سکیورٹی اداروں کو ’غیر معمولی‘ حراستی اختیارات کیوں دیے جا رہے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Aug 16, 2025

Getty Imagesوفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی چاہتے ہیں کہ ’دہشت گردی کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنائے جانے سے پہلے ناکام بنا دیا جائے‘

پاکستان کی قومی اسمبلی نے ملک میں دہشت گردی کی روک تھام کے لیے انسدادِ دہشت گردی قوانین میں ترمیم کی منظوری دی ہے جس کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ملکی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے افراد کو تین ماہ تک حراست میں رکھ سکتے ہیں۔

انسانی حقوق کے کارکن، حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں اور وکلا انسدادِ دہشت گردی قوانین میں ترمیم کے تحت دیے گئے اضافی اختیارات کو غیر آئینی قرار دے رہے ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ اس طرح کی ترامیم سے سکیورٹی اداروں کو مزید طاقتور بنایا جا رہا ہے۔ دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ ’غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات‘ ضروری ہیں۔

اس سے قبل بلوچستان اسمبلی نے بھی سکیورٹی اداروں کو یہ اختیار دیا ہے کہ مشتبہ افراد کو وارنٹ کے بغیر گرفتار کیا جا سکتا ہے۔

انسدادِ دہشت گردی کے قانون میں کیا ترمیم ہوئی اور اس کی ضرورت کیوں پڑی؟

قومی اسمبلی سے منظور ترامیمی قانون کے مطابق یہ تین سال کے لیے نافذالعمل ہو گا جس کے تحت ملکی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے افراد کو پہلے تین ماہ حراست میں رکھا جائے گا اور اگر ضرورت پڑی تو اس کے بعد پھر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی منظوری سے مزید تین ماہ بھی حراست میں رکھا جا سکے گا۔

حزب اختلاف کے بھرپور احتجاج کے دوارن منظور کروائے گئے اس ’متنازع‘ قانون کے مطابق اگر حراست کا حکم مسلح افواج یا سول مسلح افواج کی جانب سے جاری کیا جائے گا تو تفتیش مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کرے گی۔

اس میں پولیس کی جانب سے کم سے کم سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے درجے کا افسر، خفیہ ایجنسیوں، سول مسلح افواج، مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں پر مشتمل ہو گی۔

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے قومی اسمبلی میں جمع کروائی گئی ترمیم کے لیے تحریری اغراض و وجوہ میں بتایا کہ ملکی سلامتی کو لاحق ’سنگین خطرات‘ پر مشتبہ افراد کو تحویل میں لینے کی اجازت اس لیے ضروری ہے کہ ’دہشت گردی کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے ناکام بنا دیا جائے۔‘

انھوں نے بتایا کہ اس ترمیمی قانون سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دہشت گردی کے خلاف مزید موثر کارروائیاں کرنے کے لیے قانونی جواز ملے گا۔

پاکستان کی حکومت کا موقف ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کے قانون میں کی گئی یہ ترمیم نئی نہیں۔

اس سے پہلے بھی سنہ 2014 میں ترمیم سے دو سال کے لیے قانون میں یہ شق منظور کی گئی تھی جس کے تحت سکیورٹی اداروں کو یہ اختیار تھا کہ دہشت گردی سے متعلق سرگرمیوں میں ملوث مشتبہ افراد کو تین ماہ تک حراست میں رکھ کر تحقیقات کی جائیں تاکہ دہشت گردی سے متعلق ممکنہ کارروائیوں کو روکا جا سکے۔

تجزیہ کار مظہر عباس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور دہشت گردی بڑا چیلنج ہے لیکن صرف قوانین میں ترمیم اور نئے قوانین ان مسئلوں کا حل نہیں ہیں بلکہ اس کے لیے ایک ’جامع حکمت عملی ضروری ہے۔‘

BBCسکیورٹی ایجنسیوں کو ملنے والے اضافی اختیارات پر قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد میں شامل جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن جماعتوں نے بھی بھرپور اجتجاج کیاحکومت کا دفاع مگر اپوزیشن کی تنقید

سکیورٹی ایجنسیوں کو ملنے والے اضافی اختیارات پر قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد میں شامل جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن جماعتوں نے بھی بھرپور اجتجاج کیا ہے۔

پیپلز پارٹی کے رکنِ قومی اسمبلی سید نوید قمر نے کہا کہ اس طرح کا اطلاق صرف مخصوص حالات میں اور مخصوص لوگوں پر ہونا چاہیے۔

