EPA
کبھی آپ نے معافی مانگی ہے؟ دل سے مانگی ہے؟ کیا معافی مل گئی؟ فرض کریں آپ نے دل سے مانگی اور معافی مل بھی گئی تو آپ کو کیسے پتہ چلے گا کہ معاف کرنے والے نے دل سے معاف کیا ہے؟
اگر جیل میں بند شخص حکمران وقت سے معافی مانگے گا تو سب سمجھیں گے کہ مصلحتاً مانگی ہے، دل سے نہیں مانگی اور معاف کرنے والا معاف کر بھی دے تو یہ بھی تاثر رہے گا کہ حکمران کی بھی اپنی کوئی مصلحت ہو گی، اس لیے اس نے کہہ دیا کہ چلو قبول ہوئی۔
لیکن اس طرح معافی مانگنے والے اور دینے والے کے دل میں ایک اور گانٹھ پڑ جاتی ہے جو کسی ناقابل معافی جرم کا باعث بنتی ہے۔
ہم بچوں کو بھی یہ سکھاتے ہیں کہ چلو سوری بولو، کسی محبوب کے دل میں دراڑ آ جائے تو سوری بول کر جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن مجھے ایک دفعہ سبق سکھایا گیا کہ ’آئی ایم سوری‘ کا دنیا کی کسی زبان میں کوئی مطلب نہیں۔
ہماری نسل کے صحافیوں کو زندگی کے سبق ایڈیٹروں نے کم اور ٹیکسی ڈرائیوروں نے زیادہ سکھائے ہیں۔ مجھے بھی معافی کا فلسفہ ایک بزرگ ٹیکسی ڈرائیور نے سمجھایا۔
سڑک پر رش زیادہ تھا، میں نے اسے کہا کہ چلیں، میں آپ کو شارٹ کٹ بتاتا ہوں۔ انھوں نے کہا سیدھے رستے پر چلتے ہیں پہنچ جائیں گے۔
میں نے کہا یہ دائیں والی پتلی گلی میں سے لیں۔ سفر طویل سے طویل تر ہوتا گیا۔ وہ پوچھتے رہے اب کدھر، اب کدھر۔ میں تکے لگا کر راستہ بتاتا گیا، جب ان کی پوری شام خراب کر کے منزل پر پہنچے تو میں نے کرایہ دیتے ہوئے سوری بول دیا۔
محمد حنیف کا کالم: ’کیا وہ عمران خان کو مار دیں گے؟‘عمران خان آخر کیا کھاتا ہے؟ محمد حنیف کا کالمعمران خان اور ایک پیش گفتہ موت کی روداد: محمد حنیف کا کالمعمران خان کی قید کے دو سال اور پارٹی قیادت سے ’مایوس لیکن پرامید‘ کارکن: ’ریاست آج بھی عمران خان کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتی ہے‘
انھوں نے روک کر کہا کہ ’تم بالکل معافی نہیں مانگ رہے۔ نہ تمھیں اپنی غلطی کا احساس ہے، اگر ہوتا تو تمھاری آنکھوں میں آنسو ہوتے، تم گڑگڑا کر معافی مانگتے۔ یہ جو کچھ روپے تم مجھے ٹپ کے طور پر دے رہے ہو یہ بھی اپنے پاس رکھو کیونکہ تم بالکل سوری شوری نہیں ہو۔‘
تو کیا اگر خان گڑگڑا کر، آنکھوں میں آنسو لا کر معافی مانگ لے تو مل جائے گی؟ کیا دل سے ملے گی؟ انھوں نے سیاست میں جو بھی غلطیاں کی ہوں، اتنا تو سیکھ لیا ہو گا کہ یہاں معافی مانگی بھی جعلی جاتی ہے، ملتی بھی وقتی ہے۔
کیا نواز شریف اور زرداری صاحبان سچے دل سے معافی مانگ کر اقتدار میں آئے ہیں؟
Reuters
کبھی ایسے ہوا ہے کہ آپ نے کسی پیار کرنے والے سے سوری کیا ہو اور اس نے آگے سے پوچھا ہو کہ پہلے یہ تو بتاؤ کے معافی مانگ کس بات کی رہے ہو۔ ذرا اپنے گناہ تو بتاؤ پھر سوچیں گے کہ تمھاری سوری دل سے ہے یا بس جان چھڑا رہے ہو؟
تو خان صاحب کی لسٹ تو اتنی طویل ہو گی کہ مرتب کرتے کرتے جیل میں چھ مہینے سال تو لگ ہی جائیں گے۔
اگر وہ صرف یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کریں کہ آپ کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار میں آیا تھا، پھر آپ کو ہی چاروں شانے چت کرنے کا خواب دیکھ بیٹھا تو بھی اعتراض اٹھ سکتا ہے کہ جس سے معافی مانگ رہے ہو اس کو اپنے جرم کا شریک بھی بتا رہے ہو۔
معافی کے لیے جس مقدس داستان سے تاویل لے کر فرشتوں اور شیطان کا ذکر کیا گیا وہ بھی ہمارے تناظر میں غیر مناسب ہے۔ زمین کی معافی زمین پر اور آسمان کی آسمان پر ہی رہنے دیں تو بہتر ہے۔
عمران خان کی قید کے دو سال اور پارٹی قیادت سے ’مایوس لیکن پرامید‘ کارکن: ’ریاست آج بھی عمران خان کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتی ہے‘عمران خان اور ایک پیش گفتہ موت کی روداد: محمد حنیف کا کالممحمد حنیف کا کالم: ’کیا وہ عمران خان کو مار دیں گے؟‘عمران خان آخر کیا کھاتا ہے؟ محمد حنیف کا کالمپی ٹی آئی رہنماؤں کو سزائیں: کیا عمران خان کی جماعت کے اندر یا باہر کچھ تبدیل ہونے والا ہے؟حکومتی دستاویزات کے مطابق اڈیالہ جیل میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی زندگی کیسی ہے؟