Getty Imagesپاکستان میں مون سون کی بارشوں اور سیلاب کے سبب حالیہ مہینوں میں 800 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں
’وہ قیامت کی رات تھی جو ہم نے جاگ کر گزاری، کئی بار تین، چار فٹ لمبے سانپ بھی قریب سے گزرے، ہم یہی سمجھے کہ شاید موت قریب آگئی ہے اور ہماری قسمت میں ایسے ہی مرنا لکھا ہے۔‘
یہ کہنا ہے وسطی پنجاب کے ضلع وزیر آباد میں دریائے چناب کے قریب واقع گاؤں رانا بہرام کی رہائشی سکینہ بی بی کا جن کے خاندان کو ریسکیو 1122 کے اہلکاروں نے بدھ کی صبح چھ سے سات بجے کے دوران ریسکیو کر کے ریلیف کیمپ میں پہنچایا تھا۔
انڈین ڈیموں سے پانی کے اخراج کے بعد پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے این ڈی ایم اے کی جانب سے قائم کردہ نیشنل ایمرجنسیز آپریشن سینٹر نے صوبہ پنجاب کے تین دریاؤں چناب، راوی، اور ستلج کے حوالے سے ایک ایمرجنسی الرٹ جاری کیا ہے۔
نیشنل ایمرجنسیز آپریشن سینٹر کا کہنا ہے کہ اس وقت ان تینوں دریاؤں میں غیر معمولی سیلابی صورتحال کا سامنا ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے چھ اضلاع میں سیلابی صورتحال کے پیشِ نظر محکمہ داخلہ پنجاب نے چھ اضلاع میں فوج کی تعیناتی کے لیے وفاقی وزارت داخلہ کو مراسلہ لکھا تھا۔
خیال رہے پاکستان میں مون سون کی بارشوں اور سیلاب کے سبب حالیہ مہینوں میں 800 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
رانا بہرام کی رہائشی سکینہ بی بی بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر کچھ عرصے سے بیمار ہیں اور ان کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے خاندان میں دو بہو اور تین نواسے ہیں۔
منگل اور بدھ کی درمیانی شب ان کے خاندان کے تمام 14 افراد اپنے مکان میں پھنس کر رہ گئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ قریبی گھروں کے لوگ سرِشام ہی اپنے گھر خالی کرکے چلے گئے تھے لیکن وہ اس ساری صورتحال سے لاعلم تھے۔
’یہ رات دس سے گیارہ بجے کا وقت ہوگا جب چناب کاپانی گھر کے اندر داخل ہوا، ہم گھبرا کر اٹھ گئے، بچوں نے اس ناگہانی صورتحال پر چیخنا چلانا شروع کردیا۔‘
’ہم سب چھت کی طرف دوڑے، چونکہ ہمارا مکان کچا ہے تو ڈر تھا کہ شاید چھت پانی کا تیز بہاؤ برداشت نہیں کر پائے اور گر جائے۔‘
تاہم سکینہ بی بی کے مطابق ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور چارہ بھی نہ تھا۔
'پانی ہمارے قریب سے گزر رہا تھا اور ہم بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔‘
سکینہ بی بی نے بتایا کہ ان کے بیٹے کا موبائل فون گھر کے صحن میں پڑا رہ گیا اور پانی کے ساتھ ہی بہہ گیا۔
’اس دوران ہم نے کئی سانپوں کو قریب سے گزرتے دیکھا، اللہ نے ہماری جان محفوظ رکھی اور یہی ڈر تھا کہ اگر چھت یا دیوار گر گئی تو ہمارے زندہ بچنے کا کوئی امکان نہیں ہوگا۔‘
بی بی سی اردو کے فیچر اور تجزیے براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں
انھوں نے بتایا کہ صبح کا سورج طلوع ہونے والا تھا جب انھیں دو کشتیاں نظر آئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کشتیوں پر سوار افراد کے ہاتھوں میں ٹارچ لائٹس تھیں اور وہ دوربین سے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔
’میرے بیٹوں نے اپنی قمیضیں اتار کر لہرانی شروع کر دیں اور ہم سب نے شور بھی مچایا، ہماری زندگی ابھی باقی تھی کہ ان لوگوں نے ہمیں دیکھ لیا۔‘
