Getty Imagesدوا لینے سے قبل کھائی جانے والی غذا دوا کے اثر کو کم یا بڑھا سکتی ہے
حالیہ دنوں میں انڈین ریاست تمل ناڈو میں ایک عجیب معاملہ سامنے آیا۔ ایک شخص کا عضو تناسل پانچ گھنٹے تک غیر معمولی اور دردناک حالت میں ایستادہ (کھڑا) رہا، جو ڈاکٹروں کے لیے ایک حیران کن صورتِحال تھی۔
ہوا کچھ یوں کہ ایک 46 سالہ شخص کو ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں لایا گیا۔
ڈاکٹروں کو بتایا گیا کہ اس شخص نے اپنی بیوی سے جنسی تعلقات قائم کرنے سے قبل ’ویاگرا‘ کی گولی کھائی تھی۔ دوا مناسب مقدار میں لی گئی تھی مگر اس کے باوجود ڈاکٹر یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ اتنا وقت گزر جانے کے باوجود عضو تناسل میں ایستادگی کی وجہ کیا ہے۔
جب ڈاکٹروں نے اس مسئلے کی تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اس شخص نے ویاگرا لینے سے پہلے بڑی مقدار میں انار کا رس پیا تھا۔ ڈاکٹروں نے اس شخص کی اذیت کو کم کرنے کے لیے اسے ایک انجیکشن لگایا اور مستقبل میں ویاگرا کے استعمال سے قبل انار کا رس پینے سے پرہیز کرنے کا مشورہ دیا۔
انار کے رس نے دوا کی طاقت کو غیر ارادی طور پر بڑھا دیا تھا۔
یہ کیس ایک مثال ہے کہ ہم جو دوائیں لیتے ہیں اُن کی تاثیر بعض اوقات ہمارے کھانے سے متاثر ہوتی ہے۔ سائنسدان اب ان اثرات کو کنٹرول کرنے اور داؤں کے ذریعے علاج کو مزید مؤثر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
طبی تحقیق میں ایسے کئی واقعات موجود ہیں جہاں دوا کے استعمال سے قبل کھائی گئی غذا یا خوارک نے دوا کے اثرات کو بڑھا دیا یا کم کر دیا یا بعض مواقع پر انسانی صحت کے لیے نقصان دہ بنا دیا۔ مثلاً گریپ فروٹ کئی دواؤں کے اثرات کو بڑھا سکتا ہے اور فائبر والی غذائیں بعض دواؤں کے اثر کو کم کر سکتی ہیں۔
طبی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ خوراک اور ادویات کا ایک ساتھ استعمال بعض اوقات مضر اثرات کا باعث بن سکتا ہے۔
جب کھانے اور ادویات کو ایک ساتھ لیا جاتا ہے تو وہ ضمنی اثرات پیدا کر سکتے ہیں جو کبھی کبھار خطرناک بھی ہو سکتے ہیں۔
ایسے واقعات کی تعداد بڑھ رہی ہے جو ظاہر کرتے ہیں کہ ادویات لیتے وقت کھانے پینے کی اشیا ان کے اثرات کو متاثر کر سکتی ہیں۔
مثال کے طور پر انگور کا رس کچھ ادویات کے اثرات کو بڑھاوا دے سکتا ہے اور اس سے دوا کے فائدہ مند ہونے کے بجائے اس کے مضر صحت ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
اس کے برعکس فائبر سے بھرپور غذائیں جیسا کہ اناج یا ہری سبزیاں، کچھ ادویات کے اثرات کو کم کر سکتی ہیں۔
دواساز کمپنیاں کئی برسوں تک ادویات کی جانچ کرتی ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ انسانوں کے لیے محفوظ اور مؤثر ہیں یا نہیں۔
مارکیٹ میں ہزاروں ادویات اور کھانوں کے لاکھوں امتزاج موجود ہیں۔ کچھ امتزاج محفوظ ہیں جبکہ کچھ سے پرہیز کرنا چاہیے۔
ماہرین طب کیا کہتے ہیں؟Serenity Strull/BBC'زیادہ تر ادویات خوراک سے متاثر نہیں ہوتیں، لیکن کچھ خاص ادویات پر خوراک اثر ڈال سکتی ہے‘
