بچپن میں جنسی استحصال کا نشانہ بننے والی خاتون، جن کی تصاویر کے لنکس آج بھی ’ایکس‘ پر شیئر ہو رہے ہیں: ’یہ مشتعل کر دینے والا ہے‘

بی بی سی اردو  |  Aug 27, 2025

BBC’جو لوگ ایسے مواد کو پھیلاتے ہیں وہ اِس جُرم میں برابر کے شریک ہیں اور اس میں ملوث ہیں، وہ بھی مُجرم ہیں‘

بچپن میں جنسی استحصال کا شکار ہونے والی ایک خاتون نے ایلون مسک سے اپیل کی ہے کہ وہ ’ایکس‘ پر اُن کی تصاویر کے لنکس شیئر کیے جانے کے سلسلے کو روکیں۔

20 سال قبل پہلی بار جنسی استحصال کا نشانہ بننے والی 'زورا' (فرضی نام) کہتی ہیں کہ ’یہ مشتعل کر دینے والا ہے کہ میرے جنسی استحصال اور بہت سے دوسرے لوگوں کے ساتھ پیش آنے والے ایسے ہی واقعات کی ویڈیوز اب بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔‘

'ہر بار جب کوئی بچوں کے ساتھ ہونے والے جنسی استحصال کا مواد شیئر کرتا ہے تو وہ دراصل براہ راست اس طرح کے خوفناک واقعات کا نشانہ بننے والے افراد کی خوفناک یادیں تازہ کر دیتا ہے۔‘

دوسری جانب سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ کا کہنا ہے کہ ’بچوں کے جنسی استحصال کے مواد کو لے کر کسی کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتی جاتی اور اس معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوتا، بچوں کا استحصال کرنے والوں سے نمٹنا ہماری اولین ترجیح ہے۔‘

بی بی سی کی جانب سے بچوں کے جنسی استحصال سے متعلقہ مواد کی لین دین یا تجارت پر حال ہی میں ایک تحقیق کی گئی ہے۔ تحقیقات کے دوران بی بی سی کو 'زورا' کی ایسی تصاویر ملی ہیں جن کا تخمینہ گلوبل چائلڈ سیفٹی انسٹیٹیوٹ ’چائلڈ لائٹ‘ نے اربوں ڈالر لگایا ہے۔

زورا سے متعلق مواد ’ایکس‘ اکاؤنٹ پر فروخت کے لیے پیش کی جانے والی اسی طرح کی ہزاروں تصاویر اور ویڈیوز کے ذخیرے میں شامل تھا۔ ہم میسجنگ ایپ ٹیلی گرام کے ذریعے اس طرح کے مواد کو فروحت کرنے والے ایک شخص سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہوئے اور اس سب کے دوران ہم انڈونیشیا میں ایک شخص سے منسلک ایک بینک اکاؤنٹ تک پہنچے۔

زورا کو سب سے پہلے اُن کے اپنے خاندان کے ہی ایک فرد کی جانب سے جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اُس موقع پر زورا کی بنائی گئی تصاویر بعدازاں بچوں پر جنسی تشدد کرنے والے افراد یعنی پیڈوفائلز کے درمیان شیئر ہوئیں۔ بہت سے دوسرے متاثرین کو بھی اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ آج بھی اُن کے ساتھ ہونے والے جنسی استحصال کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔

زورا ناراض ہیں کہ جنسی استحصال کا یہ سلسلہ اور اس سے جُڑی تجارت یا کاروبار آج بھی جاری ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میرا جسم کوئی شے نہ کبھی تھا، نہ ہے اور نہ ہی کبھی ہو گا۔‘

’جو لوگ ایسے مواد کو پھیلاتے ہیں وہ اِس جُرم میں برابر کے شریک ہیں اور اس میں ملوث ہیں، وہ بھی مُجرم ہیں۔‘

ایکس اکاؤنٹ کو ٹریک کرنا

زورا کے ساتھ ہونے والے ظلم کی تصاویر ابتدا میں صرف نام نہاد ڈارک ویب پر دستیاب تھیں، لیکن اب انھیں اس حقیقت کے ساتھ زندہ رہنا ہے کہ اب اُن کی تصاویر کے لنکس ’ایکس‘ پر کُھلے عام شیئر ہو رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اپنے آپ کو ایسے غیر قانونی مواد سے چھٹکارا دلانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن یہ مسئلہ اس قدر وسیع پیمانے پر پھیل چُکا ہے کہ اس پر قابو پانا مُمکن دکھائی نہیں دے رہا۔

