سیلاب کے بعد جب بونیر میں کفن کم ہونے پر دکانیں کھولنے کے اعلانات کروانا پڑے

اردو نیوز  |  Aug 16, 2025

خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع کی طرح ضلع بونیر میں بھی جب شدید سیلابی صورت حال پیدا ہوئی تو ہر طرف افراتفری پھیل گئی۔ کہیں لوگ اپنوں کو بچانے میں مصروف تھے تو کہیں لاشیں نکالی جا رہی تھیں۔

دن بھر یہ سلسلہ چلتا رہا تو ہسپتالوں سے پیغام پہنچایا گیا کہ اموات کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور ’کفن کے لیے کپڑا کم پڑ گیا ہے۔‘

اس دوران بونیر ٹریڈ یونین فیڈریشن کے صدر فضل ربی نے بونیر کے تمام دکان داروں کو سوشل میڈیا کے ذریعے پیغام بھیجا کہ وہ اپنی دکانیں کھول کر ہسپتالوں میں کفن پہنچائیں۔

فضل الٰہی بتاتے ہیں کہ ’ہمیں اطلاعات مل رہی تھیں کہ بڑی تعداد میں لوگ متاثر ہوئے ہیں اور اموات بڑھتی جا رہی ہیں جبکہ کفن کے لیے کپڑا نہیں تھا اس لیے ہم نے دکان داروں سے درخواست کی کہ وہ دکانیں کھول دیں۔‘

بونیر کے مرکزی بازار میں جمعے کو دکانیں بند ہوتی ہیں۔ اکثر دکان دار گھریلو مصروفیات کی وجہ سے دکان نہیں کھول پاتے جبکہ گذشتہ روز سیلابی صورتحال کے بعد ان کے لیے آنا محال ہوگیا تھا۔

بونیر کی ٹریڈ یونین فیڈریشن کے صدر فضل ربی خود بھی اس وقت پشاور میں تھے۔ وہ جب پشاور پہنچے تو انہیں اطلاع ملی کہ سیلاب کی وجہ سے اموات میں اضافے کا خدشہ ہے تاہم ضلع بھر میں کفن کی شدید قلت ہے۔

انہوں نے سیلاب کے پہلے روز کے حوالے سے اردو نیوز کو بتایا کہ ’مجھے خبر ملی کہ سانحے کے شکار افراد کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ کفن کا کپڑا ختم ہو چکا ہے۔ میں نے سوشل میڈیا پر اپیل کی کہ دکان دار اپنی دکانیں کھولیں اور کفن کے لیے کپڑا پیر بابا ہسپتال پہنچائیں۔‘

میں نے وعدہ کیا کہ ’اخراجات میں خود ادا کر دوں گا۔ اس اپیل کے بعد جو منظر سامنے آیا وہ پاکستانی معاشرے کی یکجہتی اور انسانیت کی ایک روشن مثال ہے۔‘

ان کے مطابق دکان داروں نے نہ صرف فوری طور پر دکانیں کھولیں اور کپڑا فراہم کیا بلکہ ایک بھی دکاندار نے اس کے بدلے پیسوں کا مطالبہ نہیں کیا۔

فضل ربی بتاتے ہیں کہ ’یہ ہمارے معاشرے کی خوبصورتی ہے کہ مصیبت کے وقت سب ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ کسی نے ایک روپیہ بھی نہیں مانگا۔‘

بونیر میں عامر زیب باچا کے خاندان کے 22 افراد سیلاب کی نذر ہو گئے (فوٹو: سوشل میڈیا)6  گھروں میں ایک خاندان کے 22 افراد ہلاک

گذشتہ 48 گھنٹوں میں شدید بارشوں اور فلیش فلڈز نے خیبر پختونخوا کے اس خوبصورت خطے کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔

صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے مطابق ان بارشوں اور سیلابی ریلوں نے صوبے بھر میں 307 زندگیاں نگل لیں جن میں 279 مرد، 15 خواتین اور 13 بچے شامل ہیں۔

علاوہ ازیں 23 افراد زخمی ہوئے جن میں 17 مرد، 4 خواتین اور 2 بچے ہیں۔ صوبے بھر میں 74 گھروں کو نقصان پہنچا جن میں سے 63 جزوی طور پر متاثر ہوئے اور 11 مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔

سب سے زیادہ تباہی ضلع بونیر میں ہوئی جہاں 184 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ بونیر کی تحصیل چغرزی میں گنشال وادی اپنی سرسبز چٹانوں اور پرسکون فضا کی وجہ سے مشہور ہے۔

گنشال کے گنبت گاؤں کے قریب لینڈ سلائیڈنگ اور سیلابی ریلوں نے کئی خاندانوں کو ملبے تلے دبا دیا۔

عامر زیب باچا خود اس سانحے کا شکار ہوئے ہیں۔ وہ گنشال میں رہتے ہیں اور محکمہ پولیس سے وابستہ ہیں۔

وہ اپنی داستان سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میرے والد، چار بہنیں، ایک چچا، دو چچیاں، ایک بھابھی، ایک کزن اور اس کی بیگم سمیت 22 افراد سیلاب کی نذر ہو گئے۔ اب تک ہم صرف 15 کی لاش نکال پائے ہیں اور باقیوں کو تلاش کر رہے ہیں، ہمیں کوئی سراغ نہیں مل رہا۔‘

عامر زیب کے مطابق انہوں نے اپنے خاندان کے 8 زخمیوں کو بھی نکال لیا ہے تاہم گھروں کے نشان مٹ گئے ہیں۔

پی ڈی ایم اے کے مطابق یہ حادثات سوات، بونیر، باجوڑ، تورغر، مانسہرہ، شانگلہ اور بٹگرام میں پیش آئے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)وہ اپنے خاندان کے متعلق بتاتے ہیں کہ ’ہمارا خاندان دو مقامات پر رہائش پذیر تھا۔ گنشال کے اس مقام پر چھ گھر تھے۔ ان میں سے چار گھر مکمل طور پر غائب ہو چکے ہیں جبکہ دو کے محض آثار باقی ہیں۔ مقامی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ریسکیو آپریشن کر رہے ہیں کیونکہ سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے امدادی ٹیمیں بروقت نہیں پہنچ پا رہیں۔‘

تحصیل چیئرمین چغرزی شریف خان بھی گذشتہ 24 گھنٹوں سے اپنے علاقے میں لوگوں کے پاس موجود ہیں اور ریسکیو آپریشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔

وہ چغرزی میں سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں سے متعلق بتاتے ہیں کہ ’اب تک ہمارے پاس جو اعداد و شمار ہیں ان کے مطابق صرف یو سی گلبانڈئی میں 40 افراد کی موت ہو چکی ہے جبکہ متعدد اب بھی لاپتہ ہیں۔ گنشال میں صرف ایک خاندان کے 22 افراد کے لاپتہ ہونے کی تصدیق ہوئی ہے اور ریسکیو آپریشن میں ضلعی انتظامیہ، ٹی ایم اے، اور مقامی رضاکار سب شامل ہیں۔‘

پی ڈی ایم اے کے مطابق یہ حادثات سوات، بونیر، باجوڑ، تورغر، مانسہرہ، شانگلہ اور بٹگرام میں پیش آئے ہیں۔

محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ شدید بارشوں کا سلسلہ 21 اگست تک جاری رہ سکتا ہے۔

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی ہدایت پر متاثرہ اضلاع کے لیے 50 کروڑ روپے کے امدادی فنڈز جاری کیے گئے ہیں جن میں سے 15 کروڑ روپے بونیر کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More