میرپور میں برطانوی ورک پرمٹ اور ویزا کا مبینہ فراڈ: ’لٹل برمنگھم‘ کے درجنوں شہری ایجنٹس کا شکار کیسے بنے؟

بی بی سی اردو  |  Sep 09, 2025

Getty Imagesمیرپور میں سنہ 2025 میں مجموعی طور پر ویزا، ورک پرمٹ فراڈ کی 22 ایف آئی آرز درج ہوئی ہیں جبکہ متاثرین کی تعداد 200 کے لگ بھگ ہے

شگفتہ بی بی کا خواب تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو تعلیم مکمل ہونے کے بعد بیرون ملک بھیجیں اور اِسی لیے اُن سے ایک ایجنٹ نے 82 لاکھ روپے کے عوض برطانیہ کا ورک پرمٹ دینے کا وعدہ کیا تھا۔

شگفتہ کا تعلق پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع میرپور سے ہے جسے ’لٹل برمنگھم‘ بھی کہا جاتا ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اِس علاقے سے تعلق رکھنے والے ہزاروں خاندان برطانیہ کی مستقل شہریت رکھتے ہیں۔

مگر شگفتہ بی بی کا یہ خواب اُس وقت ٹوٹ گیا جب اُنھیں معلوم ہوا کہ اُن کے بیٹے شیراز کو لاکھوں روپے کے عوض جو ورک پرمٹ اور برطانوی ویزا دیا گیا تھا، وہ مبینہ طور پر جعلی تھا۔ شیراز آج کل ایک شادی ہال میں بطور ویٹر کام کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ اُن کے مطابق ایک ایجنٹ نے ناصرف اُن کے والدین کے خوابوں کو توڑ کر رکھ دیا بلکہ اُن کا خاندان اپنی جمع پونجی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔

شیراز کہتے ہیں کہ ’مجھے اب اپنے بہتر مستقبل کی نہیں، بلکہ والدہ کو سکون فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے ایک طرف گھر والوں کی پریشانی ہے تو دوسری طرف ادھار لی گئی رقم کی فکر ہے کہ یہ کیسے واپس کروں گا؟‘

بی بی سی کو میرپور پولیس کے ریکارڈ تک رسائی حاصل ہوئی ہے جس کے مطابق سال 2025 کے آغاز سے اب تک میرپور ضلع کے تھانوں میں ویزا فراڈ کے 200 سے زیادہ متاثرین نے 185 درخواستیں دائر کیں جن پر مجموعی طور پر 22 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

ایف آئی آرز کا اندارج کرواتے ہوئے متاثرین نے دعویٰ کیا ہے کہ اس فراڈ میں مجموعی طور پر وہ 32 کروڑ پاکستانی روپے اور ایک لاکھ 39 ہزار پاؤنڈز سے زیادہ کی رقم سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

کشمیر حکومت کے وزیر قانون میاں عبدالوحید نے بی بی سی کو بتایا کہ میرپور میں حالیہ ’ویزا سکینڈل‘ جیسے واقعات کی روک تھام کے لیے خطے میں قوانین سخت کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔

برطانوی ورک پرمٹ کے جھوٹے وعدےBBC’ایجنٹ نے وعدہ کیا کہ وہ 82 لاکھ روپے میں برطانیہ کا ورک پرمٹ دلائے گا۔ ہم نے گاڑی، زیور اور زمین تک فروخت کر دی‘

برطانیہ جانے کے لیے ویزوں کی مختلف اقسام موجود ہیں جن میں سے ایک ’سکلڈ ورکر ویزا‘ ہے، جسے عام طور پر ورک پرمٹ بھی کہا جاتا ہے۔

شیراز سے بھی اسی ویزے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ان کی والدہ شگفتہ بی بی کا کہنا ہے کہ ’میرے بچے نے تعلیم مکمل کی تو ہم نے سوچا کہ اب اسے بیرون ملک بھیجیں تاکہ وہ زندگی میں کچھ بہتر کر پائے گا۔‘

’ایجنٹ نے وعدہ کیا کہ 82 لاکھ روپے میں برطانیہ کا ورک پرمٹ دلائے گا۔ ہم نے گاڑی، زیور، زمین، حتیٰ کہ اپنی امی کا پلاٹ اور بہن کی گاڑی تک بیچ دیے۔ یہ سارے پیسے ایجنٹ کو دے دیے۔‘

