BBCچارلس سوبھراج کو دسمبر 2022 میں جیل سے رہا کر دیا گیا تھا
مہاراشٹرا پولیس کے انسپیکٹر مدھوکر جھندے نے 'بِکنی کِلر' چارلس سوبھراج کی گرفتاری میں اہم کردار ادا کیا تھا اور اب نیٹ فلکس نے ان کی زندگی پر ایک فلم بنائی ہے۔
سیریل کِلر چارلس سوبھراج، جنھیں بِکنی کِلر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کو دسمبر 2022 میں نیپال کی کٹھمنڈو جیل سے رہا کیا گیا تھا اور اس وقت ان کی عمر 78 برس تھی۔
چارلس کی رہائی کے وقت بی بی سی مراٹھی نے اس سیریل کِلر کو دو مرتبہ گرفتار کرنے والے پولیس انسپیکٹر سے بات کی تھی۔
چارلس سوبھراج کی گرفتاری سے متعلق واقعات بہت دلچسپ تھے اور یہ کہانی مدھوکر جھندے نے خود بی بی سی کو سُنائی ہے۔
مدھوکر سنہ 1996 میں بطور اسسٹنٹ کمشنر ممبئی پولیس سے ریٹائر ہوئے ہیں۔
مدھوکر نے چارلس کو پہلی مرتبہ سنہ 1971 میں ممبئی میں گرفتار کیا تھا اور وہ اس وقت سب انسپیکٹر کے عہدے پر فائز تھے۔
مدھوکر کہتے ہیں کہ اس وقت تک چارلس بطور 'سیریل کِلر' مشہور نہیں ہوئے تھے۔ اس وقت تک وہ افغانستان اور ایران جیسے ممالک سے مہنگی گاڑیاں چُرا کر ممبئی میں فروخت کیا کرتے تھے۔
لیکن دلّی میں ہونے والے ایک جُرم کے سبب وہ انڈیا میں تحقیقاتی اداروں کے ریڈار پر آ گئے۔
دلّی میں کیا ہوا تھا؟
مدھوکر کہتے ہیں کہ: 'دلّی میں اشوکا نامی ایک فائیو سٹار ہوٹل ہے۔ 1971 میں چارلس کی دوستی ایک رقاصہ سے ہو گئی اور انھوں نے اس خاتون کو شادی کا آسرا دیا۔ وہ انھیں زیورات بھی تحفے میں دیا کرتے تھے۔'
ممبئی پولیس کے سابق افسر کے مطابق چارلس نے ہوٹل میں واقع زیورات کی دُکان پر کام کرنے والے لڑکے کو کافی میں کچھ نشہ آور چیز ملا کر دی اور اس کے بیہوش ہونے کے بعد زیورات لے کر فرار ہو گئے۔
'جب دُکان کے مالک نے اپنے ملازم کو بیہوش دیکھا تو انھوں نے پولیس کو اطلاع دی۔'
مدھوکر کہتے ہیں کہ 'پولیس کو ہوٹل کے کمرے میں ایک پاسپورٹ ملا جس پر چارلس سوبھراج نام درج تھا اور تب ہی یہ شخص پولیس کو مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہوگیا اور اس کا نام اخباروں کی سرخیوں میں آ گیا۔'
Getty Imagesسنہ 1972 اور سنہ 1976 کے درمیان چارلس پر 12 افراد کے قتل کا الزام لگا تھا
کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد مدھوکر کو ایک مخبر نے اطلاع دی کہ ایک غیر ملکی شخص ممبئی میں ایک بڑی ڈکیتی کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اور اس کے ساتھ بندوقوں سے لیس کچھ چار، پانچ غیر ملکی شہری بھی موجود ہیں۔
مدھوکر کے مطابق اطلاع ملنے پر انھوں نے اور ان کے ساتھیوں نے ہوٹل تاج کے اردگرد جاسوسی کرنا شروع کر دی۔
