روس کیسے رازداری سے دنیا میں اپنے بیانیے کی جنگ جیتنے کی کوشش کر رہا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Aug 26, 2025

BBC

جیویئر گیلارڈو اپنی صبح کا آغاز ٹیلی ویژن پر کلاسیکی موسیقی کا پروگرام دیکھ کر کرنا پسند کرتے ہیں۔ یہ اُن کا معمول ہے، جو اُنھیں بطور ٹرک ڈرائیور اپنے کام پر جانے سے پہلے تازہ دم ہونے کا ایک موقع فراہم کرتا ہے۔

لیکن گذشتہ ماہ کی ایک صبح جب اُنھوں نے اپنا ٹی وی آن کیا تو موسیقی کے بجائے سکرین پر جنگ سے متعلق خبریں چل رہی تھیں اور ٹی وی سکرین پر ایسے ٹی وی کا لوگو تھا جس کے بارے میں اُنھوں نے کبھی نہیں سُنا تھا۔

اُنھوں نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ 20 منٹ بعد اُنھوں نے ٹی وی بند کر دیا۔

ان کی ٹی وی سکرین کے نیچے کونے میں ایک سبز لوگو پر ’RT‘ لکھا ہوا تھا۔ مزید تلاش کرنے سے پتا چلا کہ یہ تو روسی چینل ہے۔

چلی میں ایک نجی ٹی وی چینل ’ٹیلی کینال‘ پر یہ الزام ہے کہ اُس نے اپنا سگنل روس کے سرکاری حمایت یافتہ براڈ کاسٹر ’RT‘ کو دیا ہے۔’RT‘ پہلے ’رشیا ٹوڈے‘ تھا۔

اس معاملے پر ملک کے براڈکاسٹنگ ریگولیٹر نے ’ٹیلی کینال‘ چینل کے خلاف براڈکاسٹنگ قانون کی ممکنہ خلاف ورزی پر کارروائی شروع کر دی ہے اور اب چینل انتظامیہ کے جواب کا انتظار کیا جا رہا ہے۔

ٹیلی کینال نے بی بی سی کی جانب سے اس معاملے پر تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

لیکن اس چینل کے ناظرین کی اُلجھن برقرار ہے۔

جیویئر گیلارڈو کہتے ہیں کہ ’میں پریشان ہو گیا تھا۔ چینل انتظامیہ نے یہ سب کرنے سے پہلے کسی قسم کا کوئی اعلان نہیں کیا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آیا کہ اُنھوں نے یہ سب کیوں کیا۔‘

گذشتہ تین برسوں میں روسی سرکاری حمایت یافتہ نیوز چینل ’RT‘ اور نیوز ایجنسی ’ریڈیو سوپتنک‘ نے اپنی بین الاقوامی کوریج کا دائرہ کار بڑھایا ہے۔ اب یہ افریقہ، بلقان، مشرق وسطیٰ، جنوبی مشرقی ایشیا اور لاطینی امریکہ کے ممالک میں بھی اپنے قدم جما رہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سب مغربی ممالک اور امریکہ میں ’RT‘ کی نشریات پر پابندی کے بعد کیا گیا ہے۔

فروری 2022 میں یوکرین پر روس کے بڑے حملے کے بعد، جنگ کے بارے میں غلط معلومات پھیلانے کے لیے RT کی نشریات پر امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور یورپی یونین کے ساتھ ساتھ بڑی ٹیک کمپنیوں کی طرف سے پابندیاں عائد کر دی گئیں۔

امریکی حکام نے 2024 میں RT ایگزیکٹیوز- بشمول اِس کی ایڈیٹر انچیف مارگریٹا سائمونیان،پر ’عوامی اعتماد‘ کو نقصان پہنچانے کی مبینہ کوششوں کے الزام میں پابندی عائد کر دی تھی۔

یہ پابندیاں ایسے وقت میں لگائی گئیں، جب امریکی حکام نے الزام عائد کیا کہ روس، امریکہ کے صدارتی انتخابات میں مداخلت کی کوشش کر رہا ہے اور ان کوششوں میں RT پر بھی اُنگلیاں اُٹھائی گئیں۔ تاہم اس نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔

لیکن امریکی پابندیاں کے باوجود ماہرین کے مطابق ’آر ٹی‘ نے دنیا کے مختلف ملکوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے۔