شیراز کی گریجویشن کے بعد ان کی والدہ کی ملاقات اس سہیلی سے ہوئی جنھیں وہ ’پہلے سے جانتی تھیں‘ اور جن کے شوہر ایک ’ٹریول ایجنٹ‘ ہیں۔ اُن کی دوست نے دعویٰ کیا کہ ان کے شوہر نے ’بہت سے لوگوں کو برطانیہ کے ورک ویزا لگوا کر دیے ہیں۔‘

والدہ نے الزام عائد کیا کہ اپنے دفتر میں اس ایجنٹ نے وعدہ کیا کہ دو ماہ میں ’بیٹے کو اچھے روزگار والی جگہ پر ویزا لگا کر دوں گا۔‘

شیراز کی برطانیہ روانگی کے لیے ایک ہفتے میں شگفتہ میں تمام کاغذات اور 82 لاکھ روپے کا بندوست کیا گیا۔

شگفتہ کے مطابق جب دیے گئے ’ورک پرمٹ' کے ساتھ دیگر پراسس کروانے کے لیے اسلام آباد گئے تو وہاں جا کر انھیں معلوم ہوا کہ یہ جعلی ہے۔ شگفتہ کے مطابق یہ سنتے ہی وہ جہاں کھڑی تھی وہیں زمین پر گِر گئیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ایجنٹ نے ایک بار پھر ویزا دلانے کا وعدہ کیا۔ ’اس کو اپائنٹمنٹ لیٹر منگوا کر دیا۔ جب پھر میرا بیٹا اسلام آباد انگوٹھا لگوا کر آیا تو اس کا ویزا مسترد ہو گیا۔‘

پیسے واپس نہ ملنے پر شگفتہ نے ایجنٹ کے خلاف مقدمہ درج کروایا، مگر ان کے بقول ایجنٹ نے عدالت سے حکم امتناع حاصل کر لیا ہے۔

شگفتہ کہتی ہیں کہ ’ہم اب اس سے پیسے واپس نہیں مانگ سکتے۔ میرے پاس اب گھر ہے نہ زمین۔ کرائے پر بہن کے گھر رہ رہی ہوں۔ میرا قصور کیا تھا؟ میں نے صرف بچوں کے بہتر مستقبل کا خواب دیکھا تھا۔‘

ویزا فراڈ کے ملزم قانون کی گرفت میں کیوں نہ آ سکے؟

میرپور پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق ضلع کے مختلف تھانوں میں سال 2025 کے دوران ویزا فراڈ پر 185 درخواستیں وصول ہوئی ہیں جن پر 22 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

بی بی سی کو حاصل پولیس ریکارڈ کے مطابق اِن 200 سے زیادہ متاثرین نے 32 کروڑ روپے، ایک لاکھ 30 ہزار پاؤنڈز اور 100 ڈالر سے زیادہ کے مالی نقصان کا دعویٰ کیا ہے۔

ایس پی میرپور خرم اقبال نے بتایا ہے کہ جعلی ویزا کے کیسز میں جعلسازی اور انسانی سمگلنگ سے متعلق مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج کیے جاتے ہیں مگر وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایسے کیسز کے لیے کشمیر کی پولیس کے پاس ’کوئی خاص تربیت موجود نہیں ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اس جرم سے نمٹنے کے لیے مخصوص قانون کی عدم موجودگی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے دائرہ کار کو کشمیر تک بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ ’زیادہ تر کیسز میں ایجنٹس برطانیہ میں موجود ہوتے ہیں جبکہ اُن کے چند نمائندے یہاں کشمیر میں موجود ہوتے ہیں، جو مقامی لوگوں کے ساتھ معاملات طے کرتے ہیں۔‘

’جب وہ اپنے اہداف مکمل کر لیتے ہیں تو وہ بیرونِ ملک فرار ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے قانونی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔‘

ایس پی میرپور کا مزید کہنا تھا کہ ’جو کیسز کشمیر میں طے ہوتے ہیں، ان پر پولیس کارروائی کر رہی ہے۔ اب تک تقریباً 25 فیصد رقم ریکور کی گئی ہے اور کئی ملزمان گرفتار کیے جا چکے ہیں۔‘