چارلس سوبھراج پہلی مرتبہ کیسے گرفتار ہوا؟
یہ واقعہ سنہ 1971 کا ہے لیکن مدھوکر کو آج بھی ایسا لگتا ہے جیسا یہ واقعہ کل ہی رونما ہوا ہو۔
ان کا کہنا ہے کہ 'ہمارے دو یا چار پولیس اہلکار 11 نومبر کو ایک ٹیکسی میں بیٹھے ہوئے تھے جب چارلس سوبھراج سوٹ اور بوٹ میں ملبوس ان کے پاس سے گزرا۔'
'جیسے ہی وہ وہاں سے گزرا ہمیں یقین ہوگیا کہ یہ وہ ہی شخص ہے جس کی ہمیں تلاش ہے۔ اس کے پاس ریوالور تھا، ہم نے اسے حراست میں لے لیا لیکن وہ کوئی بات کرنے کو تیار نہیں تھا۔'
مدھوکر کہتے ہیں کہ پولیس سٹیشن میں بھی چارلس ان کے سوالات کے جوابات دینے سے انکار کرتا رہا لیکن پولیس اہلکاروں کو اس کی جیب سے کچھ رسیدیں ملیں جس کے ذریعے اس کے ساتھیوں تک پہنچنا آسان ثابت ہوا۔
'چارلس نے اپنے تمام ساتھیوں کو قریبی ہوٹلوں میں ٹھہرایا ہوا تھا، ہم نے وہاں چھاپے مارے اور سب کو گرفتار کر لیا۔ ان کے قبضے سے رائفلیں، سموک بم اور دستی بم ملے۔'
قتل ہونے والی چھوٹی بہن کی مٹھی میں موجود بال، جن کی مدد سے پولیس مبینہ قاتل بڑی بہن تک پہنچیقدموں کے نشانات سے ملزموں کی شناخت کرنے والے ’کھوجی‘: قتل کی واردات جس میں ’کھرا‘ مقتولہ کے شوہر کی حویلی پر جا رکاوہ گاؤں جہاں سینکڑوں شوہر اپنی بیویوں کے ہاتھوں قتل ہوئے30 روپے کے جھگڑے پر دو بھائیوں کے قتل کے ملزم’پولیس مقابلے‘ میں ہلاک
یہ تھا مدھوکر کے ہاتھوں چارلس کی گرفتاری کا پہلا واقعہ جس کے بعد زیورات کی چوری کے مقدمے میں انھیں دلّی پولیس کے حوالہ کر دیا گیا۔
مدھوکر کہتے ہیں اس کے کچھ عرصے بعد انڈیا اور پاکستان کی جنگ شروع ہو گئی اور ان دنوں بجلی کے بلیک آؤٹ ہونا عام سی بات تھی۔
ایسے ہی ایک روز چارلس نے پیٹ میں درد کا بہانہ بنایا اور جیسے ہی بلیک آؤٹ ہوا وہ صورتحال کا فائدہ اٹھا کر ہسپتال سے فرار ہو گئے۔
جب چارلس نے جُرم کا طریقہ بدل لیا
مدھوکر کہتے ہیں کہ پہلی گرفتاری کے بعد چارلس نے وارداتیں کرنے کا طریقہ کار بدل لیا تھا۔
سنہ 1972 اور سنہ 1976 کے درمیان چارلس پر 12 افراد کے قتل کا الزام لگا تھا۔ ان میں سے کچھ افراد منشیات کی زیادتی، کچھ ڈوب کر اور کچھ چھری کے وار سے ہلاک ہوئے تھے، جبکہ کچھ کو جلا کر مارا گیا تھا۔
مدھوکر کہتے ہیں چارلس نے دنیا بھر میں ایسے ہی جرائم کیے تھے اور انٹر پول نے ان کے خلاف نوٹس بھی جاری کر رکھا تھا۔
سنہ 1976 میں چارلس ایک مرتبہ پھر دلّی آئے اور اس بار ان کے ساتھ تین خواتین بھی تھیں۔
مدھوکر کہتے ہیں کہ چارلس نے ان تینوں فرانسیسی طالبات کو قائل کیا کہ وہ ایک ٹور گائیڈ ہیں اور موقع پا کر انھیں نشہ آور گولیاں کھلا دیں۔
