ایشیئن چمپیئن شپ میں پاکستانی باڈی بلڈرز کے پانچ گولڈ میڈل: ’آج بھی پنکچر لگانے کا کام کرتا ہوں، مجھے اس پر کوئی ندامت نہیں‘

بی بی سی اردو  |  Aug 25, 2025

پاکستان نے باڈی بلڈنگ ایشیئن چمپیئن شپ میں پہلی مرتبہ مختلف کیٹیگریز میں پانچ گولڈ میڈل حاصل کر لیے ہیں۔ تھائی لینڈ میں 22 سے 24 اگست تک جاری رہنے والی اس چیمیپیئن شپ میں پاکستان کے چھ ایتھلیٹس نے شرکت کی تھی، جن میں سے پانچ گولڈ میڈل حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

22 سالہ فراست علی نے جونیئر کی 75 کلوگرام کیٹیگری میں گولڈ میڈل جیتا جبکہ 51 سالہ اعجاز احمد ماسٹر کیٹگری میں گولڈ میڈل جیتنے میں کامیاب رہے۔فیضان گل نے سپورٹس فزیک میں گولڈ میڈل جیتا جبکہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے بلال احمد نے 180 سینٹی میٹر کیٹگری میں سونے کا تمغہ جیتا، جبکہ شکیل احمد نے 182 سینٹی میٹر کیٹگری میں گولڈ میڈل اپنے نام کیا۔

ماسٹر کیٹگری میں گولڈ حاصل کرنے والے 51 سالہ اعجاز احمد کا تعلق خیبر پختونخوا کے محکمہ پولیس سے ہے، جونیئر گولڈ میڈل حاصل کرنے والے فراست علی کا تعلق ملتان سے ہے اور وہ ٹائروں کو پنکچر لگانے کے کام کرتے ہیں جبکہ کوئٹہ کے بلال احمد کے والد فالج کے مریض ہیں اور اُن کے مطابق وہ یہ تمغہ جیت کر اپنے مریض والد کو خوش کرنا چاہتے تھے۔

’جِم کے مالک سے چھپ کر پریکٹس کرتا تھا‘

جونیئر کی 75 کلو گرام کیٹیگری میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والے فراست علی کا تعلق ملتان سے ہے۔ وہ اس سے قبل ملکی سطح پر ’مسٹر پنجاب‘ کے ٹائٹل کے علاوہ ’مسٹر جونیئر ملتان‘ اور ’مسڑ ملتان‘ کے ٹائٹل بھی جیت چکے ہیں۔

فراست علی اس وقت تھائی لینڈ میں موجود ہیں اور بی بی سی اُردو سے فون پر بات کرتے ہوئے انھوں نے اپنی محنت اور کامیابی کی دلچسپ کہانی سُنائی ہے۔

فراست کے مطابق وہ 13 سال کے تھے جب ان کے والد وفات پا گئے۔ ’وہ انتہائی مشکل دور تھا۔ والد فوت ہوئے تو تعلیم حاصل کرنے کا تو کوئی امکان ہی نہیں تھا کیونکہ روٹی کے لالے پڑ گئے تھے۔ بس پھر میں نے پنکچر لگانے کے اوزار خریدے اور اپنے گھر کے سامنےہیپنکچر لگانے کا کام شروع کر دیا۔ میں آج بھی یہی کام کرتا ہوں اور میری روزی روٹی کا یہی واحد ذریعہ ہے۔ مجھے اس پر کوئی ندامت نہیں ہے کہ میں محنت مزدوری کرتا ہوں۔‘

فراست علی کی باڈی بلڈنگ شروع کرنے کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’والد کی وفات کے بعد پنکچر کا کام کرتے کرتے میں بالکل سوکھ کر کانٹ ہو گیا تھا۔ میری والدہ مجھے ایک ڈاکٹر کے پاس لے کر گئیں، تو ڈاکٹر نے باقاعدگی سے ورزش کا مشورہ دیا، جس پر والدہ نے گھر کے قریب ہی موجود پارک میں واقع ایک جم میں میرا داخلہ کروا دیا۔‘