’جو جعلی ویزا کیسز برطانیہ میں موجود ایجنٹس سے متعلق ہیں، ان میں قانونی پیچیدگیاں اور مشکلات درپیش ہیں۔‘

برطانیہ میں نوکری کا فراڈ اور پاکستانی ایجنٹ: ’اس نے کہا آپ میری بہنوں جیسی ہیں، زیادہ پیسے نہیں لوں گا‘برطانیہ کی نئی ویزا پالیسی کا ممکنہ ہدف پاکستان اور نائیجریا جیسے ممالک کیوں ہیں؟خواجہ آصف کا سرکاری افسران کی جانب سے پرتگال میں جائیدادیں خریدنے کا دعویٰ: پرتگال کا گولڈن ویزا کیا ہے اور یہ اتنا پُرکشش کیوں ہے؟برطانیہ میں نوکری کا جھانسہ، ہزاروں پاکستانی لٹ گئے

خطے کے قانونی ماہرین بھی انھی پیچیدگیوں کا ذکر کرتے ہیں۔

سابق صدر میر پور بار راجہ امتیاز کی رائے ہے کہ ویزا فراڈ ایک تشویشناک مسئلہ ہے کیوںکہ ’قانون نافذ کرنے والے اداروں کی محدود رسائی اور انسانی سمگلنگ کے خلاف موثر قانون سازی کا فقدان سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ قانون کی عدم دستیابی کے باعث ’میرپور میں اس وقت ویزا فراڈ اور جعلی دستاویزات کے ذریعے بیرونِ ملک بھجوانے کا کاروبار منظم ہوتا جا رہا ہے۔‘

’پاکستان میں انسانی سمگلنگ کے خلاف باقاعدہ قانون سازی موجود ہے، ایف آئی اے جیسے ادارے متحرک ہیں اور ایسے عناصر کے خلاف کارروائیاں کی جاتی ہیں، تاہم کشمیر میں نہ صرف ایسے جرائم کے خلاف قانون سازی کا فقدان ہے بلکہ کوئی ایسا ادارہ بھی موجود نہیں جو ایف آئی اے کے طرز پر کام کر کے ان لوگوں کو بے نقاب کر سکے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ متاثرین ’سالہا سال عدالتی چکروں میں پڑ کر مایوسی، مالی تباہی اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔‘

ادھر کشمیر حکومت میں وزیر قانون میاں عبدالوحید یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ویزا فراڈ کے خلاف قوانین سخت کرنے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اگر کسی مخصوص معاملے پر فوری قانون سازی کی ضرورت محسوس ہوئی تو حکومت بلاتاخیر قانون ساز اسمبلی کے فلور پر قانون پیش کرے گی تاکہ ایسے جرائم کا سدباب کیا جا سکے۔‘

میاں عبدالوحید کا کہنا تھا کہ ’انسانی سمگلنگ ایک بین الاقوامی مسئلہ بن چکی ہے جس کے خلاف ہر ممکن اقدام اٹھایا جائے گا۔‘

انھوں نے وضاحت دی کہ کشمیر اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان ملزمان کی تحویل سے متعلق معاہدہ موجود ہے جس کے تحت اگر کسی کیس میں ایف آئی اے کو کسی ملزم کی تفتیش درکار ہو تو قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے معاہدے پر عملدرآمد ممکن ہے۔

’اصل اور نقل کی پہچان ختم‘

ضلع میرپور کے ایک اور رہائشی جاوید اقبال کے بقول انھیں بھی اسی طرح نشانہ بنایا گیا جس کے خلاف انھوں نے درخواست دائر کی ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے اپنے بیٹوں کو بیرونِ ملک بھیجنے کے لیے ایک ایجنٹ کو ’42 ہزار برطانوی پاؤنڈز‘ دیے تھے مگر انھیں بھی اس کے عوض جعلی ویزا دیا گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ایجنٹ اُن کا جاننے والا تھا اور وہ اس بات پر مطمئن تھے کہ ’یہ شخص میرے ساتھ دھوکہ نہیں کرے گا۔‘