ممبئی پولیس کے سابق افسر کے مطابق 'ان طالبات کی قسمت اچھی تھی کہ وہ پولیس سے رابطہ کر سکیں اور ایک بار پھر چارلس کو دلّی میں گرفتار کرلیا گیا۔'
BBCمدھوکر سنہ 1996 میں بطور اسسٹنٹ کمشنر ممبئی پولیس سے ریٹائر ہوئے ہیں
چارلس کے خلاف ایک اور مقدمہ درج کیا گیا اور انھیں اس مقدمے میں 12 برس قید کی سزا سُنائی گئی۔
چارلس کو دلّی کے تہاڑ جیل بھیجا گیا اور یہاں دس برس گزارنے کے بعد انھوں نے فرار ہونے کا منصوبہ بنایا۔
جیل میں پارٹی اور فرار کا منصوبہ
یہ 16 مارچ 1986 کا دن تھا جب چارلس نے تہاڑ جیل میں ایک پارٹی کا انعقاد کیا اور وہاں سے فرار ہو گئے۔
اس پارٹی میں چارلس نے نہ صرف قیدیوں کو مدعو کیا تھا بلکہ جیل اہلکاروں کو بھی بُلایا تھا۔ انھوں نے موقع پا کر وہاں موجود بسکٹس اور انگوروں میں نشہ آور چیز ملائی۔
یہ چیزیں کھا کر سب بیہوش ہو گئے اور موقع کا فائدہ اُٹھا کر چارلس چار قیدیوں کے ہمراہ فرار ہو گئے۔
چارلس کی خود اعتمادی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے فرار ہونے کے دوران جیل کے دروازے کے سامنے اپنی ایک تصویر بھی بنائی تھی۔
اس کے بعد ایک بار پھر تمام تحقیقاتی اداروں نے بِکنی کِلر کی تلاش شروع کر دی۔
29 مارچ 1986 کو ریلوے پولیس نے اجے سنگھ تومڑ نامی ایک شخص کو گرفتار کیا اور اسی شخص نے چارلس کا پتا تحقیقاتی اداروں کو بتایا۔
مدھوکر کہتے ہیں کہ پولیس کمشنر نے انھیں بُلایا اور کہا کہ وہ پہلے بھی چارلس کو گرفتار کر چکے ہیں اور انھیں دوبارہ یہ ذمہ داری سونپی جا رہی ہے۔
Getty Imagesیہ 16 مارچ 1986 کا دن تھا جب چارلس نے تہاڑ جیل میں ایک پارٹی کا انعقاد کیا اور وہاں سے فرار ہو گئے
اجے سنگھ تومڑ کی معلومات کے مطابق مدھوکر اپنی ٹیم کو لے کر چارلس کو گرفتار کرنے کے لیے گوا پہنچے۔
گوا میں چارلس کی تلاش
مدھوکر کہتے ہیں کہ انھیں معلوم ہوا کہ چارلس کی اہلیہ امریکہ میں مقیم ہیں اور وہ ایک جعلی پاسپورٹ پر گوا سے امریکہ سفر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
چارلس کے پاس ایک موٹر سائیکل تھی اور مدھوکر کو اس کا نمبر معلوم ہوگیا۔
مدھوکر کہتے ہیں کہ 'گوا میں غیر ملکیوں کے لیے موٹر سائیکل سٹینڈ ہوا کرتے تھے۔ ہم وہاں جایا کرتے تھے اور پوچھ گچھ کیا کرتے تھے۔'
مدھوکر اس سٹینڈ پر چارلس کی تصویر دکھا کر پوچھا کرتے تھے کہ 'کیا آپ نے میرے بھائی کو دیکھا ہے؟'
'وہاں ایک 14، 15 برس کا لڑکا تھا۔ اس نے کہا کہ یہ بندہ تو غیر ملکی ہے اور آپ انڈین لگتے ہو، آپ دونوں بھائی کیسے ہو سکتے ہو؟'
ممبئی پولیس کے سابق افسر کہتے ہیں کہ انھیں اس جواب سے یقین ہو گیا کہ چارلس گوا میں ہی ہیں۔
ہوٹل میں چارلس کی گرفتار