سائنسی تحقیق کے مطابق خوراک اور ادویات کے درمیان تعلق اُن کے محفوظ اور مؤثر استعمال کو متاثر کر سکتی ہے۔
ماہرین اب ادویات اور خوراک کے باہمی اثرات کو منظم طریقے سے ٹریک کرنا شروع کر رہے ہیں اور انھیں امید ہے کہ اس سے خوراک اور ادویات کے مشترکہ اثرات کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے گا۔
کیلیفورنیا کی ویسٹرن یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں فارمیسی پریکٹس اور ایڈمنسٹریشن کے پروفیسر پیٹرک چان کا کہنا ہے کہ ’زیادہ تر ادویات خوراک سے متاثر نہیں ہوتیں، لیکن کچھ خاص ادویات پر خوراک اثر ڈال سکتی ہے اور یہ وہ ادویات ہیں جن پر خاص توجہ دینی چاہیے۔‘
امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) اور یورپی ادویات ایجنسی (ای ایم اے) کے مطابق، دواؤں کا فوڈ ایفیکٹ ٹیسٹ (ادویات پر خوراک کے اثرات کا تجربہ) کرنا ضروری ہے تاکہ ان کے محفوظ اور مؤثر استعمال کو یقینی بنایا جا سکے۔
اس ٹیسٹ میں ایسے افراد شامل کیے جاتے ہیں جنھوں نے یا تو روزہ رکھا ہو یا چکنائی سے بھرپور کھانا کھایا ہو، جیسے مکھن کے ساتھ روٹی کا ایک ٹکڑا، دو ٹکڑے فرائیڈ بیکن، دو انڈے، کچھ آلو اور ایک گلاس دودھ۔
لیکن ہر ممکن امتزاج کو آزمانا تقریباً ناممکن ہے۔
سربیا میں سینٹر آف ریسرچ ایکسیلنس ان نیوٹریشن اینڈ میٹابولزم کی ریسرچ ایسوسی ایٹ جیلینا ملیسیوک کے مطابق ’انسانی جسم کا میٹابولزم انتہائی پیچیدہ عمل ہے۔ یہ ایک چھوٹی فیکٹری کی طرح ہے جہاں بہت سے عمل بیک وقت چلتے ہیں۔‘
مردوں میں مقبول ویاگرا خواتین کے لیے کیوں نہ بن سکی؟ویاگرا استعمال کرنے والے مردوں میں ’الزائمر کا خطرہ کم ہو سکتا ہے‘تربوز جس میں ویاگرا کے فوائد بھی شامل ہیںہمارے جسم سے آنے والی بُو ہماری صحت کے بارے میں کیا بتاتی ہے اور کیا اِس کی مدد سے ممکنہ بیماری کی تشخیص ممکن ہے؟
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’جب جسم میں خوراک اور ادویات کے تمام کیمیائی عمل ایک ساتھ ہو رہے ہوتے ہیں، تو انھیں الگ کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔‘
ملیسیوک وٹامن ڈی اور ادویات کے باہمی اثرات پر تحقیق کر رہی ہیں، یعنی وٹامن ڈی دوائی کے اثرات کو کیسے بدلتی ہے اور ادویات وٹامن ڈی پر کیسے اثر ڈالتی ہیں۔
ہم جو کھاتے ہیں وہ دو طریقوں سے ادویات کے اثرات پر اثر ڈال سکتا ہے: یا تو خوراک دوا کے ہدف والے اہم عضو پر اثر ڈالتی ہے، یا یہ جسم میں دوا کے اثر کو تبدیل کر دیتی ہے۔
Getty Images'جب جسم میں خوراک اور ادویات کے تمام کیمیائی عمل ایک ساتھ ہو رہے ہوتے ہیں، تو انھیں الگ کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔'خوراک اور ادویات کی ملاوٹ
ہمیں کچھ کھانوں اور ادویات کے اثرات کا تعلق 1980 کی دہائی سے معلوم ہے، ایک مشہور مثال یہ ہے کہ گریپ فروٹ اور انار کا رس ادویات کے اثرات میں مداخلت کر سکتا ہے۔
ان اثرات میں کولیسٹرول کم کرنے والی دوائیں جیسے سٹیٹنز اور ہائی بلڈ پریشر کی دوائیں جیسے نیفیڈیپائن اور فیلوڈپائن شامل ہیں۔