گذشتہ سال امریکی نیشنل سینٹر فار مسنگ اینڈ ایکسپلوئٹڈ چلڈرن (این سی ایم ای سی) کو ٹیکنالوجی کمپنیوں کی جانب سے بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات کے بارے میں دو کروڑ سے زائد رپورٹس موصول ہوئیں۔

این سی ایم ای سی متاثرین اور مجرموں کی شناخت کرنے کی کوشش کرتا ہے، تنظیم پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطہ کرتی ہے۔

ہم نے 'ہیک ٹیوسٹ' گروپ سے رابطہ کیا جس کے ارکان ایکس پر بچوں کے جنسی استحصال کی تصاویر کی خرید و فروخت کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک نے ہمیں بتایا کہ حالات میں پہلے کے مقابلے میں کسی بھی قسم کی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

انھوں نے ہمیں ایکس پر ایک ہی اکاؤنٹ کے بارے میں بتایا۔ اس اکاؤنٹ نے ڈسپلے پکچر کے طور پر ایک بچے کی تصویر لگا رکھی تھی۔ جو بظاہر کوئی غلط چیز نہیں تھی۔

لیکن اکاؤنٹ کے بائیو میں موجود الفاظ اور ایموجیز سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس اکاؤنٹ کو چلانے والا شخص بچوں کے ساتھ جنسی استحصال پر مبنی مواد فروخت کرنے کا کام کرتا رہا تھا اور میسجنگ ایپ ٹیلی گرام پر ایک اکاؤنٹ کا لنک بھی ساتھ موجود تھا۔

Getty Images’ٹیکنالوجی کمپنیوں کی جانب سے بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات کے بارے میں دو کروڑ سے زائد رپورٹس موصول ہوئیں‘

بچوں سے متعلق جنسی استحصال کے مواد کی خرید و فروخت کرنے والے فرد کا تعلق انڈونیشیا سے تھا اور وہ ’وی آئی پی پیکجز‘، تصاویر اور ویڈیوز دُنیا بھر میں موجود بچوں پر جنسی تشدد کرنے والے افراد کو فروخت کرنے کے لیے پیش کر رہا تھا۔

گمنام کارکن ایکس پر اس تاجر کے متعدد اکاؤنٹس سے متعلق آگاہی دینے کا کام کر رہے تھے تاکہ انھیں پلیٹ فارم سے ہٹایا جا سکے۔ لیکن انھوں نے ہمیں بتایا کہ جب بھی ایک اکاؤنٹ ہٹایا جاتا یا بند کیا جاتا ہے تو اس کی جگہ کوئی اور نیا اکاؤنٹ لے لیتا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ یہ کاروبار کرنے والا فرد تقریباً ایک جیسے 100 سے زیادہ اکاؤنٹس کی نگرانی کر رہا تھا۔ کارکن نے ہمیں بتایا کہ جب اس نے ٹیلی گرام کا استعمال کرتے ہوئے ایک فرد سے براہ راست رابطہ کیا تھا تو اُن کی جانب سے جواب دیا گیا تھا کہ اُن کے پاس فروخت کے لیے ہزاروں ویڈیوز اور تصاویر موجود ہیں۔

اُس نے ہمیں بتایا کہ ’میرے پاس سات سے 12 سال تک کی عُمر کے بچوں کی تصاویر اور ویڈیوز ہیں۔‘ اُس فرد نے مزید وضاحت کرتے ہوئے ہمیں یہ بھی بتایا کہ اُس کے پاس موجود مواد میں بچوں کے ریپ کی ویڈیوز بھی موجود ہیں۔

ہم نے خود ایسے مواد کی خریدوفروخت کرنے والے فرد سے رابطہ کیا۔

انھوں نے مواد کے نمونوں کے لنکس فراہم کیے جنھیں کھولنے یا دیکھنے کی ہم میں ہمت نہیں تھی اس لیے ہم نہیں انھیں نہیں کھولا اور نہ ہی دیکھا۔ اس کے بجائے ہم نے ونی پگ میں کینیڈین سینٹر فار چائلڈ پروٹیکشن (سی پی) کے ماہرین سے رابطہ کیا جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کام کرتے ہیں اور جن کے پاس قانونی طور پر اس طرح کے مواد کو دیکھنے کی اجازت ہوتی ہے۔

BBCکینیڈین سینٹر فار چائلڈ پروٹیکشن بچوں کے جنسی استحصال سے متعلق مواد کا جائزہ لیتا ہے

