’ٹوتھ اِن آئی‘، حیرت انگیز سرجری کے بعد نابینا شخص کی بینائی لوٹ آئی

اردو نیوز  |  Sep 17, 2025

کینیڈا میں ایسی حیرت انگیز سرجری کے ذریعے ایک شخص کی بینائی واپس لائی گئی ہے جس میں دانت کو نکالنے کے بعد گال میں لگا کر آنکھ کے خلیوں کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔

نیوز چینل سی این این کی رپورٹ کے مطابق یہ عجیب واقعہ برینٹ چیپ مین کے ساتھ پیش آیا جس کو طویل عرصے تک مشکل صورت حال کا سامنا رہا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ برینٹ جب 13 سال کے تھے تو انہوں نے کرسمس کے موقع پر ہونے والے ایک بیس بال میچ میں آئبوپروفن دوا لے لی تھی، جو ایک قسم کا نشہ ہوتا ہے اور وہ اس سے قبل اسے لیتے رہے تھے تاہم اس وقت کا انتہائی مختلف ری ایکشن سامنے آیا۔

ان کے پورے جسم اور آنکھوں میں جلن شروع ہوئی اور وہ بے ہوش ہو گئے جس کے بعد وہ 27 روز تک کومہ میں رہے۔ اس دوران ان کی آنکھوں میں بہت زیادہ انفیکشن ہوئی، جس سے ایک آنکھ کی بینائی مکمل طور پر ختم ہو گئی جبکہ دوسری کی بھی بہت متاثر ہوئی۔

علاج کے بعد ان کا جسم تو ٹھیک ہو گیا تاہم نظر ویسی ہی رہی۔

آپریشن کے بعد برینٹ چیمپ مین کا کہنا تھا کہ ’پچھلے 20 برس کے دوران اپنی انکھ کو بچانے کے لیے تقریباً 50 سرجریز سے گزرا، مگر آنکھ ٹھیک نہ ہو سکی۔‘

تاہم پروفیسر ڈاکٹر گریگ مولونی نے اس کے لیے ایک انتہائی کمیاب طریقہ کار اختیار کیا جس میں چیپ مین کے دانت کو ان کی آنکھ کے قریب گال میں لگانا تھا۔

آپریشن کے بعد چیپ مین نے کہا کہ ’میں دنیا میں واپس آ گیا ہوں اور اس پر بہت خوش ہوں۔‘

برینٹ چیپ مین کا کہنا ہے کہ ’لگتا ہے کہ دنیا میں واپس آ گیا ہوں۔‘ (فوٹو: سی این این)

اس طریقہ علاج کو اوسٹیو اوڈونٹو کیراٹوپروستھیسس کہا جاتا ہے اور ’ٹوتھ ان آئی‘ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ اس میں مریض کے دانت کے ایک ٹکڑے کو گال میں سیا جاتا ہے اور کچھ حصہ آنکھ میں ڈالا جاتا ہے۔

یہ آنکھ کے کچھ مسائل کے علاج کے لیے آخری طریقہ کار ہوتا ہے۔

بیل سکول آف میڈیسن کے ماہر چشم اور بصری سائنس کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ویسینٹ ڈیاز کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک ایسی صورت حال ہوتی ہے جس میں صرف پردے کے ٹرانسپلانٹ سے بات نہیں بنتی۔‘

وہ چیپ مین کے علاج میں شامل نہیں تھے تاہم نشہ آور اشیا کے جسم اور آنکھوں پر پڑنے والے اثرات کا علاج کرتے ہیں۔

اس کو سٹیونز جانسن سنڈروم کہا جاتا ہے اور چیپ مین بھی اسی کا شکار ہوا تھا۔

اس سے آنکھ کے فوکس کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے جو مکمل اندھے پن کا باعث بھی بن سکتی ہے۔

اوسٹیو اوڈونٹو کیراٹوپروستھیسس کے طریقہ علاج کو ’ٹوتھ ان آئی‘ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے (فوٹو: آئی کیئر)

مولونی کا کہنا تھا کہ دانت ایک ایسی مثالی چیز جس کی بدولت فوکس کرنے والے اجزا کو ان کی جگہ رکھا جا سکتا ہے اور جسم اس کو قبول کر لیتا ہے۔

ایک صحت مند آنکھ کا پردہ ایک شیڈ کی طرح کام کرتا ہے اور اس کے ذریعے روشنی آنکھ تک جاتی ہے، جہاں سے یہ الیکٹریکل سگنلز میں تبدیل ہو کر دماغ تک جاتی ہے اور اس کی شفافیت ان خلیوں پر منحصر ہوتی ہے جہاں سے وہ گزرتے ہیں۔

جب کارنیا زیادہ متاثر ہو جاتا ہے اور وہ ٹرانسپلانٹ کے قابل بھی نہیں رہتا تو سرجن ایسے وقت میں ’ٹوتھ ان آئی‘ سرجری کا مشورہ دیتے ہیں۔

اس طریقہ کار میں ایک کینائن دانت کو جبڑے سے نکالا جاتا ہے اس کے ساتھ ہڈی کی پتلی پرت بھی ہوتی ہے جو اسے زندہ رکھتی ہے اور اسے سہارا دینے کے ساتھ خون بھی فراہم کرتی ہے، پھر کچھ دیگر اقدامات کے بعد اس کو مریض کے گال میں لگایا جاتا ہے جس سے منظر دکھانے والے خلیوں کی نشوونما ہوتی ہے بینائی بحال ہو جاتی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More