سنہ 2023 میں ’آر ٹی‘ نے الجزائر میں ایک بیورو کھولا جبکہ سربیا میں ٹی وی سروس کا آغاز کیا گیا۔ افریقہ، جنوب مشرقی ایشیا، انڈیا اور چین کے صحافیوں کے لیے اس نے مفت تربیتی کورسز پروگرام شروع کیے۔

براڈ کاسٹر نے یہ اعلان بھی کر رکھا ہے کہ وہ انڈیا میں ایک دفتر کھولے گا۔ اس دوران سپوتنک نے فروری میں ایتھوپیا میں ایک نیوز روم کا آغاز کیا۔

یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب مغربی میڈیا کے بجٹ میں کٹوتیاں کی جا رہی ہیں اور بعض ممالک اپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں تبدیلیاں لا رہے ہیں۔ مغربی میڈیا نے دنیا کے کئی حصوں میں اپنی سروسز بھی بند کی ہیں۔

دو برس قبل بی بی سی نے اپنی عربی ریڈیو سروس کو بند کر کے ڈیجیٹل سروس کا آغاز کیا تھا۔ لیکن اس کے بعد غزہ اور سوڈان کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ریڈیو سروس بحال کی گئی۔ اسی برس روس نے اس خلا کو دیکھتے ہوئے لبنان میں ’RT‘ کی 24 گھنٹے کی ریڈیو نشریات کا آغاز کر دیا۔

رواں برس امریکی حکومت کی اعانت سے چلنے والے بین الاقوامی نشریاتی ادارے ’وائس آف امریکہ‘ کے زیادہ تر عملے کو بھی فارغ کر دیا گیا ہے۔

سٹینفرڈ یونیورسٹی کی ماہر سیاسیات ڈاکٹر کیتھرین سٹونر کہتی ہیں ’روس، پانی کی طرح ہے۔ جہاں سیمنٹ میں دراڑ پڑتی ہے، یہ وہاں گھس جاتا ہے۔‘

لیکن ماہرین یہ سوال بھی اُٹھا رہے ہیں کہ روس کی ان کاوشوں کا کیا انجام ہو گا؟ اور بدلتے ہوئے ورلڈ آرڈر کے دوران اس سب کا کیا مطلب ہے؟

’سب سازشی تھیوری نہیں ہے‘

مانچسٹر یونیورسٹی میں رشیئن سٹڈیز کے پروفیسر سٹیفن ہچنگز کہتے ہیں کہ ’مغرب سے باہر کے ممالک امریکہ اور مغرب مخالف سوچ کی وجہ سے فکری، ثقافتی، اور نظریاتی طور پر بہت زرخیز علاقے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ روسی پراپیگنڈا بھی ہوشیاری سے پھیلایا جاتا ہے: اس کا مواد خاص علاقوں کے ناظرین اور سامعین کی فکری اور نطریاتی سوچ کے مطابق تیار کیا جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ مثال کے طور پر مغربی ممالک میں تو اس بات پر اتفاق ہے کہ ’آر ٹی‘ ڈس انفارمیشن اور روس کاپراپیگنڈا پھیلانے والا براڈ کاسٹر ہے۔ تاہم دنیا کے مختلف ممالک میں اسے ایک مربوط ادارتی پالیسی والا جائز براڈ کاسٹر سمجھا جاتا ہے۔

اُن کے بقول بہت سے ناظرین بھولے پن کی وجہ سے ’ڈس انفارمیشن‘ کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔

گلاسکو یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے لیکچرر ڈاکٹر رائس کریلی کہتے ہیں کہ ’آر ٹی‘ کی کوریج دنیا بھر میں بہت سے ناظرین کو متاثر کر سکتی ہے۔

اُن کے بقول خاص طور پر ایسے لوگ جو عالمی ناانصافیوں اور عدم مساوات کی وجہ سے فکر مند ہیں اور مغرب کو اس کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔

’نہایت باریکی سے کی گئی ہیرا پھیری‘

آر ٹی کی ویب سائٹ ایک معیاری نیوز ویب سائٹ کی طرح نظر آتی ہے اور یہ کچھ سٹوریز کو درست طریقے سے رپورٹ کرتے ہیں۔

اوپن یونیورسٹی میں سیاست اور بین الاقوامی علوم کے سینیئر لیکچرر ڈاکٹر پریشس چٹرجے ڈوڈی کا استدلال ہے کہ ’یہ ایک بہت ہی محتاط انداز میں کی گئی ہیرا پھیری ہے۔‘