انگور یا انگور کا رس سائکلوسپورین کو بھی متاثر کرتا ہے جو مدافعتی نظام کو دبانے کے لیے استعمال ہوتی ہے تاکہ اعضا کی پیوند کاری کے بعد جسم عضو کو رد نہ کرے۔ یہ دنیا بھر میں کئی دیگر دوائیوں کے اثرات بھی بڑھا سکتا ہے۔
انگور خون میں بعض ادویات کی مقدار بڑھا سکتا ہے جس سے ان کی تاثیر میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس میں ملیریا کی دوائیں جیسے آرٹیمیتھر اور پرازیکوانٹل اور اینٹی وائرل ادویات جیسے ساکناویر شامل ہیں۔
یہ اثر سائٹوکرووم P450 3A4 نامی ایک اینزائم کو روک کر ہوتا ہے جو جسم میں دوائیوں کو توڑتا ہے۔ جب یہ اینزائم روکا جائے تو دوائیں جسم میں زیادہ دیر تک رہ جاتی ہیں اور بعض اوقات زہریلی ہو سکتی ہیں۔
مثال کے طور پر عضو تناسل کی کمزوری کی دوا سلفینیڈائل جو ویاگرا کے نام سے فروخت ہوتی ہے، اس سے متاثر ہو سکتی ہے۔
پرتگال کی کوئمبرا یونیورسٹی کی آبزرویٹری آف ڈرگ ہرب انٹریکشنز کی ڈائریکٹر ماریا دا گراکا کیمپوس کہتی ہیں ’اس اینزائم کے بغیر، دوا جسم میں زیادہ دیر تک رہتی ہے اور اضافی مقدار زہریلی ہو سکتی ہے۔‘
وہ مزید کہتی ہیں ’پھلوں کے رس کا اثر ادویات پر زیادہ ہوتا ہے کیونکہ یہ زیادہ گاڑھا یا طاقتور ہوتا ہے، یعنی اس میں فعال مرکبات کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جو دوائیوں پر زیادہ اثر ڈالتی ہے۔‘
دواؤں پر کرین بیریز کا اثر
طویل عرصے تک یہ سمجھا جاتا رہا کہ کرین بیری وارفرین پر اثر انداز ہو سکتی ہے جو خون پتلا کرنے والی ایکدوا ہے۔ کرین بیری جوس کے استعمال اور وارفرین کے ممکنہ اثرات پر درجنوں کیس رپورٹیں شائع ہو چکی ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق صرف ایک ہفتے تک روزانہ سینڈوچ کے بعد آدھا کپ (113 گرام) کرین بیری ساس کھانے سے وارفرین کے خون پتلا کرنے والے اثرات میں اضافہ دیکھا گیا۔
لیکن جب کلینیکل ٹرائلز کیے گئے تو ان سے یہ نتیجہ نکلا کہ کرین بیریز کا باقاعدہ استعمال وارفرین کے اثرات میں کوئی خاص فرق نہیں ڈالتا۔ البتہ یہ بھی اہم ہے کہ ان میں سے ایک تحقیق کی مالی اعانت ایک کرین بیری جوس بنانے والی کمپنی نے فراہم کی تھی۔
کینیڈا کی میک ماسٹر یونیورسٹی میں کلینیکل فارماکولوجی اور ٹاکسیکولوجی کی ڈائریکٹر این ہالبروک کہتی ہیں ’زیادہ تر طبی لٹریچر ناقص معیار کی رپورٹوں پر مبنی ہے جو نتائج کو الجھانے والے عوامل کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔‘
ان کے مطابق اصل حقیقت جاننے کے لیے سینکڑوں مریضوں پر بڑے پیمانے کی سٹڈیز درکار ہیں تاکہ صرف وارفرین کے اثرات اور وارفرین کے ساتھ کرین بیریز کے اثرات کا درست موازنہ کیا جا سکے اور اس میں کرین بیری مصنوعات کے معیار کو بھی مدِنظر رکھنا ہو گا۔
سڈنی یونیورسٹی میں فارمیسی کے ڈین اینڈریو میکلاچلن کے مطابق کئی عوامل اس پر اثرانداز ہوتے ہیں، مثلاً آپ تازہ جوس پئیں، گاڑھا جوس یا کرین بیری کا عرق، اسی طرح دوا کے ساتھ جوس پینے کا وقت اور مقدار بھی دواؤں کی تاثیر کو بدل سکتے ہیں۔
