں کی کوریج کرتے ہیں۔‘

اگست 2024 میں انھوں نے الشریف پر الزام عائد کیا تھا کہ ایک سکول پر بمباری کے بعد انھوں نے ’حماس اور جہادی سرگرمیوں پر پردہ ڈالا۔‘

ایکس پر ایک پوسٹ میں انھوں نے الزام عائد کیا ’آپ سکولوں کے اندر چھپ کر حماس اور اسلامی جہاد کے جرائم چھپا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ حماس کے دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد کے نام جانتے ہیں جو سکول پر حملے میں مارے گئے۔ لیکن آپ ایک جعلی میڈیا شو کر رہے ہیں جس کا غزہ کے رہائشیوں سے کوئی تعلق نہیں۔‘

جولائی 2025 میں انھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ الشریف الجزیرہ کے ان چھ صحافیوں میں سے ایک ہیں جو حماس یا اسلامی جہاد سے وابستہ ہیں۔ تاہم الجزیرہ نے اس کی تردید کی تھی۔

اسرائیلی فوج نے غزہ میں نہتی طبی ٹیم کے ’قریب جا کر 100 سے زیادہ گولیاں چلائیں‘غزہ کی ’آنکھیں اور کان‘ بننے والے صحافی بھی بھوک کا شکار: ’زیادہ کام نہیں کر پاتا کیونکہ مجھے چکر آنے لگتے ہیں‘حماس کا غزہ میں اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے کا خفیہ نظام اور ’چائے پینے کی دعوت‘’غزہ پر کنٹرول‘ کا اسرائیلی منصوبہ: فلسطینیوں کے لیے مزید مشکلات اور نتن یاہو کے لیے بڑا خطرہ

اس وقت الشریف نے اسرائیلی الزامات کو ’اشتعال انگیز‘ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ ’یہ مجھے خاموش کرنے کی کوشش ہے تاکہ الجزیرہ اور سوشل میڈیا پر میری کوریج کو روکا جائے۔‘

انھوں نے لکھا تھا کہ ’میرا پیغام واضح ہے۔ میں خاموش نہیں رہوں گا۔ میں رکنے والا نہیں ہوں۔ میری آواز ہر جرم کے خلاف گواہ بنے گی جب تک یہ جنگ روکی نہیں جاتی۔‘

جولائی 2025 کے آخر میں نیویارک شہر میں واقع ایک بین الاقوامی غیر سرکاری و غیر منافع بخش تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں انس الشریف کے خلاف ’دھمکیوں اور اشتعال انگیزی‘ کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔

اپنے بیان میں کمیٹی نے متعلقہ حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ میں کام کرنے والے تمام صحافیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کریں۔ انھوں نے زور دیا کہ جنگوں کے دوران صحافیوں کو نشانہ بنانا یا انھیں اکسانا صحافتی تحفظ کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

کمیٹی نے الجزیرہ کے بیان کی حمایت کی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ غزہ میں انس الشریف کو ہراسانی اور اشتعال انگیزی کا سامنا ہے اور انھیں خاموش کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔

الجزیرہ نے کہا تھا کہ اس کے نامہ نگار پیشہ ورانہ معیارات اور صحافتی ضابطہ اخلاق کے مطابق کام کرتے ہیں۔ اس نے بین الاقوامی برادری سے صحافیوں کے تحفظ کے لیے اپنی ذمہ داری ادا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ برائے اظہار رائے کی آزادی آئرین خان نے اس بارے میں کہا تھا کہ ایسی ’کسی جاری تنازع کے دوران اشتعال انگیزی کی وجہ سے صحافیوں کو نشانہ بنائے جانے کا امکان بڑھ جاتا ہے اور اس کے علاوہ میڈیا کی نگرانی کی صلاحیت کمزور ہوتی ہے۔‘

انھوں نے بین الاقوامی تنازعوں کے فریقین سے صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے تحفظ کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔

غزہ کی پٹی میں قائم سرکاری میڈیا آفس کے مطابق اکتوبر 2023 سے جولائی 2025 تک اس جنگ میں 232 صحافیوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

Reutersدسمبر 2024 کے دوران غزہ کی پٹی کے علاقے دیر البلاح میں ایک فضائی حملے میں صحافی احمد اللوح کی ہلاکت ہوئی تھیانس الشریف کون تھے؟

انس الشریف 1996 میں غزہ کی پٹی کے شمال میں واقع جبالیہ کیمپ میں پیدا ہوئے اور اکتوبر 2023 میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے الجزیرہ کے سب سے نمایاں فیلڈ رپورٹرز میں سے ایک ہیں۔

الشریف اکثر بم دھماکے کی جگہوں یا قریبی علاقوں سے براہ راست نشریات میں نظر آتے تھے۔

دسمبر 2023 میں انھوں نے اپنے 65 سالہ والد جمال الشریف کو ایک بم دھماکے میں کھو دیا تھا۔ اس دھماکے میں ان کے خاندان کے گھر کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس کے بعد بھی الشریف نے صحافتی کام جاری رکھا۔

سنہ 2024 کے دوران شاتی پناہ گزین کیمپ پر ایک فضائی حملے میں الشریف کے ساتھی اسماعیل الغول اور رامی الریفی ہلاک ہوئے تھے۔ انھوں نے اس واقعے کو بھی رپورٹ کیا تھا۔

الشریف شادی شدہ تھے۔ ان کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہیں۔

گذشتہ جنوری کے دوران ان کی اہلیہ نے اپنے تصدیق شدہ انسٹاگرام اکاؤنٹ پر اپنے دو بچوں کے ساتھ ان کی ایک تصویر پوسٹ کی تھی۔

حماس کا غزہ میں اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے کا خفیہ نظام اور ’چائے پینے کی دعوت‘’غزہ پر کنٹرول‘ کا اسرائیلی منصوبہ: فلسطینیوں کے لیے مزید مشکلات اور نتن یاہو کے لیے بڑا خطرہکیا اسرائیل بین الاقوامی قانون کو نظر انداز کر کے غزہ پر ’قبضہ‘ کر سکتا ہے؟ پانچ اہم سوالوں کے جوابغزہ کی ’آنکھیں اور کان‘ بننے والے صحافی بھی بھوک کا شکار: ’زیادہ کام نہیں کر پاتا کیونکہ مجھے چکر آنے لگتے ہیں‘اسرائیلی فوج نے غزہ میں نہتی طبی ٹیم کے ’قریب جا کر 100 سے زیادہ گولیاں چلائیں‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More