جب ڈیٹنگ کی ایک ’محفوظ‘ ایپ ہیک ہونے سے ہزاروں خواتین کی تصاویر اور لوکیشن لیک ہو گئیں

بی بی سی اردو  |  Aug 26, 2025

Getty Images

سیلی کے سابقہ بوائے فرینڈ ہر جگہ ان کا پیچھا کرتے تھے۔

تعلق ختم ہونے کے بعد بھی وہ سیلی کے دفتر یا دوستوں کے گھر پہنچ جاتے تھے۔ انھیں مجبور ہو کر گھر بدلنا پڑا۔

پھر سیلی نے زندگی کے سفر میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور وہ ڈیٹنگ کی دنیا میں واپس لوٹ آئیں۔ اس دوران وہ انتہائی محتاط رہیں۔

وہ ایک نئی ایپ کا حصہ بن گئیں جہاں خواتین لڑکوں کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتی ہیں اور ڈیٹنگ کے دوران جو ان پر گزری، وہ سب بھی شیئر کر سکتی تھیں۔

امریکہ میں قائم ’ٹی ڈیٹنگ ایڈوائس‘ ایپ کے صارفین اس بات کی نشاندہی کر سکتے تھے کہ آیا ممکنہ پارٹنر شادی شدہ ہیں یا جنسی جرائم میں ملوث ہیں۔

یہ ایپ جعلی شناخت استعمال کرنے والے لوگوں کے خلاف جانچ پڑتال کے لیے ریورس امیج سرچ کر سکتی تھی۔ اس ایپ پر مردوں کی ’گرین فلیگ‘ یا ’ریڈ فلیگ‘ کے ذریعے درجہ بندی کی جا سکتی تھی اور غیر مصدقہ گپ شپ کی بھی اجازت تھی۔

یہ جلد امریکہ میں سرفہرست ایپ بن گئی۔ اطلاعات کے مطابق 10 لاکھ سے زیادہ صارفین اس ایپ کا حصہ بن گئے۔

سیلی (شناخت کے تحفظ کے لیے فرضی نام) نے سوچا کہ یہ پڑھنا دلچسپ ہو گا کہ ان کے علاقے میں مردوں کے بارے میں کیا کہا جا رہا ہے لیکن ان کے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ یہاں لوگوں کے بارے میں اندازے لگائے جاتے ہیں اور بعض معلومات ناقابل بھروسہ ہیں۔

جولائی کے اواخر میں یہ ایپ ہیک ہو گئی۔ لیک ہونے والی 70 ہزار سے زائد تصاویر پوسٹ کی گئیں جن میں ’ٹی‘ ایپ کا حصہ بننے والی خواتین کی ذاتی شناخت اور سیلفیز بھی شامل تھیں۔ یہ معلومات خواتین مخالف آن لائن گروپس کے ہاتھ لگ گئیں اور چند گھنٹوں کے اندر ہی ان خواتین کے خلاف تضحیک آمیز ویب سائٹس بنائی گئیں۔

سوشل میڈیا پر دو ’میپس‘ شائع کیے گئے جن میں امریکہ بھر میں 33 ہزار گھروں کی پن لوکیشن شیئر کی گئی تھی۔ خوف میں مبتلا سیلی نے اپنے گھر کی تلاش شروع کر دی۔ ان کا ڈر درست ثابت ہوا کیونکہ ان کے گھر کا ایڈریس دیکھا جا سکتا تھا۔

وہ فکرمند تھیں کہ سابقہ بوائے فرینڈ دوبارہ ان کا تعاقب کر سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ ’پہلے نہیں جانتے تھے کہ میں کہاں رہتی ہوں یا کہاں کام کرتی ہوں۔ میں نے سب چھپانے کے لیے کافی محنت کی تھی۔‘

انھوں نے کہا کہ اب پھر سے ’میں بہت پریشان ہوں۔‘

بی بی سی نے گوگل کو ان دو نقشوں کے بارے میں آگاہ کیا جو گوگل میپس پر بنائے گئے تھے۔ ان میں خواتین کے ناموں کے بجائے صرف ان کے گھروں کے ایڈریس تھے۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ ہیکرز نے ہراسانی کے خلاف ان کی پالیسی کی خلاف ورزی کی اور اب یہ میپس حذف کر دیے گئے ہیں۔

10 سے زیادہ خواتین نے ایپ کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے۔

ٹی ایپ کے ایک ترجمان نے کہا کہ وہ ان صارفین کی شناخت پر کام کر رہے ہیں جن کی ذاتی معلومات لیک ہوئی ہیں۔ ترجمان کے مطابق ان صارفین سے پیشرفت سے متعلق مکمل تفصیلات شیئر کی جائیں گی اور انھیں قانون کے عین مطابق متعلقہ خدمات پیش کی جائیں گی۔