مدھوکر کہتے ہیں کہ چھ اپریل کو رات 10، 11 بجے انھوں نے گوا میں ایک ہوٹل میں دو لوگوں کو ہیٹ پہنے ہوئے دیکھا۔
'میں سوچ رہا تھا کہ رات میں ان لوگوں نے ہیٹ کیوں پہنے ہوئے ہیں؟ جب میں نے انھیں غور سے دیکھا تو مجھے یقین ہوگیا کہ ان میں سے ایک شخص چارلس ہے۔'
ممبئی پولیس کے سابق افسر کہتے ہیں کہ 'یہ دو افراد تھے جو ہوٹل میں ایک ٹیبل پر آ کر بیٹھے اور کھانے کا آرڈر کیا۔ اس وقت تک میں ان کی گرفتاری کی منصوبہ بندی کر چکا تھا۔'
'میں نے اپنے ساتھی ساتھیوں سے بات کی اور ان دونوں افراد کے پیچھے پہنچ کر چارلس کا نام پُکارا جسے سُن کر وہ حیران سا ہو گیا۔'
Getty Imagesمدھوکر کہتے ہیں کہ راجیو گاندھی نے بھی انھیں فون کر کے چارلس کی گرفتاری پر ان کی تعریف کی تھی
مدھوکر کہتے ہیں کہ چارلس نے انھیں دیکھ کر بندوق اُٹھانے کی کوشش کی لیکن پولیس اس وقت تک اسے قابو کر چکی تھی۔
'ہم نے چارلس کو ہوٹل سے لی گئی رسّی سے باندھ کر گاڑی میں بٹھا دیا۔ اس کے بعد ہم نے پولیس کمشنر کو فون کیا اور انھیں چارلس کی گرفتاری کی خبر دی۔'
مدھوکر کہتے ہیں کہ گرفتاری کے بعد چارلس نے انھیں کہا کہ: 'تم نے اپنا کام کر دیا، اب مجھے گرفتار کر کے تم مشہور ہو جاؤ گے۔'
مدھوکر کہتے ہیں کہ راجیو گاندھی نے بھی انھیں فون کر کے چارلس کی گرفتاری پر ان کی تعریف کی تھی۔
گوا سے گرفتاری کے بعد چارلس کی سزا میں اضافہ کر دیا گیا تھا۔ سنہ 1997 میں انڈیا نے بکنی کِلر کو فرانس کے حوالے کر دیا تھا۔
چارلس کی نیپال آمد
سنہ 2003 میں چارلس نیپال گئے تھے اور انھوں نے وہاں میڈیا تک سے بات کی تھی۔ ان کی یہاں آمد حیران کُن اس لیے تھی کیونکہ یہ وہ واحد ملک تھا جہاں وہ اب بھی تحقیقاتی اداروں کو مطلوب تھے۔
نیپال پولیس نے انھیں کٹھمنڈو سے گرفتار کیا اور انھیں سنہ 2004 میں عمر قید کی سزا سُنائی گئی۔
21 دسمبر 2022 میں نیپال کی سپریم کورٹ نے سیریل کِلر چارلس سوبھراج کی رہائی کا حکم دیا۔ حکام کے مطابق یہ حکم چارلس کی گرتی ہوئی صحت اور بڑھتی ہوئی عمر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے جاری کیا گیا تھا۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن: جب انڈیا کے پہلے گورنر جنرل کو کشتی پر نصب بم کی مدد سے قتل کر دیا گیاثنا یوسف کا قتل: ’بہن کو آواز آئی کہ شاید کوئی غبارہ پھٹا ہے‘جادو ٹونے کے الزام میں ایک ہی خاندان کے پانچ افراد کو قتل کرنے کا واقعہ جس نے پورے انڈیا کو ہلا کر رکھ دیا’خواب میں توہین مذہب‘: ڈیرہ اسماعیل خان میں استانی کو قتل کرنے والی دو طالبات کو سزائے موتسکھ علیحدگی پسند رہنماؤں کے قتل کی مبینہ سازش: انڈین شہری کا امریکی عدالت میں صحتِ جرم سے انکار