2011 میں امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے وارفرین کے حوالے سے اپنے رہنما اصولوں میں تبدیلی کرتے ہوئے کرین بیری سے متعلق انتباہات ختم کر دیے۔ تاہم برطانیہ میں آج بھی نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) مریضوں کو خبردار کرتی ہے کہ وہ دوا لیتے وقت کرین بیری جوس پینے سے گریز کریں۔
مختلف بیماریوں پر مختلف اثراتAFP via Getty Imagesدواساز کمپنیاں کئی برسوں تک ادویات کی جانچ کرتی ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ انسانوں کے لیے محفوظ اور مؤثر ہیں یا نہیں
ملٹھی بعض ادویات کے ساتھ ردِعمل کر سکتی ہے۔ یہ سائٹوکوم اینزائم پر اثر انداز ہوتی ہے جو عام طور پر ادویات کو توڑنے کا کام کرتے ہیں۔
یہ تعامل مختلف دواؤں کے ساتھ دیکھا گیا ہے جن میں دل کی بیماری کی دوا ڈیگوکسین اور بعض اینٹی ڈپریسنٹس شامل ہیں۔
تاہم ان اثرات کا تفصیلی مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ یہ تعامل عام طور پر کسی سنگین طبی خطرے کا باعث نہیں بنتے۔
ماہرِ امراض چن کے مطابق ’ہم کھانے اور دواؤں کے تعامل کو صرف دو انتہاؤں پر نہیں دیکھ سکتے۔ انھیں شدید، اعتدال پسند یا معمولی درجوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔‘
2017 میں ماریا دا گراکا کیمپوس نے ایک اور غیر معمولی تعامل کا انکشاف کیا۔ جس نے خوراک اور دواؤں کے پیچیدہ تعلق کو اجاگر کیا۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب گٹھیا کے ایک مریض کو شدید درد اور کمزوری کے باعث ہسپتال منتقل کیا گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ مریض نے گاؤٹ کے علاج میں استعمال ہونے والی دوا کولچیسن کے ساتھ ساتھ آرٹچوک (ایک سبزی) سے تیار مشروب بھی پیا تھا۔ وہ اس کے علاوہ ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر کی ادویات بھی استعمال کر رہا تھا۔
آرٹچوک میں موجود کچھ حیاتیاتی مرکبات نے اس کے جسم میں دواؤں کو جذب اور استعمال کرنے کی معمول کی صلاحیت کو متاثر کیا، جس کے نتیجے میں اس کے جگر میں زہریلے مادے جمع ہونا شروع ہو گئے۔
کیمپوس کہتی ہیں کہ ’صورتحال اتنی خراب ہو گئی تھی کہ ہمیں لگا شاید جگر کی پیوندکاری کرنا پڑے گی۔ یہ واقعی ایک پیچیدہ کیس تھا۔‘
خوش قسمتی سے مریض مکمل طور پر صحت یاب ہو گیا۔
کیمپوس مزید کہتی ہیں ’روایتی علاج میں جڑی بوٹیوں اور عرقیات کا استعمال عام ہے جیسے آرٹچوک کی چائے لیکن ان کی سخت نگرانی نہیں ہوتی۔ بعض اوقات یہ بھی مصنوعی دواؤں کی طرح مؤثر ہو سکتی ہیں مگر چونکہ ان کا معیار اور اثر یکساں نہیں ہوتا، اس لیے یہ خطرات کا باعث بن سکتی ہیں۔‘
Getty Images
ماریا دا گراسا کیمپوس کے مطابق ایک تحقیق میں دیکھا گیا کہ ہلدی اور chlorella algae سے بنایا گیا سپلیمنٹ ایک مریض کی کینسر کی دوائیوں کے ساتھ مل کر اس کے جگر میں شدید زہریلا اثر پیدا کرنے کا سبب بنا۔
ہلدی کے بارے میں یہ بات اہم ہے کہ یہ خون کو پتلا کرنے میں اثرانداز ہو سکتی ہے اور ذیابیطس کی دوائیوں کے اثر کو بڑھا سکتی ہے۔
اسی طرح سینٹ جانز ورٹ کا عرق اینٹی اینزائیٹی اور اینٹی ڈپریسنٹ دواؤں کے علاوہ مانع حمل ادویات اور بعض کیموتھراپی دواؤں کے ساتھ بھی پیچیدہ تعاملات پیدا کرسکتا ہے۔