انھوں نے بتایا کہ یہ ریسکیو 1122 کے لوگ تھے جنھوں نے انھیں وہاں سے نکالکر وزیر آباد شہر کے قریب ریلیف کیمپ میں پہنچایا۔
’دریا کو ظالم ہوتے ہوئے دیر نہیں لگتی‘
ضلع سیالکوٹ کے گاؤں خان مسلم کے رہائشی غلام رسول دودھ اور جانوروں کی فروخت کے کاروبار سے منسلک ہیں لیکن سیلاب ان کا سب کچھ بہا کر لے گیا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ سیلاب سے قبل، ’گاؤں والوں نے کہا کہ آپ بھی آجائیں، ہم نے کہا کہ آپ لوگ ایسے ہی ڈر رہے ہیں کچھ نہیں ہونا اور اگر ہم گھروں سے نکلیں گے تو چور ڈاکو ہمارے گھر لوٹ کر لے جائیں گے، کچھ گھنٹوں بعد جب سیلابی پانی آیا تو ہمارے جانور اور گھر کا سارا سامان دیکھتے ہی دیکھتے بہہ گیا اور ہم کچھ نہ کرسکے۔‘
غلام رسول کا گاؤں دریائے چناب پر تعمیر ہیڈ مرالہ سے چار کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ انھیں اور ان کی فیملی کو ایک فلاحی ادارے کے کارکنان تین گھنٹے کی مسلسل کوششوں کے بعد آج صبح محفوظ مقام پر منتقل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
غلام رسول بتاتے ہیں کہ ان کے پاس ڈیرے میں سات بھینسیں اور گیارہ بچھڑے تھے لیکن سیلابی ریلا تمام جانور بہا کر لے گیا۔
گذشتہ رات کے بارے میں وہ بتاتے ہیں کہ شام چھ، سات بجے تک سب کچھ ٹھیک تھا، پھر علاقے کی مسجد سے اعلان ہوا کہ لوگ گھروں سے باہر نکل جائیں کیونکہ ہیڈ مرالہ سے پانی باہر آنا شروع ہوگیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ ہی دیر گزری ہو گی کہ پولیس کی ایک گاڑی بھی گاؤں میں آگئی اور انھوں نے بھی ایسا ہی اعلان کرنا شروع کردیا۔ غلام رسول کے مطابق اس دوران گاؤں کے بہت سارے لوگ اپنے گھروں کو تالے لگا کر جا چکے تھے۔
’ہمارے ہمسائے عمر فاروق نے مجھے کہا کہ آپ لوگ بھی جلدی سے نکل چلو۔ میں نے کہا کہ تم پاگل ہوگئے ہو کیا، میں جانوروں کو چھوڑ کر کہاں جاسکتا ہوں۔‘
’پھر اس نے کہا کہ بیوی بچوں کو گاؤں سے باہر کسی رشتے دار کے گھر بھجوادو، میں نے کہا کہ میرا پکا مکان ہے، کچھ نہیں ہوگا۔‘
غلام رسول بتاتے ہیں کہ رات دس بجے تک سارا گاؤں خالی ہوچکا تھا کہ اس دوران اچانک سے پانی اس شدت سے آیا کہ ہمارا ڈیرہ بہہ گیا اور سارے جانور دیکھتے ہی دیکھتے پانی کے ساتھ بہہ گئے۔
’میں، میری بیوی اور ساتوں بچے مکان کی چھت پر چڑھ کر اپنی بے بسی کا تماشا دیکھتے رہے، بیوی بچوں نے رونا شروع کردیا کہ اب کیا ہوگا اور ہم کہاں سے کھائیں گے۔‘
خیبر پختونخوا میں سیلاب کے بعد لاپتہ افراد کی قبریں اور ذہنی دباؤ: ’سیاہ بادل خوف کی علامت بن گئے ہیں‘ہر سال بارشوں اور سیلابی ریلوں سے ہلاکتیں اور تباہی: کیا اِس سے بچنا ممکن ہے؟’سامان چھوڑو، بیوی بچوں اور بوڑھوں کو لے کر نالے سے دور ہوجاؤ‘: چرواہے کی گلیشیئر جھیل پھٹنے کی اطلاع جس نے گلگت بلتستان میں درجنوں جانیں بچائیںسوات میں سیلاب کے بعد مینگورہ بازار کیچڑ کے ڈھیر میں تبدیل: ’ملبے نے پل کے ساتھ پھنس کر ڈیم کی شکل اختیار کر لی‘
غلام رسول کے مطابق ان کے بیٹے فرحان نے اپنے دو تین دوستوں کو موبائل فون پر بتا دیا تھا کہ ہم پھنس چکے ہیں اور پانی سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ جس پر اس کے دوستوں نے بھاگ دوڑ شروع کر دی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ، ان کے بیٹے نے کچھ واٹس ایپ گروپوں میں بھی اپنی لوکیشن شیئر کی
ان کا کہنا ہے کہ بالآخر آج (بدھ کی صبح) صبح ایک فلاحی ادارے الخدمت فاؤنڈیشن کے رضاکار ہماری مدد کو پہنچے، جنھوں نے سیڑھیاں لگا کر ہمیں چھت سے اتارا اور کشتی کے ذریعے پانی سے باہر نکالا۔