’وہاں میں اکثر اوقات جم والوں سے چھپ کر ورک آوٹ کرتا کیونکہ اکثر مہینے ایسے ہوتے کہ میرے پاس دو سے تین سو روپے فیس ادا کرنے کے لیے نہیں ہوتے تھے۔ باڈی بلڈنگ کے لیے درکار خوراک پوری نہیں ہوتی تھی۔ کبھی کبھار تو پنکچر لگانے سے اتنا وقت نہیں ملتا تھا کہ میں ورک آوٹ کر سکوں۔‘

فراست علی کے مطابق انھی حالات میں انھوں نے محنت جاری رکھی اور اپنے جسم پر دھیان دیتے رہے اور اسی دوران 'مسٹر ملتان جونیئر' کے مقابلوں کا اعلان ہوا۔ ’میں نے ڈرتے ڈرتے اس میں حصہ لیا، مگر کامیاب ہو گیا۔ اس کامیابی کے بعد مجھے نعمان واحد قریشی کی صورت میں استاد مل گئے، جنھوں نے مجھے حوصلہ دیا کہ کٹھن وقت حوصلے سے گزارنا ہے، کیونکہ اچھا وقت آنے والا ہے۔‘

’اچھے وقت کی آس میں میں نے بہت محنت کی۔ یہاں تک کہ بعض أوقات میں خالی پیٹ بھی ورک آوٹ کر جاتا تھا۔‘

فراست بتاتے ہیں کہ جب ایشیئن چمپیئن شپ کے لیے انھیں ملتان سے ٹرائل کے لیے آنا تھا تو اس وقت ان کے پاس کرائے کے پیسے نہیں تھے۔

’پنکچر کے کام سے تو مجھے ہزار، پندرہ سو ہی روزانہ ملتے ہیں۔ البتہ مسٹر پنجاب کا ٹائٹل جیت کا اتنا ہوا کہ میں انسٹرکٹر بن گیا تھا، مگر اس میں بھی آمدن نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس سے بس مجھے اتنا فائدہ ہوا کہ مجھے ورک آوٹ کی مفت سہولت مل گئی ہے۔‘

فراست کے مطابق اس حالیہ مقابلے میں شمولیت کے لیے بھی انھوں نے 15 ہزار قرض لیا، اور اسلام آباد آنے جانے کے اخراجات ادا کیے اور مقابلوں سے پہلے خوراک کو بھی بہتر کیا۔

’جب میں پاکستان کی جانب سے ایشیئن چمپئین شپ کے لیے منتخب ہوا، تو اس کے بعد کے اخراجات اب باڈی بلڈنگ ایسوسی ایشن برداشت کر رہی ہے۔‘

’ایشیئن چمپیئن شپ کی پریکٹس کے دوران دو مرتبہ بے ہوش ہوا‘

ماسٹر کیٹگری میں گولڈ جیتنے والے 51 سالہ اعجاز احمد کا تعلق حیبرپحتونخوا کے شہر چارسدہ سے ہے تاہم وہ پشاور میں رہائش رکھتے ہیں اور کھیلوں میں خیبر پختونخوا پولیس کی نمائندگی کرتے ہیں۔

اعجاز احمد تین مرتبہ 'مسٹر پاکستان' کا اعزاز اپنے نام کر چکے ہیں جبکہ ورلڈ باڈی بلڈنگ چمپئین شپ میں انھوں نے چوتھی پوزیشن حاصل کی تھی۔ وہ ساؤتھ ایشیئن باڈی بلڈنگ چمپئین ہونے کے علاوہ دیگر ایشیئن چمپئین شپ کے مقابلوں میں نمایاں پوزیشنز حاصل کر چکے ہیں۔

اعجاز احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ تو خیبر پختونخواہ پولیس نے مجھے ملازمت دے دی اور میں اس وجہ سے باڈی بلڈنگ کے شوق کو جاری رکھے ہوئے ہوں، ورنہ تو میرے لیے بہت مشکل تھا۔ باڈی بلڈنگ ایک مہنگا اور سخت کھیل ہے۔ اس میں سب سے پہلے بندے کو اپنی خوراک کا خیال رکھنا پڑتا ہے اور اس پر خرچہ ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے ایشیئن چمپئین شپ کے لیے پاکستان کی جانب سے منتخب ہونے کے بعد سخت محنت کی تھی۔ میں دن میں تین مرتبہ پریکٹس کرتا تھا، مگر سہولتیں ناکافی ہوتی تھیں۔ کبھی بجلی غائب ہو جاتی اور کبھی کیا۔ مگر میں پریکٹس نہیں چھوڑ سکتا تھا کہ میں نے اس سے پہلے جن بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لیا ان کی بنیاد پر مجھے پتا تھا کہ اگر میں نے پریکٹس کی تو میں پاکستان اور خیبر پختونخوا کے لیے گولڈ میڈل جیت لوں گا۔‘

