بنگلہ دیش سے بہتر ہوتے تعلقات، پاکستان میں مقیم بنگالی برادری شہریت کے لیے پُرامید

اردو نیوز  |  Aug 25, 2025

پاکستان میں بسنے والے ہزاروں بنگالی گذشتہ کئی دہائیوں سے شہریت کے بحران کا شکار ہیں۔ ان میں بیشتر کے والدین یا دادا دادی قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان سے یہاں منتقل ہوئے تھے، مگر سنہ 1971 کے بعد ایک بڑی تعداد قانونی حیثیت کے سوالات میں الجھ گئی۔ نتیجتاً ان کی آئندہ نسلوں کو شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور دیگر بنیادی سہولتوں کے حصول میں مشکلات پیش آتی رہی ہیں۔

اب حالیہ حکومتی اقدامات کے بعد یہ برادری پُرامید ہے کہ انہیں پاکستانی شہری تسلیم کیے جانے کا عمل آسان بنایا جائے گا۔

کراچی میں لانڈھی، کورنگی، مھچر کالونی، لیاری، اورنگی ٹاؤن، موسی کالونی سمیت دیگر علاقوں میں بڑی تعداد میں بنگالی برادری آباد ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر مچھلی پکڑنے، محنت مزدوری، چھوٹے کاروبار اور غیررسمی شعبوں میں کام کرتے ہیں۔ لیکن قانونی حیثیت کے شواہد نہ ہونے کی وجہ سے ان کی زندگی مسلسل مشکلات سے دوچار رہی ہے۔

بنگالی خاندانوں کی دوسری اور تیسری نسل کے بچے یہیں پیدا ہوئے، یہیں پڑھتے ہیں اور پاکستانی زبان و ثقافت میں رچے بسے ہیں، مگر شہریت کے سوال پر وہ ہر دروازے سے مایوسی سمیٹتے ہیں۔

کورنگی کے علاقے میں مقیم 52 سالہ رحمت علی کے والد سنہ 1968 میں ڈھاکہ سے کراچی آئے تھے۔ رحمت علی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے اپنی جوانی شناختی کارڈ کے لیے دھکے کھاتے گزاری۔ ہر بار یہ کہا جاتا ہے کہ آپ کے والد کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا اس لیے آپ پاکستانی نہیں ہیں۔ اب میرے بچے بھی وہی مشکلات جھیل رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ حالیہ حکومتی یقین دہانیوں نے ان میں یہ امید جگائی ہے کہ شاید ان کے بچوں کو وہ مشکلات نہ سہنی پڑے جو انہوں نے برداشت کی۔

مچھر کالونی میں مقیم 28 سالہ صائمہ نے آٹھویں جماعت تک تعلیم مکمل کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’کئی بار انہوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن شناختی دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے وہ اب تک میٹرک نہیں کر سکی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستانی ہیں، ہماری پہچان یہی ملک ہے لیکن کاغذات کے بغیر زندگی رکی ہوئی لگتی ہے۔‘

صائمہ نے مزید کہا کہ اگر ان کے پاس قومی شناختی کارڈ آ جائے تو وہ تدریس یا بینکنگ کے شعبے میں اپنا کیریئر بنا سکتی ہیں۔

اتوار کو ڈھاکہ میں ہونے والی تقریب میں پاکستان اور بنگلہ دیش نے چھ معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے۔ (فوٹو: پاکستان دفتر خارجہ)پاکستان کا شہریت ایکٹ 1951 واضح طور پر کہتا ہے کہ جو لوگ 1971 سے پہلے موجودہ پاکستان میں مقیم تھے اور ان کی اولاد یہیں پیدا ہوئی ہے وہ پاکستانی شہریت کے حقدار ہیں۔

تاہم نادرا اور متعلقہ اداروں کی پیچیدہ پالیسیوں نے اس عمل کو کٹھن بنا دیا ہے۔ حالیہ حکومتی اعلانات میں کہا گیا ہے کہ شہریت کے معاملات کو آسان بنایا جا رہا ہے تاکہ شناختی نظام مزید بہتر ہو سکے۔

شہریت کے اس مسئلے پر بات کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان اور بنگلہ دیش کے حالیہ سفارتی تعلقات بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ ڈھاکہ میں حالیہ معاہدے اور مفاہمتی یادداشتیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ دونوں ممالک ماضی کے تنازعات کو پس پشت ڈال کر آگے بڑھنے کے خواہاں ہیں۔

اتوار کو ڈھاکہ میں ہونے والی تقریب میں پاکستان اور بنگلہ دیش نے چھ معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے، جن میں سفارتی و حکومتی پاسپورٹ پر ویزا ختم کرنے کا معاہدہ، علمی اور صحافتی اداروں کے درمیان تعاون، فارن سروس اکیڈمیز میں روابط اور تجارتی تعلقات کے فروغ سے متعلق اقدامات شامل ہیں۔

دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان نے ’پاکستان بنگلہ دیش علمی راہداری‘ کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ اس کے تحت اگلے پانچ برسوں میں 500 بنگلہ دیشی طلبہ کو پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے لیے وظائف دیے جائیں گے، جن میں ایک چوتھائی وظائف طب کے شعبے میں ہوں گے۔

مزید برآں 100 بنگلہ دیشی سول سرونٹس کے لیے تربیتی پروگرامز کا اہتمام ہو گا جبکہ پاکستان ٹیکنیکل اسسٹنس پروگرام کے تحت وظائف کی تعداد پانچ سے بڑھا کر 25 کر دی گئی ہے۔

پاکستان میں بسنے والے ہزاروں بنگالی گذشتہ کئی دہائیوں سے شہریت کے بحران کا شکار ہیں۔ (فائل فوٹو: بلال کریم مغل)یہ اقدامات دونوں ممالک کے تعلیمی اور سماجی تعلقات کو نئی جہت فراہم کریں گے۔

ڈھاکا میں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بنگلہ دیش کے مشیر خارجہ، مشیر تجارت، امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر شفیق الرحمان اور چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس سے ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں دوطرفہ تعلقات، اقتصادی تعاون، علاقائی مسائل، سارک کی بحالی سمیت دیگر موضوعات پر بات چیت ہوئی۔

دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک نئی لچک کو پاکستان میں بسنے والے بنگالی شہری بھی مثبت قدم قرار دے رہے ہیں۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More