’میرے آباؤ اجداد دریائے چناب کے قریب بسے اس گاؤں میں آباد تھے، اس وجہ سے میں بھی یہاں رہتا ہوں۔ لیکن اب میں سب کو یہی کہتا ہوں کہ دریا کے قریب علاقے میں کبھی گھر نہیں بنانا چاہیے، دریا کو ظالم ہوتے ہوئے دیر نہیں لگتی۔‘
’ٹھٹھی بلوچ کو بلوچوں نے آباد کیا، چناب نے اجاڑ دیا‘
’ٹھٹھی بلوچ تاریخی اہمیت کا حامل گاؤں ہے لیکن دریائے چناب کے پانی نے گاؤں کی کوئی چیز سلامت نہیں رہنے دی۔‘
یہ کہنا ہے ٹھٹھی بلوچ کے شہری دل نواز خان کا جن کا خاندان تو بروقت گاؤں سے نکل گیا تھا لیکن وہ اپنے گھر اور مال مویشیوں کی حفاظت کے لیے پیچھے رک گئے تھے۔
لیکن انھیں اپنا یہ فیصلہ قدرے مہنگا پڑ گیا۔ وہ نہ تو اپنا گھر اور جانور بچا سکے اور اوپر سے انھیں سیلابی پانی سے نکلنے کے لیے کافی مشکل حالات سے گزرنا پڑا۔
دل نواز کہتے ہیں کہ گاؤں کے کچھ لوگوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنے اہلِ خانہ کو تو گاؤں سے دور کسی رشتے دار کے گھر بھجوادیں گے لیکن خود یہاں موجود رہیں گے تاکہ گھروں اور جانوروں کی حفاظت کی جاسکے۔
’کسی کو اندازہ نہ تھا کہ دریا بپھر جائے گا اور پانی دریا سے باہر آ جائے گا۔‘
’ٹھٹھی بلوچ میں پانی اس قدر تیزی سے آیا کہ سب گھبرا گئے، کوئی دیوار پر چڑھا، کوئی چھت پر اور جو لوگ درخت پر چڑھے وہ جلد ہی درخت ٹوٹ جانے کے باعث پانی کے ساتھ بہہ گئے۔ پانی اس قدر زیادہ تھا کہ گھروں اور ڈیروں کی چھتیں بھی نظر نہیں آرہی تھیں۔‘
دل نواز خان نے بتایا کہ ساری رات ڈرتے ڈرتے گزری۔ ان کے مطابق صبح تقریباً پانچ بجے ریسکیو 1122 کی دو ٹیمیں نظر آئیں جو لوگوں کو کشتی کی مدد سے ریسکیو کر رہے تھے۔
’میں بھی ان کے ساتھ کشتی میں بیٹھ گیا جنھوں نے مجھے سوہدرہ کے ریلیف کیمپ میں پہنچایا۔‘
’ٹھٹھی بلوچ کو بلوچوں نے آباد کیا تھا لیکن اب اسے چناب نے اجاڑ دیا ہے۔‘
وہ پوچھتے ہیں کہ گاؤں والوں کے نقصانات کو کون پورا کرے گا؟
’ہم بلوچ ہیں اور خوددار ہیں، ہمیں کسی سے مانگنے کی عادت نہیں اور سرکاری ادارے مانگے بغیر نقصان کا ازالہ نہیں کرتے۔‘
گوجرانوالہ کی ضلعی انتظامیہ نے دریائے چناب سے متاثرہ علاقوں کی جو لسٹ جاری کی ہے اس کے مطابق سوہدرہ، رسول نگر، رتووالی شمال، گورالی، کوٹ کہلوان، چک علی شیر، جھامکے، برج دھلا، برج چیمہ، گڑھی غلہ، کوٹ راتہ اور ٹھٹھی بلوچ کے علاقے سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر نوید احمد کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 13 ریلیف کیمپس قائم کیے گئے ہیں اور ریسکیو اور ضلعی انتظامیہ نے 24 گھنٹوں کے دوران اب تک 5 ہزار 100 افراد جبکہ 1700 جانوروںکو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے.
ظہور رحمان: بشونئی میں متعدد افراد کی جانیں بچانے والے استاد جنھیں پانی بہا لے گیا’آپ زمین پر نہیں، کسی کے گھر پر کھڑے ہیں‘: بونیر کا وہ گاؤں جہاں ’ہر پتھر کے نیچے کسی کا مکان دبا ہے‘بونیر کا گاؤں جہاں 80 سے زیادہ گھر سیلابی ریلے میں بہہ گئے’سکینہ کے خاندان میں کوئی مرد نہیں بچا، ایک نسل دفن ہو گئی‘: کشمیر اور خیبر پختونخوا میں سیلاب سے کئی گھر اجڑ گئےپگھلتے گلیشیئرز، گِرتے برفانی تودے اور سیاحوں کی عدم موجودگی: گلگت بلتستان میں کیا ہو رہا ہے؟’سامان چھوڑو، بیوی بچوں اور بوڑھوں کو لے کر نالے سے دور ہوجاؤ‘: چرواہے کی گلیشیئر جھیل پھٹنے کی اطلاع جس نے گلگت بلتستان میں درجنوں جانیں بچائیں