سی پی کے ڈائریکٹر آف ٹیکنالوجی لائیڈ رچرڈسن کا کہنا تھا کہ ’ٹیلی گرام اکاؤنٹ بہتر اصطلاح نہ ہونے کی وجہ سے اس کے پاس ایسے تمام مواد کے لیے کوئی خاص لفظ موجود نہیں تھا سب ایک ہی جگہ پر کولاج کی صورت میں جمع تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جب ہم کولاج میں موجود تمام مختلف تصاویر کا جائزہ لیا تو میں کہوں گا کہ وہاں ہزاروں تصویریں تھیں۔‘

اس مواد یعنی تصاویر اور ویڈیوز میں زورا کی تصاویر بھی شامل تھیں۔

امریکہ میں ان کا جنسی استحصال کرنے والے فرد پر کئی سال پہلے مقدمہ چلایا گیا تھا اور انھیں جیل میں ڈال دیا گیا تھا، لیکن اُس فرد کو سزا ہونے سے پہلے زورا کی ویڈیوز اور تصاویر دنیا بھر میں شیئر اور فروخت کی جا چکی تھی۔

کینیا میں سیکس کے کاروبار میں بچوں کے استحصال کا انکشاف: ’ایسے گاہک بھی ہوتے ہیں جو ہمیشہ کم عمر لڑکیوں کے لیے آتے ہیں‘مصنوعی ذہانت: بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کی تصاویر کے غیر قانونی کاروبار کا انکشافمیڈیکلائزڈ ایف جی ایم: ’12 سال کی عمر میں میرے جنسی اعضا کاٹ دیے گئے، یہ ایک جشن تھا‘برہنہ ڈانس اور تحائف: ٹک ٹاک نے بچوں کی سیکس لائیو سٹریمز سے کیسے منافع کمایا

زورا نے ہمیں بتایا کہ ’میں نے برسوں اپنے ماضی کو دبانے کی کوشش کی ہے اور اسے اپنے مستقبل سے دور رکھنے کی کوشش کی لیکن بدقسمتی سے ایسا ہو نہیں سکا کیونکہ اب بھی بچوں کا جنسی استحصال کرنے والے انھیں تلاش کرنے کے طریقے ڈھوند نکالتے ہیں۔‘

جیسے جیسے وہ بڑی ہوتی گئی ان ظالم لوگوں نے زورا کی شناخت کو ظاہر کرنا شروع کر دیا، اُن سے آن لائن رابطہ کیا گیا اور دھمکیاں دی گئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ ’ایک ایسے جرم کی وجہ سے پریشان رہیں کہ جس نے اُن سے اُن کا بچپن چھین لیا تھا۔‘

جنسی استحصال کا مواد فروخت کرنے والوں کی تلاش

زورا کی تصاویر فروخت کرنے والے فرد کی شناخت کرنے کے لیے ہم نے ایک خریدار کے طور پر اپنے آپ کو اُن کے سامنے پیش کیا۔

انھوں نے ہمیں اپنے بینک کی معلومات اور ایک آن لائن اکاؤنٹ کی تفصیل بھیجیں، دونوں کا اکاؤنٹ ہولڈر ایک فرد تھا۔

ایسے لوگوں کا پتہ لگانے والے گمنام کارکن نے اس بات کی خبر دی کہ یہ نام دو اور آن لائن ٹرانزیکشن اکاؤنٹس اور ایک بینک اکاؤنٹ سے بھی جڑا ہوا ہے۔

ہم نے انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ کے مضافات میں واقع ایک پتے پر اکاؤنٹس پر درج اسی نام کے ایک شخص کا سراغ لگایا۔

بی بی سی ورلڈ سروس کے لیے شہر میں کام کرنے والے ایک نامہ نگار اس پتے پر گئے اور احاطے میں موجود ایک شخص سے ملاقات کی جب اُس کے سامنے ساری تفصیل رکھی گئی تو وہ حیران رہ گیا۔

انھوں نے کہا کہ ’میں اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔‘

اس شخص نے تصدیق کی کہ ان میں سے ایک بینک اکاؤنٹ اس کا تھا اور کہا کہ یہ صرف رہن سے متعلق لین دین کے لیے بنایا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اس کے بعد سے انھوں نے اکاؤنٹ استعمال نہیں کیا اور وہ یہ جاننے کے لیے اپنے بینک سے رابطہ کریں گے کہ کیا ہوا ہے۔ انھوں نے دوسرے بینک اکاؤنٹ یا رقم کی منتقلی کے بارے میں کوئی واضح بات نہیں کی یا یوں کہہ لیں کے انھیں ان کے بارے میں کوئی خاص بات معلوم نہیں تھی۔