پاکستان انڈر 19 ٹیم کی بولر ماہ نور آفتاب جنھیں ’بھائی بیٹنگ نہیں دیتے تھے‘ارشد ندیم نے پاکستان کو ایشیئن ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ میں گولڈ میڈل دلوا دیا: ’وہ پرعزم اور بہتر سے بہتر ہونے کے لیے بے چین ہیں‘

اعجاز احمد کا کہنا تھا کہ پریکٹس کے دوران وہ دو دفعہ بے ہوش ہوئے۔ ’گرمی ہوتی ہے بجلی چلی جاتی ہے مگر پریکٹس تو نہیں چھوڑی جا سکتی تھی، اُوپر سے مناسب خوراک نہیں تھی۔ دوسری دفعہ بے ہوش ہوا تو مجھے ڈاکٹر نے کہا کہ مجھے ڈی ہائیڈریشن ہوئی ہے اور مجھے پانی کے علاوہ اپنی خوراک کا خیال رکھنا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بس جنون اور شوق کی بدولت ہی آگے بڑھتا چلا جا رہا ہوں۔‘

’والد کے لیے میڈل جیتا‘

بلال احمد کا تعلق پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے ہے۔ بلال اس سے قبل تین بین الاقوامی اور تین قومی مقابلوں میں گولڈ میڈل حاصل کر چکے ہیں۔

بلال احمد کے والد محمد ایوب سوئی گیس میں اسسٹنٹ مینجر ہیں۔ جب بلال نے پہلا مقابلہ جیتا تو وہ بہت خوش ہوئے اور انھوں نے ہر طرح کی سپورٹ فراہم کی یہاں تک کہ بین الاقوامی دوروں کا بھی وہ ہی انتظام کرتے تھے۔

’مجھے کہیں بھی جانا ہوتا، کسی سپانسر یا حکومتی مدد کی طرف نہیں دیکھا، بس والد سب کچھ کر لیتے تھے۔‘

تاہم بلال کے مطابق ’آٹھ ماہ پہلے میرے والد کو فالج کا حملہ ہوا اور ان کے جسم کا ایک حصہ مفلوج ہو چکا ہے۔ یہ میرے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔ جس کے بعد میں نے اپنی ساری توجہ والد کی طرف کر دی تھی۔ سپورٹس سے بھی کنارہ کر لیا مگر میں محسوس کر سکتا تھا کہ میرے اس فیصلے پر میرے مفلوج والد کچھ خفا تھے چنانچہ میں نے دوبارہ ورزش اور پریکٹس شروع کر دی۔‘

بلال احمد کہتے ہیں کہ ’صرف میری خوراک پر ایک ماہ میں ہزاروں روپے کا خرچہ آتا ہے۔ اب چونکہ میں یہ سب خود اپنے لیے کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ والد کیسے یہ سب کرتے تھے۔ یہاں تک کہ میں نے ایک ورلڈ چمپئین شپ میں جانا تھا تو انھوں نے اس کے لیے اپنی گاڑی فروخت کر دی تھی۔‘

بلال کے مطابق ’میرے والد میری کامیابیوں پر خوش ہوتے ہیں۔ ایشیئن چمپئین شپ میں بھی اس جذبے سے حصہ لیا ہے۔ والد کی 24 گھنٹے تیمارداری کرنی پڑتی ہے مگر اس کے ساتھ محنت بھی کرتا ہوں کہ جب میں جیتا ہوں تو والد خوش ہوتے ہیں اور یہ میڈل میں اپنے والد کو جا کر دوں گا۔‘

کیٹگری میں گولڈ جیتنے والے اعجاز احمد کہتے ہیں کہ ’ہمارے پاس بالکل وہ سہولتیں نہیں ہیں جو ہمارے مد مقابل انڈین، ملائیشیا یا دیگر ممالک کے کھلاڑیوں کو ملتی ہیں۔‘