ڈاکٹر پریشس نے پروفیسر ہچنگز، ڈاکٹر کریلی اور دیگر کے ساتھ مل کر ’آر ٹی‘ پر ایک کتاب بھی لکھی ہے۔

ان ماہرین نے مئی 2017 اورمئی 2019 کے درمیان ’آر ٹی‘ کی خبروں اور بلیٹینز کا جائزہ لیا اور یہ نتیجہ اخد کیا کہ سٹوریز کی بنت روس کے ریاستی بیانیے کو فروغ دینے کے تناظر میں کی گئی۔

دو میل فی سیکنڈ کی رفتار والے ہائپر سونک میزائل کی دوڑ جو اپنے اہداف کو ’خاک میں ملا سکتے ہیں‘پوتن کا خفیہ ہتھیار: سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں کی جانے والی روس کی کارروائیاں جو مغربی دنیا کو پریشان کیے ہوئے ہیں’تاریخ کا بہترین سودا‘: 72 لاکھ ڈالر میں روس سے الاسکا کی خریداری جسے امریکہ میں ’احمقانہ‘ قرار دیا گیاعالمی طاقتوں کے بیچ دنیا کے پراسرار خطے پر غلبے کی جنگ اور بڑھتی ہوئی جاسوسی کی کارروائیاں جو اب خطرناک شکل اختیار کرتی جا رہی ہیں

مثال کے طور پر یورپی ممالک میں مختلف معاملات پر ہونے والے احتجاجی مظاہروں کو بھرپور کوریج دی گئی۔ لیکن روس میں اسی نوعیت کے مظاہروں کی کوریج کے بجائے فوجی مشقوں پر مشتمل سٹوریز کا نشر کیا گیا۔

جائزے میں یہ بھی سامنے آیا کہ ’آر ٹی‘ کی جانب سے مختلف مواقع پر جھوٹے دعوے بھی کیے گئے۔ سنہ 2014 میں روس نے کرائمیا پر فوجی کارروائی کے بعد قبضے کو ایک ’پرامن الحاق‘ کے طور پر پیش کیا۔

اس نے 2022 میں یوکرین پر حملے اور اس دوران جنگی جرائم کے الزامات کو منظم طریقے سے مسترد کیا۔

مبصرین کے مطابق آر ٹی نے ایسی خبریں بھی شائع کین جس میں جولائی 2014 میں ملائیشین ایئر لائنز کے ’ایم ایچ 17‘ طیارے کو مار گرانے کا ذمہ دار یوکرین کو ٹھہرایا گیا۔ حالانکہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تفتیش کاروں کی تحقیقات میں یہ سامنے آیا کہ روس اس طیارے کو مار گرانے کا ذمہ دار تھا۔

سنہ 2018 اور سنہ 2022 کے درمیان محققین نے 109 لوگوں کا انٹرویو کیا جنھوں نے لائسنس منسوخی سے قبل برطانیہ میں ’آر ٹی‘ دیکھا تھا۔

ڈاکٹر چٹرجے ڈوڈی کہتی ہیں کہ انھوں نے مشاہدہ کیا کہ بہت سے لوگوں نے کہا کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ ’آر ٹی‘ متعصب ہے۔

روس نے افریقہ پر توجہ مرکوز کیوں کی ہے؟

پروفیسر ہچنگز کے مطابق، روسی سرکاری میڈیا کی سب سے بڑی حالیہ توسیع افریقہ میں ہے۔

فروری میں، روسی حکام نے سپوتنک کے لیے ایک نئے بیورو کے آغاز کے لیے ایتھوپیا کا سفر کیا۔سپوتنک پہلے ہی افریقہ کے کچھ حصوں میں انگریزی اور فرانسیسی زبانوں میں نشریات کرتا ہے، اور اس نے امہاری کو بھی شامل کیا ہے، جو ایتھوپیا کی سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے۔

آر ٹی کے ایڈیٹر ان چیف کے مطابق ’آر ٹی‘ نے لندن، پیرس، برلن اور امریکہ کی فنڈنگ کو افریقہ منتقل کیا ہے اور اس کا ہدف افریقی ممالک میں فرانسیسی زبان بولنے والے افراد جن کے لیے فرانسیسی زبان کے چینل کو دوبارہ منظم کیا جا رہا ہے۔