ترجمان نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے موجودہ ممبرشپ کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ’وسائل میں اضافہ‘ کیا۔ کمپنی کو اپنی تیار کردہ ایپ اور اس کے مشن پر ’فخر ہے۔‘

BBCخواتین کی لیک شدہ سیلفیز پر تضحیک آمیز تبصرے

اس خلاف ورزی کے بعد سے بی بی سی کو ایسی ویب سائٹس، ایپس اور حتی کہ ایک ’گیم‘ بھی ملی ہے جس میں لیک ہونے والے ڈیٹا کو دکھایا گیا ہے۔ یہاں خواتین کے خلاف بد زبانی کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

اس ’گیم‘ میں خواتین کی جانب سے جمع کرائی گئی سیلفیز کو نمایاں طور پر ظاہر کیا گیا۔ صارفین کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی پسند کی سیلفی پر کلک کریں، جس میں ’ٹاپ 50‘اور ’باٹم 50‘ کی درجہ بندیاں شامل ہیں۔

اسی طرح صارفین سوشل میڈیا پر خواتین کی باڈی شیمنگ کرتے ہیں۔ بی بی سی کی جانب سے ویب سائٹ بنانے والے کی شناخت نہیں کی جا سکی۔

اب مردوں میں کے لیے بھی ایسی ایپس بنائی جا رہی ہیں لیکن اس کی وجہ تحفظ نہیں بلکہ خواتین کے خلاف تضحیک آمیز تبصرے کرنا ہے۔

بی بی سی کی جانب سے دیکھی گئی سکرین ریکارڈنگ میں صارفین خواتین پر جنسی نوعیت کے تبصرے کرتے ہیں اور ایپس میں رضامندی کے بغیر خواتین کی تصاویر پوسٹ کرتے ہیں۔

بی بی سی نے میسجنگ ایپ ٹیلی گرام پر مردوں کے لیے 10 سے زائد ’ٹی‘ گروپس کی نشاندہی بھی کی، جہاں وہ خواتین کی جنسی نوعیت کی اور بظاہر مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ تصاویر شیئر کرتے ہیں۔

وہ خواتین کے سوشل میڈیا ہینڈل شیئر کرتے ہیں، جس سے ان خواتین کی شناخت ظاہر ہوتی ہے۔

ٹیلی گرام کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ ’غیر قانونی پورنوگرافی واضح طور پر ممنوع ہے‘ اور ’نشاندہی کرنے پر ہٹا دی جاتی ہے۔‘

ایک متاثرہ خاتون کے وکیل جان یانچونس نے کہا کہ انھیں بڑے پیمانے آن لائن بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس سے انھیں بہت زیادہ جذباتی تکلیف ہوئی اور ان کی تضحیک کی گئی۔‘

یہ حیرت کی بات نہیں کہ اس لیک کو استحصال کے لیے استعمال کیا گیا۔

جب سے اس ایپ کی مقبولیت میں اضافہ ہو، تب سے یہاں مردوں پر تنقید بڑھی تھی۔ اس لیک سے ہتک عزت اور بغیر رضامندی کے مواد کی تشہیر ممکن ہوئی۔

مردوں کے گروپ اس ایپ کو سرے سے ختم کرنا چاہتے تھے مگر جب انھیں ہیک کا پتا چلا تو انھوں نے اسے انتقام کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

سینٹر فار کاؤنٹرنگ ڈیجیٹل ہیٹ کی محقق کیلم ہوڈ کہتی ہیں کہ ’اس لیک کو خواتین مخالف گروپس نے ایک بڑے مقصد کی کامیابی قرار دیا اور اس پر فخر بھی کیا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ 23 جولائی سے 12 اگست تک ’فورچن‘ پر 12 ہزار سے زائد پوسٹس میں اس لیک کا حوالہ دیا گیا۔ فورچن ایک میسج بورڈ ہے جس پر انتہا پسند مواد شائع ہوتا ہے۔

اے آئی سافٹ ویئر پر ’اپنی مرضی سے‘ گلوکارہ ٹیلر سوئفٹ کی برہنہ ویڈیوز تیار کرنے کا الزاملوگ موبائل فونز یا لیپ ٹاپ میں اپنی برہنہ تصاویر اور ویڈیوز کیوں رکھتے ہیں؟خاتون کا شوہر پر دورانِ سیکس جنسی تشدد کا الزام: ’ساس سے شکایت کی تو انھوں نے کہا میاں بیوی کے رشتے میں ایسا ہی ہوتا ہے‘جنسی مجرموں کے لیے کیمیکل کیسٹریشن: ’سیکس کی خواہش کم ہونے سے جنسی حملوں کے امکان میں کمی آئے گی‘مرد و خواتین میں تفریق

