"آپ بے دل، سرد مہر اور حد سے زیادہ آزاد خیال بچوں کو کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ بہت سے لوگوں کے ایسے بچے ہوتے ہیں. مثال کے طور پر عائشہ خان کے بھی بچے تھے، لیکن ان کی موت پھر بھی الم ناک تھی۔ ہمارے پاس اور بھی ایسی مثالیں ہیں، مگر اس کیس میں میں والدین کو ذمہ دار سمجھتی ہوں۔ یہ ان کی ناقص تربیت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اب میں کیا کہہ سکتی ہوں؟ یہ آپ پر ہے کہ آپ اپنے بچوں کو کس طرح پروان چڑھاتے ہیں. آپ انہیں اچھا انسان بنا سکتے ہیں یا پھر بالکل آزاد چھوڑ سکتے ہیں کہ وہ اتنے لبرل اور لاپرواہ بن جائیں کہ والدین کی ذمہ داری ہی نہ اٹھائیں۔ میں توصیق حیدر کی اس بات سے متفق نہیں کہ ہمیں بچے نہیں پیدا کرنے چاہئیں۔ اچھے بچے اچھی تربیت کا نتیجہ ہوتے ہیں، جب والدین انہیں صحیح اور غلط کی پہچان کروائیں۔"
کراچی کی سینئر فنکارہ پروین اکبر نے حال ہی میں ماڈل و میزبان متھیرا کے شو "دی 21 ایم ایم شو" میں شرکت کی، جہاں انہوں نے کھل کر موجودہ دور کے والدین اور بچوں کے رویوں پر بات کی۔ پروین اکبر کا کہنا تھا کہ آج کے دور میں والدین کی کوتاہیاں بعد میں خود انہی کے لیے مشکلات کا باعث بنتی ہیں۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ بعض گھرانوں میں بچے اتنے بے حس اور خود غرض ہو جاتے ہیں کہ والدین کی بیماری یا پریشانی بھی ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اداکارہ نے عائشہ خان کے انتقال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ان کے بچے تھے، لیکن ان کی موت پھر بھی دردناک انجام کا منظر پیش کرتی ہے۔
پروین اکبر نے واضح کیا کہ اچھی نسل کی تربیت والدین کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ بچپن سے ہی صحیح تربیت اور اخلاقی اقدار سکھائیں تو بچے والدین کا سہارا بنتے ہیں، ورنہ لاپرواہی اور حد سے زیادہ آزادی انہیں والدین سے دور اور غیر ذمہ دار بنا دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس سوچ کی سخت مخالف ہیں کہ والدین بچوں کو پیدا ہی نہ کریں، بلکہ ان کا ماننا ہے کہ "اچھے بچے اچھی تربیت کی دین ہوتے ہیں"۔
یہ بیان سوشل میڈیا پر بحث کا نیا سلسلہ شروع کر سکتا ہے، خاص طور پر ان والدین کے لیے جو اپنی تربیتی ذمہ داریاں حالات یا مصروفیات کے نام پر پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