تاہم نوید قمر نے حکومتی بل میں ترمیم متعارف کروانے کے بعد قانون کے حق میں ووٹ دیا۔ جس کے بعد ’شکایات‘ کے بجائے اب ’ٹھوس اور وافر معلومات‘ کی بنیاد پر ہی کسی شخص کو حراست میں لیا جا سکے گا۔

جمعیت علمائے اسلام نے اسے ’کالا قانون‘ قرار دیا۔ اسمبلی کے اجلاس میں اس پر تنقید کرتے ہوئے جماعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ دہشت گردی کی نئی لہر کے نام پر ایسی قانون سازی ’جمہوریت نہیں، جبر کے نمائندے ہی کر سکتے ہیں۔‘

جے یو آئی ف کے سینیٹر کامران مرتضی کا کہنا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کے قانون میں پہلے ہی بہت نقائص ہیں اور ’نئی ترامیم متعارف کروا کر اس قانون کو مزید غیر انسانی، غیر دستوری بنا دیا ہے جو پارلیمنٹ کے لیے ایک دھبہ ہے۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’غیر معمولی حالات‘ صرف قانون میں تبدیلی کر کے ٹھیک نہیں ہو سکتے بلکہ ایک مکمل ’اپروچ‘ چاہیے ہوتی ہے۔

کامران مرتضی سوال کرتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ’کیسے شک کی بنیاد پر کسی شخص کی آزادی کے حق کو سلب کر سکتے ہیں اور اگر چھ ماہ تحویل میں رکھنے کے بعد اُسے رہا کر دیا جاتا تو اس کا ازلہ کیسے ہو گا؟‘

زیڈ 10 ایم ای: پاکستانی فوج کا نیا چینی ساختہ جنگی ہیلی کاپٹر جس کا موازنہ انڈیا کے ’امریکی اپاچی‘ سے کیا جا رہا ہےامریکہ میں پاکستانی آرمی چیف کی تقریر پر اسلام آباد اور نئی دہلی کے بیچ تناؤخواجہ آصف کا سرکاری افسران کی جانب سے پرتگال میں جائیدادیں خریدنے کا دعویٰ: پرتگال کا گولڈن ویزا کیا ہے اور یہ اتنا پُرکشش کیوں ہے؟پاکستان فوج میں ’راکٹ فورس کمانڈ‘ کیوں بنائی جا رہی ہے؟

تاہم پارلیمنٹ میں ہونے والی تنقید کے جواب میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کے ممالک اپنی سکیورٹی کے لیے خصوصی قانون سازی کرتے ہیں اور یہ قانون صرف مخصوص حالات اور مخصوص مدت کے لیے ہے۔

انھوں نے کہا کہ قانون کے تحت ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر گرفتار کیے گئے شخص کو 24 گھنٹوں میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ہو گا۔

خیال رہے کہ رواں سال جون میں بلوچستان میں انسداد دہشت گردی کے نئے قانون کے تحت سکیورٹی سے متعلق اداروں کو مشتبہ افراد کو کسی وارنٹ کے بغیر گرفتاری کے اختیارات دیے گئے تھے۔

اس قانون کے اطلاق سے اب تک کتنے لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے، اس بارے میں جاننے کے لیے بی بی سی نے ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند سے رابطہ کیا لیکن انھوں نے تاحال کوئی جواب نہیں دیا ہے۔

ادھر بلوچستان میں لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے دعویٰ کیا کہ قانون کی منظوری کے بعد سے 180سے زائد افراد کو مبینہ طور پر جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔

اگرچہ اسمبلی سے پاس ہونے والے اس مسودہ قانون کی کسی شق میں لاپتہ یا جبری گمشدہ افراد کا ذکر تو نہیں لیکن وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے اس قانون کو ایک اہم پیشرفت قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ لاپتہ افراد کے نام پر ملک کے خلاف جو مسئلہ کھڑا کیا گیا، وہ اس قانون کے ذریعے حل ہو گا۔

’قوانین کی نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی کی ضرورت ہے‘

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ متعلقہ سٹیک ہولڈرز سے بات چیت کرے کیونکہ اس قانون سے فیئر ٹرائل اور جمہوری آزادی کے اصولوں کی خلاف ورزی ہو گی۔

انسانی حقوق کے بعض کارکن کے خیال میں اس سے جبری گمشدگیوں کو قانونی شکل دی جا رہی ہے۔