اس ایپ کا ہیک ہونا اور آن لائن اس کا ڈیٹا لیک ہو جانا کسی ’صنفی جنگ‘ سے کم نہیں۔ اس نے ہم جنس پرستوں میں ڈیٹنگ کو بھی متاثر کیا۔ ایسے شواہد ہیں کہ ہم جنس پرست نوجوان روایتی ڈیٹنگ اور طویل مدتی رومانوی تعلقات سے دور ہو رہے ہیں۔ آن لائن ڈیٹنگ میں منفی تجربات تناؤ میں اضافہ کر رہے ہیں۔

سنہ 2023 میں پیو ریسرچ سینٹر کی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ امریکہ میں ڈیٹنگ ایپس پر نصف سے زیادہ خواتین کے تجربات منفی رہے ہیں۔ خواتین مردوں کے ناپسندیدہ رویے کی اطلاع دیتی ہیں اور ڈیٹنگ ایپس پر غیر محفوظ محسوس رہنے کا زیادہ امکان ظاہر کرتی ہیں۔

BBC

مانچسٹر میٹروپولیٹن یونیورسٹی کی ماہر سماجیات ڈاکٹر جینی وان ہوف کہتی ہیں کہ حفاظتی اقدامات کی کمی اس بات پر اثر انداز ہوتی ہے کہ کتنی نوجوان خواتین آن لائن ڈیٹنگ میں حصہ لینا چاہتی ہیں۔ دوستوں کے ذریعے یا کام کی جگہ پر پارٹنرز سے ملاقات کے برعکس آن لائن ڈیٹنگ کی دنیا میں خطرات کم ہوتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ڈیٹنگ ایپس پر خواتین کا تجربہ خوف اور اعتماد کی کمی کے احساس پر مبنی ہے۔ ان کے مطابق ’خواتین سے نفرت ڈیٹنگ میں مزید سرایت کر رہی ہے۔‘

’کیا ہم ایک ہی شخص سے ڈیٹنگ کر رہے ہیں‘ جیسے ٹی ایپ کے سوال دنیا بھر میں سوشل میڈیا گروپس کا حصہ ہیں۔

ایسے پیغامات کو مردوں کو جوابدہ بنانے کے ایک نئے طریقے کے طور پر سراہا گیا تھا لیکن ٹی ایپ کی طرح تنازع پیدا ہوا تو بہت سے مردوں نے محسوس کیا کہ ’پوسٹ‘ کی گئی چیزوں کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا۔ انھیں ہٹانے کے لیے آن لائن گروپس کا اہتمام کیا گیا۔

لیکن ماہرین نے اس ایپ کے پیچھے ممکنہ منافع کے محرکات کے ساتھ ساتھ پوسٹ کی گئی معلومات کے قابل اعتماد ہونے پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔

خواتین کے لیے معلومات کی تصدیق کرنا مشکل ہوسکتا ہے۔ مرد، جو ایپ تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر ہیں، ان کے پاس یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں کہ آیا ان کے بارے میں غلط معلومات پوسٹ کی جاتی ہیں۔

ڈاکٹر وان ہوف کا کہنا ہے کہ ٹی ایپ اور اس کے بعد لیک ہونے والی ایپ مردوں اور عورتوں کے درمیان تقسیم کو جنم دیتی ہے اور ہم جنس پرست ڈیٹنگ کی دنیا میں خوف پیدا کرتی ہے۔

ان کے مطابق خواتین کے تحفظ پر سمجھوتہ کیا گیا اور مردوں نے محسوس کیا ہے کہ ان کے اقدامات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا اور گپ شپ کے لیے ان کا استحصال کیا گیا۔

سیلی کا احساسِ تحفظ متاثر ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے تحفظ کے لیے اپنے دوست احباب کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا۔

’ڈیجیٹل ریپ‘ کیا ہے اور انڈیا میں اسے روکنے کے لیے قوانین میں تبدیلی کی ضرورت کیوں پڑی؟ افغانستان میں ’لاوارث خواتین‘ کا قلعہ جس کے بارے میں مقامی لوگ بہت کم بات کرتے ہیںسوشل میڈیا پر ’فحش مواد‘ پوسٹ کرنے کے الزام میں ’کمل کور بھابی‘ نامی انفلوائنسر قتل، متعدد کو دھمکیاںثنا یوسف کا قتل: انسیل کلچر اور پاکستانی ڈراموں میں مجرمانہ ذہنیت کے ’ہیرو‘میڈیکلائزڈ ایف جی ایم: ’12 سال کی عمر میں میرے جنسی اعضا کاٹ دیے گئے، یہ ایک جشن تھا‘خاتون کا شوہر پر دورانِ سیکس جنسی تشدد کا الزام: ’ساس سے شکایت کی تو انھوں نے کہا میاں بیوی کے رشتے میں ایسا ہی ہوتا ہے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More