’مجھے ان مقابلوں کے دوران انڈین کھلاڑی ملے اور انھوں نے پوچھا کہ میرے پاس کون کون سے سپانسر ہیں، جب میں نے انھیں بتایا کہ کوئی بھی نہیں تو وہ بڑے حیران ہوئے اور کہا کہ انڈیا میں تو حکومت مکمل سرپرستی کرتی ہے اور ایتھیلیٹ کے لیے ممکن بناتی ہے کہ اُن کو ا چھی سے اچھی سپانسر شپ ملے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں گذشتہ ورلڈ چمپیئن میں چوتھی پوزیشن پر آیا، اور اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ میں اپنی مناسب خوراک بھی پوری نہیں کر پا رہا تھا۔ اب جب کہ ایشین چمپئین شپ جیت لی ہے تو مجھے اس بات کی توقع ہے کہ پاکستان سپورٹس بورڈ کی جانب سے جو نقد انعام ملے گا اس سے میں اپنی خوراک بہتر کر کے ورلڈ چمپئین شپ میں گولڈ میڈل حاصل کرنے کی کوشش کروں گا۔‘

’میرٹ ہو تو پاکستانی کھلاڑی دنیا میں کسی سے پیچھے نہیں‘

ڈی جی پاکستان سپورٹس بورڈ یاسر پیر زادہ کا کہنا ہے کہ کھیلوں کی بہتری کے لیے اب بہترین نظام نافذ کیا جا رہا ہے اور تمام ایسوسی ایشنز کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ بین الاقوامی مقابلوں کے لیے باقاعدہ ٹرائل کر کے کھلاڑیوں کا انتخاب کریں۔

ان کے مطابق جو کھلاڑی منتخب ہوں گے ان کے حوالے سے تمام معلومات پاکستان سپورٹس بورڈ کی ویب سائیٹ پر موجود ہو گی تاکہ کسی کو کوئی شک نہ رہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اس طرح مختلف کھیلوں کی متوازی ایسوسی ایشنز اور ایک سے زیادہ ایسوسی ایشنز کو ختم کرنے کے لیے باقاعدہ الیکشن کمیشن قائم کر دیا گیا ہے جو صاف و شفاف انتخابات کروا رہے ہیں اور فنڈز صرف ان ایوسی ایشنز کو مل رہے ہیں تو تمام قواعد و ضوابط کے علاوہ اپنے آڈٹ کرواتی ہیں۔‘

دوسری جانب پاکستان باڈی بلڈنگ ایسوسی ایشن کے سیکریٹری سہیل انور کہتے ہیں کہ ’باڈی بلڈنگ میں پاکستان کے لیے گولڈ جیتنا کوئی مسئلہ نہیں ہے، مگر بات صرف اتنی تھی کہ کھلاڑیوں کا انتخاب صاف و شفاف طریقے سے اور میرٹ پر ہو۔ اگر میرٹ ہو تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ حالیہ چیمپیئن شپ کے لیے چھ رکنی ٹیم منتخب کرتے وقت کسی جانب سے کوئی مداخلت نہیں ہوئی اور مکمل طور پر میرٹ کو مدنظر رکھا گیا۔ ’ہم نے میرٹ پر ٹیم منتخب کی، اس میں حصہ لینے والے سب کے سب غریب اور محنت کش خاندانوں کے بچے ہیں جنھوں نے ثابت کر دیا کہ اگر انھیں مناسب مواقع ملے تو وہ اس سے بھی زیادہ کر سکتے ہیں۔‘

ارشد ندیم نے پاکستان کو ایشیئن ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ میں گولڈ میڈل دلوا دیا: ’وہ پرعزم اور بہتر سے بہتر ہونے کے لیے بے چین ہیں‘پاکستان انڈر 19 ٹیم کی بولر ماہ نور آفتاب جنھیں ’بھائی بیٹنگ نہیں دیتے تھے‘بسمہ معروف: ’بیٹی کے آنے سے زندگی بدل گئی ہے مگر کرکٹ کو بھی دیکھنا ہے‘انڈیا کی وہ خواتین شطرنج کھلاڑی جنھوں نے تاریخ رقم کر دی!’ناقابل شکست‘ باووما: سیاہ فام ’کوٹہ کھلاڑی‘ جنھوں نے جنوبی افریقہ کو ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن بنایاپاکستان میں فائٹر پائلٹ بننے کا خواب مگر زمبابوے کی نمائندگی: سکندر رضا سمیت پانچ پاکستانی نژاد کرکٹرز کی کہانیاں
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More