پچھلے سال روسی سرکاری میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ افریقہ میں RT کے سات بیوروز ہیں، حالانکہ اس کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی جا سکتی۔

بہت سے افریقی باشندے پہلے ہی روس کے بارے میں دوستانہ خیالات رکھتے ہیں، استعماراور سامراج مخالف جذبات، سرد جنگ کے دوران آزادی کی تحریکوں کے لیے سوویت حمایت کی وجہ سے یہاں روسی سرکاری میڈیا اپنے قدم جما رہا ہے۔

ڈاکٹر کریلی کا کہنا ہے کہ اس نئی توجہ کے ساتھ، روس مغربی اثر و رسوخ کو کم کرنے، اپنے اقدامات کے لیے حمایت اور اقتصادی تعلقات استوار کرنے کی امید رکھتا ہے۔

افریقی رپورٹرز کے لیے آر ٹی کے کورسز

جب آر ٹی نے اپنا پہلا آن لائن کورس شروع کیا جس کا مقصدد افریقی رپورٹرز اور بلاگرز کو تربیت دینا تھا تو بی بی سی گلوبل ڈس انفارمیشن یونٹ بھی اس سے متعلق جاننے کے لیے اس میں شامل ہوا۔

آر ٹی کے ڈائریکٹر جنرل الیکسی نیکولوف نے طلبا کو بتایا کہ ’ہم حقائق کی جانچ پڑتال میں بہترین ہیں اور کبھی بھی غلط معلومات فراہم کرتے ہوئے نہیں پکڑے گئے۔‘

ایک سیشن میں اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ غلط معلومات کی روک تھام کیسے کی جائے۔

انسٹرکٹر نے کہا کہ 2018 میں شام کے شہر دوما میں روسی حمایت یافتہ اسد حکومت کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کا حملہ، ’جعلی خبروں کی ایک عام مثال‘ تھی۔

اس میں کیمیائی ہتھیاروں کی ممانعت کی تنظیم کی طرف سے دو سالہ تحقیقات کے نتائج کو نظر انداز کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ یہ حملے شامی فضائیہ نے کیے تھے۔

انسٹرکٹر نے 2022 میں یوکرین کے قصبے بوچا میں روسی افواج کے ہاتھوں یوکرینی شہریوں کے بڑے پیمانے پر قتل کو بھی مسترد کرتے ہوئے اسے ’سب سے زیادہ معروف جعلی خبر‘ قرار دیا۔ حالانکہ اقوام متحدہ کے اعلی سطحی کمیشن اور آزادانہ شواہد نے روسی فوج کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

کورس میں حصہ لینے والے بہت سے رپورٹرز پریشان نظر آئے۔ لیکن کچھ نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کے خیال میں ’آر ٹی‘ سی این این اور الجزیرہ کی طرح ہی ایک بڑا عالمی براڈ کاسٹر ہے۔

جب بی بی سی نے دسمبر 2024 میں ایتھوپیا کے ایک صحافی کا انٹرویو کیا، تو انھوں نے بوچا کے قتل کو ’مرحلہ وار واقعہ‘ قرار دے کر ’آر ٹی‘ کے دعووں کی حمایت کی۔ مذکورہ رپورٹر کی سوشل میڈیا پروفائل پر بھی پوتن کی تصویر تھی۔

سیرا لیون سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے غلط معلومات اور غلط معلومات کے خطرات کو تسلیم کیا لیکن اس وقت مزید کہا کہ ہر میڈیا ادارے کا خبر پیش کرنے کا اپنا انداز ہوتا ہے۔

مشرق وسطیٰ سے لاطینی امریکہ تک

پروفیسر ہچنگس کے مطابق، مشرق وسطیٰ میں، روس کے سرکاری میڈیا جیسے آر ٹی عربی اور سپوتنک عربی اسرائیل-غزہ جنگ کی اپنی کوریج کو فلسطینیوں کے حامی سامعین کو راغب کرنے کے لیے تیار کر رہے ہیں۔

دوسری جگہوں پر، بشمول لاطینی امریکہ میں ’آر ٹی‘ بھی اپنی رسائی کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

اس کی ویب سائٹ کے مطابق ’آر ٹی‘ خطے کے 10 ممالک میں مفت دستیاب ہے۔ ارجنٹائن، میکسیکو اور وینزویلا ان میں شامل ہیں۔ یہ 10 دیگر ممالک میں کیبل ٹیلی ویژن پر بھی ہے۔