Getty Imagesانسانی حقوق کے بعض کارکن کے خیال میں اس سے جبری گمشدگیوں کو قانونی شکل دی جا رہی ہے

انسانی حقوق کی کارکن اور وکیل ایمان مزاری کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بلوچستان میں بھی یہ قانون پاس کیا گیا اور قانون بننے کے بعد بھی کئی افراد کو لاپتہ کیا گیا ہے لیکن اُن کے اہلخانہ کو نہیں بتایا گیا۔

سینیٹر کامران مرتضی کا الزام ہے کہ بظاہر اس قانون سے یہ لگتا ہے کہ حکومت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ’غیر قانونی کارروائیوں کو قانونی تحفظ دے رہی ہے۔‘

ایمان مزاری کا کہنا ہے کہ اس ترمیم سے دنیا کو یہ تاثر دیا جا رہے کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کو مضبوط کر رہے ہیں مگر اس کا مقصد ایجنسیوں پر ’انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ہونے والی تنقید کو ختم کرنا ہے۔‘

تجزیہ کار مظہر عباس کے مطابق حالیہ کچھ عرصے میں جبری گمشدگیاں اور لاپتہ افراد کے مسئلے پر بہت بات ہوئی ہے اور اس ترمیم کے بعد اضافی اختیارات سے مسائل مزید بڑھیں گے۔

دوسری جانب وزیر مملکت داخلہ طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ اس قانون سے ’مسنگ پرسنز کے مسئلے سے نجات ملے گی۔‘

تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ سنہ 1997 میں پاکستان کے انسدادِ دہشت گردی کے قانون منظور کیا جس کا مقصد ہی دہشت گردی کے جرائم میں ملوث مجرمان کا فوری ٹرائل کرنا تھا۔

انھوں نے کہا کہ اے ٹی سی کے قانون پر اگر صحیح سے عمل درآمد ہو جائے تو مزید ترامیم کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ملزم کو عدالت کے سامنے پیش کریں اور تفیتش کے لیے ریمانڈ لیں۔

انھوں نے کہا کہ ’ضرورت سے زیادہ قوانین بنانے سے بہتر ہے کہ قانون کی حکمرانی اور انصاف کی فراہمی کے نظام کو مضبوط بنایا جائے۔‘

جے یو آئی سے وابستہ سینیٹر کامران مرتضی کا کہنا ہے کہ ریاست قانون کے مطابق چیزیں طے کرتی اور جب ریاست قانون سے بالاتر ہو کر فیصلے کرتے ہوئے تو پھر عوام اُسے تسلیم نہیں کرتے ہیں مگر ’فیصلہ سازوں کو یہی سمجھ نہیں آ رہا۔‘

سیکورٹی اُمور کے تجزیہ کار ڈاکٹر قمر چیمہ کا کہنا ہے کہ افغانستان سے انخلا کے بعد ملک میں دہشت گردی کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔

انھوں نے بلوچستان اور خیبر پختونخوا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نسلی اور مذہبی بنیادوں پر دوستیوں اور رشتہ داریوں کے سبب دہشت گردوں کو سہولت کاری میں مدد ملتی ہے اور انجان میں کیے گئے اقدامات سے ملک کو نقصان ہوتا ہے۔

شدت پسندوں کے حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے قمر چیمہ نے بتایا کہ ایک مہینے کے دوران آرمی کے چار آفسر اور کئی اہلکار مارے گئے ہیں۔

قمر چیمہ کے مطابق دہشت گردی کے مقابلے کے لیے معاشرے میں حساسیت کی ضرورت ہے کیونکہ معاشرہ ویسے سپورٹ نہیں کرنا جیسی ہونی چاہیے۔

پاکستان فوج میں ’راکٹ فورس کمانڈ‘ کیوں بنائی جا رہی ہے؟دلی سے دوری اور اسلام آباد سے قربت: ’پاکستان کو سمجھنا ہو گا کہ اس کا واسطہ ایک غیر روایتی امریکی صدر سے پڑا ہے‘مجید بریگیڈ کیا ہے اور امریکہ کی جانب سے اسے ’غیر ملکی دہشت گرد تنظیم‘ قرار دیے جانے کا کیا مطلب ہے؟امریکہ میں پاکستانی آرمی چیف کی تقریر پر اسلام آباد اور نئی دہلی کے بیچ تناؤزیڈ 10 ایم ای: پاکستانی فوج کا نیا چینی ساختہ جنگی ہیلی کاپٹر جس کا موازنہ انڈیا کے ’امریکی اپاچی‘ سے کیا جا رہا ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More