جاوید اور ان کے چند دوست اب مل کر یہ کوشش کر رہے ہیں کہ ’متاثرین کا ایک فورم قائم کریں‘ جو کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں ’دھرنا دے گا۔‘

کشمیر کے ضلع میرپور سے تعلق رکھنے والی ایک بڑی تعداد برطانیہ میں مقیم ہے اور ماضی کے مقابلے اب ورک ویزا کا حصول مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

میرپور سے تعلق رکھنے والے صحافی سجاد جرال کا کہنا ہے کہ ’میرپور میں ہر دوسرے گھر کا کوئی نہ کوئی فرد برطانیہ میں موجود ہے۔ اب دیکھا دیکھی باقی لوگ بھی جب برطانیہ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب اصل اور نقل کی پہچان ختم ہوتی جا رہی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ جعلی ویزوں کے سکینڈل سے قبل برطانیہ جانے کے لیے ’جعلی ہیلتھ کیئر اور جعلی نکاح نامہ جیسے کئی سکینڈل سامنے آ چکے ہیں۔ ہیلتھ کیئر ویزا کے لیے جن لوگوں نے جعلی دستاویزات کا استعمال کیا وہ بیرونِ ملک تو پہنچ گئے مگر ان کے پاس کوئی تجربہ نہیں تھا اور نہ ہی اپنی قابلیت ثابت کر سکے۔‘

’اسی طرح اگر کوئی فیملی برطانیہ میں ہو، تو وہ کسی عزیز کو بلانے کے لیے جعلی نکاح نامہ بناتے ہیں۔ جب متعلقہ شخص وہاں پہنچ جاتا ہے تو وہ نکاح نامہ صرف کاغذات کی حد تک ہوتا ہے جسے ختم کر دیا جاتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ جعلی دستاویزات بنانے والے بعض ایجنٹس کو سزائیں بھی ہوئی ہیں مگر ایسا ہر کیس میں نہیں ہو پاتا۔

وہ یہ خدشہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ بعض متاثرین پولیس میں شکایت درج کرانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ ’متاثرین شاید اس چکر میں ہوتے ہیں کہ پولیس کے پاس گئے تو ہماری رقم ڈوب جائے گی اور وہ ایجنٹس کو مزید وقت دیتے رہتے ہیں۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے میرپور سے تعلق رکھنے والے ایک ٹریول ایجنٹ نے دعویٰ کیا کہ جتنے لوگ بھی اس فراڈ کا شکار ہوئے ہیں انھیں علم تھا کہ وہ غیرقانونی کام کر رہے ہیں اور پیسوں کے عوض ویزا اور ورک پرمٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 'بغیر کسی ثبوت کے متاثرین نے ایجنٹس کو پیسے دیے کیونکہ کام غیرقانونی تھا۔ سادہ سی بات ہے اگر آپ رشوت دے کرنوکری یا ویزا خرید رہے ہیں تو آپ کو خود معلوم ہے کہ آپ غیر قانونی کام کر رہے ہیں۔'

انھوں نے مزید کہا کہ 'ایک بندہ اگر انگلش ٹیسٹ پاس نہیں کر سکتا، اس کے پاس کوئی ہنر بھی نہیں ہے اور وہ سکلڈ ورکر ویزا پر جانا چاہتا ہے، تو یہ قانونی ذریعہ نہیں ہے برطانیہ جانے کا۔ اور اسی موقع پر جعلی ایجنٹس لوگوں سے ویزوں اور ورک پرمٹ کے منھ بولے پیسے لے لیتے ہیں۔'

میرپور میں گذشتہ 21 برسوں سے ویزا فراہم کرنے والی کمپنی اے جے کے کنسلٹنٹس برٹش کونسل کے ساتھ رجسٹرڈ ہے۔

اس کے چیف ایگزیکٹو فیصل منظور کا کہنا ہے کہ ویزا فراڈ کی اصل وجہ اداروں کی کمزوری ہے۔ ’جن لوگوں کے ساتھ فراڈ ہوا وہ زیادہ تر تھانے جانے کی بجائے جرگے کو ترجیح دیتے ہیں، کچھ رقم معاف کر دیتے ہیں، کچھ وصول ہو جاتی ہے لیکن قانونی کارروائی نہیں کرتے۔‘