ہم یقینی طور پر یہ بات نہیں کہہ سکتے کہ وہ شخص کس حد تک اس سب میں ملوث ہے۔

ہماری تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جس طرح زورا کی تصاویر کی مارکیٹنگ کی جا رہی تھی وہ دنیا بھر کے سینکڑوں تاجروں کی طرف سے استعمال کیا جانے والا طریقہ ہے۔

ایکس پر پوسٹس مختلف ہیش ٹیگ استعمال کرتی ہیں جو پیڈوفائلز سے واقف ہیں۔ پلیٹ فارم پر نظر آنے والی تصاویر اکثر بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کی معروف تصاویر سے لی جاتی ہیں۔

ایلون مسک کا کہنا تھا کہ سنہ 2022 میں جب انھوں نے ایکس کی باگ دوڑ سنبھالی تو بچوں کے جنسی استحصال کے مواد کو ہٹانا ان کی اولین ترجیح تھی۔

AFP via Getty Images

سی پی سے تعلق رکھنے والے لائیڈ رچرڈسن کا کہنا ہے کہ صرف ایکس ہی نہیں بلکہ عام طور پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز مجرموں کو اس طرح بار بار پوسٹ کرنے سے روکنے کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ بہت اچھا ہے کہ ہم (سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو) ٹیک ڈاؤن نوٹس بھیج سکتے ہیں اور وہ اکاؤنٹ کو ہٹا سکتے ہیں لیکن یہ کم سے کم ہے۔‘

اُن کا کہنا ہے کہ مسئلہ یہ ہے کہ صارفین نئے اکاؤنٹ کے ساتھ چند دنوں میں پلیٹ فارم پر واپس آ سکتے ہیں۔

ایکس نے ہمیں بتایا کہ وہ بچوں کے جنسی استحصال کے لیے ’کسی رعایت‘ کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ہم مسلسل ایڈوانس ڈیٹیکشن میں سرمایہ کاری کرتے ہیں تاکہ ہم ایسے مواد اور اکاؤنٹس کے خلاف فوری کارروائی کر سکیں جو ہمارے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔‘

پلیٹ فارم نے ہمیں بتایا کہ وہ ’نیشنل سینٹر فار مسنگ اینڈ ایکسپلائٹڈ چلڈرن (این سی ایم ای سی) کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے اور ان گھناؤنے جرائم کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لئے قانون نافذ کرنے کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔‘

ٹیلی گرام کا کہنا ہے کہ 2025 میں اب تک سی ایس اے ایم کے پھیلاؤ سے متعلق 5 لاکھ 65 ہزار سے زائد گروپس اور چینلز پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔

پلیٹ فارم نے کہا کہ اس کے پاس اس مسئلے پر ایک ہزار سے زیادہ لوگ کام کر رہے ہیں۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ ٹیلی گرام پلیٹ فارم پر عوامی مواد کی نگرانی کرتا ہے اور صارفین تک پہنچنے یا رپورٹ ہونے سے پہلے قابل اعتراض مواد کو ہٹا دیتا ہے۔

جب ہم نے زورا کو بتایا کہ ان کی تصاویر ایکس کا استعمال کرتے ہوئے فروخت کی جا رہی ہیں تو ان کے پاس پلیٹ فارم کے مالک ایلون مسک کے لیے یہ پیغام تھا کہ ’ہمارے ساتھ ہونے والے جنسی استحصال کی ویڈیوز آپ کی ایپ پر شیئر، ٹریڈنگ اور فروخت کی جا رہی ہے۔ اگر آپ اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کام کریں گے تو میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ ہم میں سے باقی لوگوں کے لیے بھی ایسا ہی کریں۔ اب عمل کرنے کا وقت ہے۔‘

کینیا میں سیکس کے کاروبار میں بچوں کے استحصال کا انکشاف: ’ایسے گاہک بھی ہوتے ہیں جو ہمیشہ کم عمر لڑکیوں کے لیے آتے ہیں‘مصنوعی ذہانت: بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کی تصاویر کے غیر قانونی کاروبار کا انکشافبرہنہ ڈانس اور تحائف: ٹک ٹاک نے بچوں کی سیکس لائیو سٹریمز سے کیسے منافع کمایامیڈیکلائزڈ ایف جی ایم: ’12 سال کی عمر میں میرے جنسی اعضا کاٹ دیے گئے، یہ ایک جشن تھا‘استوائی گنی کو ہلا دینے والا سیکس ٹیپ سکینڈل جس میں صدر، وزرا سمیت فوجی افسران کی بیویاں تک شامل ہیںماں کے پیٹ میں ہی فروخت ہو جانے والے بچے: انڈونیشیا جہاں ایک سال سے بھی کم عُمر بچے کروڑوں میں سمگل ہوتے ہیں
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More