کیمپوس کا کہنا ہے ’یہ سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ جڑی بوٹیاں اور دواؤں والے پودے بھی دواؤں جتنے ہی بڑے پیمانے پر اثرات اور تعاملات پیدا کر سکتے ہیں۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ مزید کلینیکل ٹرائلز کی ضرورت ہے تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ ادویات اور خوراک کے درمیان یہ تعلقات ایک عمومی اور مستقل رجحان ہیں یا محض چند مخصوص مریضوں کے کیسز میں سامنے آتے ہیں۔
خوراک ادوایات کی تاثیر کو کم کر سکتی ہےGetty Images'پھلوں کے رس کا اثر ادویات پر زیادہ ہوتا ہے کیونکہ یہ زیادہ گاڑھا یا طاقتور ہوتا ہے، یعنی اس میں فعال مرکبات کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جو دوائیوں پر زیادہ اثر ڈالتی ہے۔'
خوراک اور دوائیوں کا تعامل ہمیشہ خطرناک یا زہریلا نہیں ہوتا لیکن بعض اوقات یہ دوائی کی اثر پذیری کو کم یا بدل سکتا ہے۔
مثال کے طور پر وارفرین جو ایک اینٹی کوگولنٹ (خون پتلا کرنے والی دوا) ہے جب پتوں والی سبز سبزیوں میں موجود وٹامن ’کے‘ کے ساتھ لی جائے تو اس کا اثر مختلف ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وارفرین لینے والے مریض سبز سبزیاں نہ کھائیں بلکہ یہ ضروری ہے کہ دوائی اور خوراک ایک دوسرے کے مطابق ایڈجسٹ کی جائیں۔
پٹریک چن کہتے ہیں ’اگر آپ زیادہ سبز سبزیاں کھاتے ہیں تو ڈاکٹر وارفرین کی خوراک کو اس اثر کے مطابق بڑھا سکتے ہیں۔‘
وہ مریض جو مونوامین آکسیڈیس انہیبٹرز (ایم اے او آئیز) نامی اینٹی ڈپریسنٹس لیتے ہیں، انھیں عام طور پر ایسے کھانے سے پرہیز کرنے کی ہدایت دی جاتی ہے جن میں زیادہ ٹائرامین ہو، جیسے خمیر والی غذا اور پنیر۔ یہ اینزائم جسم میں ٹائرامین کو میٹابولائز کرنے کی صلاحیت کو بدل دیتا ہے اور بلڈ پریشر میں اچانک اضافہ کر سکتا ہے۔
دوا پر دودھ، دہی اور پنیر کا اثرGetty Images
دودھ، دہی اور پنیر جیسی مصنوعات اس بات کو متاثر کر سکتی ہیں کہ آپ کے نظام ہضم میں کچھ اینٹی بائیوٹکس (جیسے سیپروفلوکساسین اور نورفلوکساسین) کس طرح جذب ہوتی ہیں۔ محققین اسے ’پنیر اثر‘ کہتے ہیں۔
چن کہتے ہیں ’فائبر سے بھرپور غذائیں جیسے اناج بھی یہی اثر ڈال سکتا ہے۔ جب دوائیں آنتوں میں ہوتی ہیں تو دودھ اور فائبر سے بھرپور غذاؤں کے مالیکیول دوائیوں سے چپک جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ خون میں داخل نہیں ہو پاتیں۔‘
چن مزید وضاحت کرتے ہیں ’چونکہ دوا آنتوں میں ڈیری مصنوعات سے جڑ جاتی ہے اس لیے یہ خون میں نہیں پہنچتی اور آنتوں میں پھنس جاتی ہے۔‘
ان کے مطابق اس کا حل آسان ہے: ’مریضوں کو اینٹی بائیوٹکس لینے سے کم از کم دو سے چار گھنٹے پہلے یا بعد میں ڈیری مصنوعات سے پرہیز کرنا چاہیے۔‘
چن کا مشورہ ہے ’آپ دودھ اور پنیر استعمال کر سکتے ہیں، بس دوا اور اس خوراک کو ایک ہی وقت میں نہ لیں۔‘
کچھ محققین کو امید ہے کہ ادویات اور خوراک، مشروبات اور جڑی بوٹیوں کے درمیان تعلقات کو اس طرح کنٹرول کیا جا سکتا ہے کہ دوائیوں کی تاثیر بہتر ہو۔ مثال کے طور پر کچھ کینسر کے ماہر ڈاکٹر اس بات پر کام کر رہے ہیں کہ کس طرح خوراک کینسر کے علاج کی کارکردگی پر اثر ڈالتی ہے اور اسے مزید مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔
مناسب خوراک کے ذریعے ادویات کی تاثیر کو بڑھانے کی کوششGetty Images
لیوس کینٹلی، میساچوسٹس کے ہارورڈ میڈیکل سکول میں سیل بایولوجسٹ ہیں، انھوں نے دریافت کیا ہے کہ ایک ایسا حیاتیاتی راستہ جو خلیوں کی نشوونما کو کنٹرول کرتا ہے اور کینسر کی کچھ دوائیوں کے لیے ہدف ہوتا ہے، اس وقت بہتر ردعمل دیتا ہے جب خوراک میں چینی کی مقدار کم ہو۔
کینٹلی کہتے ہیں ’انسان ہزاروں سال قبل گوشت اور کچی سبزیاں کھانے کے قابل ہوئے تھے۔ ان غذاؤں کے بعد جسم میں گلوکوز کی سطح تیزی سے نہیں بڑھتی۔‘
انھوں نے مزید کہا ’ہزاروں سال پہلے کینسر موت کی ایک نایاب وجہ تھا۔ پچھلی پانچ دہائیوں میں کینسر کے کیسز میں اضافہ ہماری خوراک میں کاربوہائیڈریٹ سے بھرپور غذاؤں کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔‘
کینٹلی نے 2018 میں چوہوں پر تجربات کیے جنھیں کیٹوجینک خوراک دی گئی یعنی ایسی خوراک جس میں کاربوہائیڈریٹ کم اور گوشت و سبزیاں زیادہ ہوں۔ ابتدائی نتائج سے معلوم ہوا کہ اس قسم کی خوراک کھانے والے چوہوں میں کینسر کے خلاف ادویات زیادہ مؤثر ثابت ہوئیں۔
کینٹلی کے پاس فیتھ تھراپیوٹکس نامی ایک سٹارٹ اپ بھی ہے جس کا مقصد ’میٹابولزم کو استعمال کرتے ہوئے کینسر کی سائنس پر نظر ثانی کرنا‘ ہے۔ ان کی ٹیم اب ان نتائج کو کچھ انسانی مریضوں پر آزما رہی ہے جن میں نیویارک کے میموریل سلوان کیٹرنگ کینسر سینٹر میں اینڈومیٹریال کینسر والی خواتین بھی شامل ہیں۔
سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ خوراک کا ادوایات پر بہت بڑا اثر پڑ سکتا ہے۔ اسی لیے غذائیت کے محقق جیلینا مائسیوک نے اس تجربے میں مدد کے لیے کمپیوٹیشنل بایولوجسٹ کی ٹیم بھی شامل کی۔ وہ ادویات پر خوراک کے اثرات کے بارے میں دستیاب تمام سائنسی معلومات کو ایک منظم ڈیٹا بیس میں جمع کر رہے ہیں تاکہ خوراک اور ادویات کے تعاملات کو بہتر طور پر ٹریک کیا جا سکے۔
اینریک کیریلو ڈی سانتا پاؤ جو میڈرڈ کے فوڈ انسٹی ٹیوٹ کے کمپیوٹیشنل ماہر حیاتیات ہیں، کہتے ہیں ’ہم نے سوچا یہ آسان ہوگا لیکن ایسا نہیں تھا۔ ہمیں بنیادی سطح سے شروع کرنا پڑا۔‘ دستیاب ڈیٹا بیس محدود اور غیر مطابقت والے تھے، اس لیے انھوں نے خوراک اور دوائی کے لاکھوں تعاملات کو ایک نئے پلیٹ فارم میں جمع کیا جو ڈاکٹروں کے لیے دستیاب ہوگا۔
یہ ایک پیچیدہ عمل ہے لیکن مستقبل میں اس سے ڈاکٹروں کو مریضوں کے لیے ایسی خوراک تجویز کرنے میں مدد مل سکتی ہے جو ان کی دوائیوں کے اثرات کو بہتر بنائے۔
فی الحال، ویاگرا اور انار کا رس ایک ساتھ لینے سے گریز کرنا بہتر ہے۔
ویاگرا استعمال کرنے والے مردوں میں ’الزائمر کا خطرہ کم ہو سکتا ہے‘مردوں میں مقبول ویاگرا خواتین کے لیے کیوں نہ بن سکی؟تربوز جس میں ویاگرا کے فوائد بھی شامل ہیںویاگرا کی حادثاتی دریافت کا حصہ بننے والے بیروزگار مزدور جنھوں نے غیراستعمال شدہ گولیاں واپس کرنے سے انکار کیا