اُن کا کہنا ہے کہ ’جو ایجنٹ بڑے پیمانے پر فراڈ کرتا ہے وہ پہلے اپنا ویزا لگوا کر رکھتا ہے۔۔۔ یہاں کوئی منظم نیٹ ورک نہیں۔ دو، چار لوگ ملتے ہیں جو ایک دفتر قائم کرتے ہیں۔ لوگوں کو ویزوں کی لاچ دے کر جعلی دستاویزات بناتے ہیں۔ ویزے کی پوری رقم بتاتے ہیں تاہم جو ملتی ہے وہ رکھ لیتے ہیں اور جب متاثرین کی تعداد بڑھ جاتی ہے تو ایسے لوگ بیرون ملک فرار ہو جاتے ہیں۔‘

میرپور ’لِٹل برمنگھم‘ کیسے بنا؟Getty Imagesمنگلا ڈیم کی تعمیر کا آغاز 1960 کی دہائی میں ہوا جس کے بعد میرپور کے ہزاروں متاثرین نے برطانیہ نقل مکانی کی

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع میرپور میں جب 1960 کی دہائی میں منگلا ڈیم کی تعمیر شروع ہوئی تو اس ضلع کے ایک بہت بڑا رقبہ ڈیم کی حدود میں آیا اور میرپور اور اس کے گرد و نواح کے ہزاروں گھر، زمینیں، اور بستیاں متاثر ہوئیں۔

ان متاثرہ افراد کو حکومتِ پاکستان اور برطانیہ کی جانب سے کچھ شرائط پر برطانیہ میں آباد ہونے کی اجازت دی گئی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق منگلا ڈیم کی تعمیر کے دوران تقریباً 1 لاکھ 10 ہزار افراد کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا تھا۔

1950–60 کی دہائی میں برطانیہ میں صنعتی ترقی ہو رہی تھی، اور وہاں مزدوروں کی شدید کمی تھی، برطانیہ کی حکومت نے کامن ویلتھ ممالک (جیسا کہ پاکستان) سے مزدور درآمد کرنے کی پالیسی اپنائی۔

منگلا ڈیم کے متاثرین کو جزوی طور پر معاوضے کے طور پر اور جزوی طور پر برطانیہ کی پالیسی کے تحت وہاں ورک ویزا یا ہجرت کی اجازت ملی اور ابتدائی طور پر میرپور کے بہت سے باشندے برطانیہ میں ٹیکسٹائل فیکٹریوں، ملوں، اور تعمیرات میں کام کرنے چلے گئے۔

اس وقت پاکستان کے شہریوں کو برطانوی شہریت یا مستقل رہائش حاصل کرنے میں نسبتاً آسانی تھی کیونکہ وہ کامن ویلتھ سٹیزن تھے۔

اب جو لوگ پہلے گئے، وہ بعد میں اپنے خاندان کے افراد کو بھی فیملی ویزا یا سپانسر شپ کے ذریعے برطانیہ لے گئے۔

آج میرپور کو بعض اوقات ’لٹل برمنگھم‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں کے ہزاروں خاندانوں کے رشتہ دار برطانیہ میں مقیم ہیں۔ میرپور کے لوگ برطانیہ میں ایک مضبوط کمیونٹی ہیں اور زیادہ تر برمنگھم، بریڈفورڈ، لیڈز اور مانچسٹر میں آباد ہیں۔

’سٹیکر کی بجائے ای ویزا‘: کون سے پاکستانی برطانیہ کی نئی سہولت سے مستفید ہو سکیں گے؟برطانیہ میں نوکری کا جھانسہ، ہزاروں پاکستانی لٹ گئےبرطانیہ کی نئی ویزا پالیسی کا ممکنہ ہدف پاکستان اور نائیجریا جیسے ممالک کیوں ہیں؟برطانیہ میں نوکری کا فراڈ اور پاکستانی ایجنٹ: ’اس نے کہا آپ میری بہنوں جیسی ہیں، زیادہ پیسے نہیں لوں گا‘خواجہ آصف کا سرکاری افسران کی جانب سے پرتگال میں جائیدادیں خریدنے کا دعویٰ: پرتگال کا گولڈن ویزا کیا ہے اور یہ اتنا پُرکشش کیوں ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More