کیوبا اور میکسیکو کے مؤرخ ڈاکٹرارمینڈو چاگوسیڈا کہتے ہیں کہ ہسپانوی زبان میں فری ٹو اِیئر ٹیلی ویژن اس کی کامیابی کا حصہ ہے۔

گو کہ ’آر ٹی‘ سنہ 2022 سے دنیا بھر میں یوٹیوب میں بند ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ دنیا کے کچھ ملکوں میں چل رہی ہے۔

ارجنٹائن میں 52 سالہ کارپینٹیر اینیبل بیگوریا کہتے ہیں کہ ’آر ٹی‘ لاطینی امریکہ کے تمام ممالک کی خبروں کا ایک بھرپور جائزہ پیش کرتا ہے۔

وہ آر ٹی کی رپورٹس کو ٹی وی سے ریکارڈ کر کے یوٹیوپ پر اپ لوڈ کرتے ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ ’ہرکسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کس چیز کو درست مانتا ہے۔‘

’اثرات کو سمجھنا‘

دنیا بھر میں روسی ریاستی حمایت یافتہ میڈیا کے اثرات کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

’آر ٹی‘ کا دعویٰ ہے کہ وہ 100 سے زیادہ ممالک میں 90 کروڑ ناظرین کے لیے دستیاب ہے۔ جبکہ 2024 میں اس کے مواد کو مجموعی طور پر 23 ارب ویوز ملے۔

کوپن ہیگن یونیورسٹی میں کمیونیکیشن کے پروفیسر ڈاکٹر راسمس کلیس نیلسن کہتے ہیں کہ دستیاب ہونا، یہ نہیں بتاتا کہ کتنے لوگ اسے دیکھتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ 90 کروڑ کے اعداد و شمار میں بھی جھول ہے اور اس میں آسانی سے ہیراپھیری کی جا سکتی ہے۔

ایک اور بیانیہ جسے روس اپنے نشریاتی اداروں کے ذریعے آگے بڑھاتا رہا ہے، وہ نیٹو کی توسیع ہے۔ روس اسے یوکرین پر حملے کا جواز قرار دیتا ہے۔

گو کہ مغربی ممالک اس جواز کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں، تاہم روس اپنے میڈیا میں اس کی گردان کے ذریعے اپنے بیانیے کو آگے بڑھاتا رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ میکسیکو اور لاطینی امریکہ کے ممالک روس کے اس بیانیے کو تسلیم کیا گیا ہے اور اس کی وجہ روسی سرکاری میڈیا ہی ہے۔ لاطینی امریکہ کے کئی ممالک یوکرین میں روس، مداخلت کو جارحیت قرار دینے سے گریز کرتے رہے ہیں۔

حملے کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی پہلی ووٹنگ میں، ممالک کی بھاری اکثریت نے جنگ کی مذمت کی، لیکن 52 ممالک نے یا تو قراردادوں کے خلاف ووٹ دیا، باضابطہ طور پر غیر حاضری کا اندراج کیا، یا ووٹنگ سے گریز کیا۔ ان میں بولیویا، مالی، نکاراگوا، جنوبی افریقہ اور یوگنڈا شامل ہیں۔

دو میل فی سیکنڈ کی رفتار والے ہائپر سونک میزائل کی دوڑ جو اپنے اہداف کو ’خاک میں ملا سکتے ہیں‘عالمی طاقتوں کے بیچ دنیا کے پراسرار خطے پر غلبے کی جنگ اور بڑھتی ہوئی جاسوسی کی کارروائیاں جو اب خطرناک شکل اختیار کرتی جا رہی ہیں90 ارب ڈالر کی ضمانت، بدلا ہوا لہجہ اور ٹرمپ کی تعریفیں: وائٹ ہاؤس میں امریکی اور یوکرین کے صدر کی ملاقات میں کیا ہواپوتن کا خفیہ ہتھیار: سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں کی جانے والی روس کی کارروائیاں جو مغربی دنیا کو پریشان کیے ہوئے ہیں’تاریخ کا بہترین سودا‘: 72 لاکھ ڈالر میں روس سے الاسکا کی خریداری جسے امریکہ میں ’احمقانہ‘ قرار دیا گیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More