ایک امریکی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ پینٹاگون نے یوکرین کو امریکہ کے تیارکردہ میزائلوں کو روس کے خلاف استعمال کرنے سے روک دیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے اخبار وال سٹریٹ جنرل کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ خاموشی کے ساتھ ہونے والے اس اقدام میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے امریکی میزائل شامل ہیں، جس سے کیئف کے دفاع کی صلاحیت میں کمی آئی ہے۔
یہ رپورٹ ایک روز وال سٹریٹ جنرل میں شائع ہوئی تھی، جس میں امریکی حکام کا حوالہ دیا گیا تھا۔
خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ وہ فوری طور پر رپورٹ کی تصدیق نہیں کروا سکا۔
یہ خبر ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تین سال سے جاری روس یوکرین جنگ کے مزید طویل ہونے اور کوششوں کے باوجود کسی امن معاہدے تک نہ پہنچ پانے پر کچھ پریشان دکھائی دیتے ہیں۔
انہوں نے کچھ روز پیشتر اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتن سے ملاقات کے بعد یورپی رہنماؤں اور یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی سے بھی ملاقات کی تھی، تاہم اس کے بعد بھی جنگ بندی یا امن معاہدے کے حوالے سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی تھی۔
جمعے کو انہوں نے کہا تھا کہ وہ پھر سے روس پر اقتصادی پابندیاں لگانے یا پھر امن عمل سے الگ ہونے کے بارے میں سوچ بچار کر رہے ہیں۔
’میں ایک اہم فیصلہ کرنے جا رہا ہوں، جس میں بڑے پیمانے پر پابندیاں شامل ہو سکتی ہیں یا پھر بھاری ٹیرف، یا پھر یہ دونوں چیزیں ہی ہو سکتی ہیں۔ یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ نہ کریں اور کہہ دیں کہ یہ آپ کی لڑائی ہے۔‘
صدر ٹرمپ اب بھی روسی اور یوکرینی صدور کے درمیان ملاقات کے لیے پرامید ہیں تاہم ایسا ہونا کافی مشکل نظر آ رہا ہے۔
روسی وزیر خارجہ سرگائی لاوروف نے جمعے کو این بی سی کو بتایا کہ صدر زیلنکسی کے ساتھ بیٹھے کے حوالے سے کوئی ایجنڈا موجود نہیں ہے۔
ان کے مطابق ’جب ملاقات کا ایجنڈا تیار ہو جائے تو پوتن زیلنسکی سے ملاقات کے لیے تیار ہوں گے جو کہ اس وقت قطعی طور پر تیار نہیں ہے اور فی الحال ملاقات کی کوئی منصوبہ بندی بھی موجود نہیں ہے۔‘
وال سٹریٹ جنرل کے مطابق چونکہ وائٹ ہاؤس کی خواہش ہے کہ صدر پوتن امن مذاکرات میں شامل ہوں اور ان کو قائل کرنے کی کوشش بھی کی اور اس صورت حال میں یہ اہم ہے کہ پینٹاگون نے یوکرین کو روسی سرزمین کے اندر دور تک حملے کرنے سے روک دیا ہے۔اخبار کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر دفاع پیٹھ ہیگستھ نے طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے حتمی رائے دی ہے۔
اس حوالے سے ابھی تک یوکرینی حکام کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے، جبکہ وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون نے بھی موقف جاننے کے لیے کیے گئے رابطوں کا جواب نہیں دیا۔