پاکستان میں صحافت کی تاریخ ہمیشہ سے اداریوں کی روایت کے گرد گھومتی رہی ہے۔ کسی اخبار کا اداریہ محض ایک کالم نہیں بلکہ ادارے کا اجتماعی موقف اور پالیسی سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں خبر تجزیے میں ڈھلتی ہے اور قاری کو فکری سمت فراہم کی جاتی ہے۔لیکن جب پاکستان کے سب سے بڑے قومی اخبار، روزنامہ جنگ، نے اچانک اداریہ شائع کرنا بند کر دیا، تو یہ خبر بذاتِ خود ایک اداریہ بن گئی۔85 سال بعد، 8 اور 9 ستمبر کو جنگ کے ادارتی صفحات پر کوئی اداریہ شائع نہیں ہوا۔ اخبار نے کسی قومی یا بین الاقوامی معاملے پر اپنی رائے ظاہر نہیں کی۔ اگرچہ اسے ’اندرونی تبدیلی‘ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، مگر اس کے اثرات اردو صحافت کی تاریخ پر گہرے ہوں گے۔اداریے کی روایت: ایک تاریخی پس منظرروزنامہ جنگ کی بنیاد 1940 میں دہلی میں میر خلیل الرحمٰن نے رکھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہ اخبار کراچی منتقل ہوا اور جلد ہی اردو صحافت کا سب سے مؤثر نام بن گیا۔ اسی گروپ کے تحت دی نیوز، جیو نیوز اور دیگر ادارے وجود میں آئے۔
جنگ ہمیشہ ایک مین سٹریم اخبار رہا ہے، جس کی ادارتی پالیسی میں احتیاط نمایاں رہی۔ ادارتی صفحات پر بعض اوقات سخت گیر کالم شائع ہوتے رہے، جن پر حکومتوں کا ردِ عمل بھی آیا، مگر خود اخبار کے اداریے ہمیشہ متوازن اور محتاط زبان میں لکھے جاتے رہے۔ اس احتیاط کے باوجود، جنگ کا اداریہ قاری کے لیے فکری رہنمائی کا ذریعہ تھا۔
اداریہ کیا ہوتا ہے؟اداریہ کسی اخبار یا جریدے کا ادارہ جاتی موقف ہوتا ہے، جو کسی اہم مسئلے پر ادارے کی اجتماعی رائے کو ظاہر کرتا ہے۔ دنیا بھر میں اداریہ اخبار کا سب سے بااثر حصہ تصور کیا جاتا ہے۔امریکہ میں نیویارک ٹائمز کے اداریے کئی بار صدارتی پالیسیوں پر اثرانداز ہوئے۔برطانیہ میں دی گارڈین اور دی ٹائمز نے اپنے اداریوں کے ذریعے سیاسی مباحث میں کلیدی کردار ادا کیا۔پاکستان میں مارشل لا ادوار میں کئی اخبارات نے اداریوں کے ذریعے خاموش احتجاج ریکارڈ کرایا۔ (فوٹو: اے ایف پی)جنوبی ایشیا میں اداریہ ہمیشہ صحافت کی طاقتور علامت رہا ہے۔برصغیر میں اردو صحافت اور اداریہاردو صحافت کا آغاز انیسویں صدی میں ہوا، جب اخبارات صرف خبروں کے مجموعے نہیں تھے بلکہ تحریکِ آزادی کا ہتھیار بھی تھے۔ زمیندار کے ایڈیٹر مولانا ظفر علی خان، الہلال کے بانی مولانا ابوالکلام آزاد، اور حسرت موہانی جیسے صحافیوں کے اداریے نوآبادیاتی حکومت کے لیے خطرہ بن گئے تھے۔انگریز حکومت نے سخت اداریوں کے باعث اخبارات پر پابندیاں لگائیں، مدیران کو قید کیا اور بھاری جرمانے عائد کیے۔ اس تناظر میں اداریہ محض ایک صحافتی صنف نہیں، بلکہ مزاحمت کی علامت بن گیا۔قیام پاکستان کے بعد بھی اداریے نے اردو صحافت میں اپنی اہمیت برقرار رکھی۔مارشل لا ادوار میں کئی اخبارات نے اداریوں کے ذریعے خاموش احتجاج ریکارڈ کرایا۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں بعض اخبارات نے اداریے کی جگہ خالی چھوڑ دی یا علامتی سطور شائع کیں۔یہ ایک خاموش مگر مؤثر احتجاج ہوتا تھا، جو قاری کو بین السطور بہت کچھ سمجھا دیتا تھا۔ اداریے حکومتوں کے لیے ناپسندیدہ، اور عوام کے لیے امید کا استعارہ بنے رہے۔ادارتی روایت سے انحراف کی کوششیںماضی میں کچھ اخبارات نے اداریے کے بغیر چلنے کی کوشش کی۔روزنامہ خبریں نے ابتدا میں اداریہ شائع نہیں کیا، مگر بعد میں قاری کے مطالبے پر اسے بحال کرنا پڑا۔ہفت روزہ زندگی نے بھی بغیر اداریے کے اشاعت شروع کی، مگر جلد ہی روایت کی طرف لوٹنا پڑا۔یہ واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ قاری اداریے کو صرف ایک رائے نہیں بلکہ ادارے کی فکری پہچان سمجھتا ہے۔جنگ گروپ کا موقفروزنامہ پاکستان کے ایڈیٹر ان چیف مجیب الرحمٰن شامی کے مطابق ’بظاہر لگتا ہے کہ جنگ اخبار نے بچت کے لیے اداریہ بند کیا ہے۔ یہ کسی حکومتی دباؤ کا نتیجہ نہیں لگتا، کیونکہ جنگ کی ادارتی پالیسی کبھی سخت نہیں رہی، البتہ ادارتی صفحات پر سخت گیر کالم ضرور شائع ہوئے جن کی وجہ سے اخبار کو مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔‘جنگ گروپ کے ایک سینئر عہدیدار نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اداریے کو نہ چھاپنا مکمل طور پر ایک اندرونی فیصلہ ہے۔ ڈیجیٹل صحافت کے بڑھتے رجحان کی وجہ سے اردو اداریہ تقریباً غیر مؤثر ہو چکا ہے، اس لیے یہ فیصلہ وقت کے تقاضوں کے مطابق کیا گیا۔‘انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل صحافت نے قاری کا رویہ بدل دیا ہے۔ آج کی دنیا میں خبر فوری طور پر سوشل میڈیا یا نیوز ایپس پر دستیاب ہوتی ہے۔اداریہ اب بعض قارئین کے لیے ’دیر سے آنے والا تجزیہ‘ محسوس ہوتا ہے، جبکہ نئی نسل اپنا تجزیہ یوٹیوب ویڈیوز، ٹویٹر تھریڈز اور ٹی وی مباحثوں سے اخذ کرتی ہے۔ اس باعث ادارتی صفحات اپنی کشش کھو رہے ہیں، اور شاید یہی وجہ ہے کہ جنگ جیسے بڑے ادارے نے اس روایت کو ترک کیا۔اداریہ کیوں اہم تھا؟ادارے کی پالیسی کا اظہار ہوتا تھا اور قاری جانتا تھا کہ اخبار کس موقف پر کھڑا ہے۔عوامی رائے سازی ہوتی تھی اور سیاسی و سماجی مسائل پر سنجیدہ گفتگو کا آغاز ہوتا تھا۔حکومت پر دباؤ: پالیسیوں پر مؤثر اور باوقار تنقید ممکن تھی۔تاریخی ریکارڈ: اداریے کسی دور کے سیاسی و سماجی مزاج کی دستاویزی شہادت ہوتے تھے۔جنگ کا فیصلہ بلاشبہ اردو صحافت میں ایک نئی بحث کو جنم دے گا کہ کیا دیگر قومی اخبارات بھی یہی روش اپنائیں گے؟اگر ایسا ہوا، تو اردو صحافت میں اداریے کی روایت صرف تاریخ کی کتابوں میں باقی رہ جائے گی۔تاہم، ایک موقف یہ بھی ہے کہ قاری کی سنجیدہ تحریر اور ادارتی موقف کی طلب اب بھی باقی ہے۔ فوری تجزیہ اپنی جگہ، لیکن ادارتی صفحہ جس فکری گہرائی اور ادارہ جاتی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے، وہ ٹویٹس اور ویڈیوز میں ممکن نہیں۔اردو صحافت میں اداریہ محض ایک کالم نہیں، بلکہ ایک عہد کی علامت رہا ہے۔ مولانا ظفر علی خان سے لے کر میر خلیل الرحمٰن تک، اداریہ صحافت کی روح تصور کیا جاتا رہا ہے۔روزنامہ جنگ کا فیصلہ — یہ ایک مالی مجبوری ہے یا فکری پسپائی؟ اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔لیکن ایک بات طے ہے کہ اداریے کے بغیر اخبار ضرور چھپ سکتا ہے، لیکن کیا وہ اپنی فکری و ادارتی ساکھ قائم رکھ پائے گا؟ یہ سوال ابھی باقی ہے۔